اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: کی محمد سے وفا، تو نے تو ہم تیرے ہیں!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday 24 November 2018

کی محمد سے وفا، تو نے تو ہم تیرے ہیں!

ازقلم: شہباز نعمانی
ــــــــــــــــــــــــــــ
آؤ شہباز آخر تم آہی گئے، لیکن آنے میں بڑی تاخیر کی، بہت انتظار کرایا، صدیاں گزار کر آئے، لیکن مجھے امید تھی تم آؤ گے، میں تمہارے آنے سے کبھی نا امید نہیں ہوئی، کبھی مجھ پر مایوسی کے بادل نہیں چھائے، لیکن معاف کرنا میں تمہاری خاطر تواضع نہیں کر پاؤں گی، میں تو اپنے معصوم بچوں کے لئے دودھ کا انتظام نہیں کرپاتی، بعض اوقات میرے جوان بیٹوں کو کئی کئی دن فاقہ کشی میں گزارنے پڑتے ہیں، اور نہ جانے کتنے تو بھوک کی شدت سے میری آنکھوں کے سامنے دم توڑ گئے، لیکن ہاں میں تمہارے آنے کے مقصد سے خوب واقف ہوں،
اور اس مقصد کی تکمیل میں تمہارا پورا ساتھ دونگی، صدیوں کے اوراق پہ پھیلی میری اجڑی داستان ہے، میں نے مرور زمانہ کے ساتھ بھت کچھ دیکھا، اور آج بھی دیکھ رہی ہوں، میں قوموں کے عروج و زوال کے راز سے باخوبی آشنا ہوں، میں جانتی ہوں کہ کیسے کوئی قوم اوج سریہ پہ کمندیں ڈالٹی ہے، اور کیسے تحت الثراء کی گہرائیوں میں جا گرتی ہے،آج سے صدیوں قبل میں نے ایک حاکم کو دیکھا تھا، جسکی حکومت تقریباً 22 لاکھ مربع میل کے علاقے پہ پھیلی ہوئی تھی،میں ہمیشہ سے اسکے قصے سنتی آئی تھی، اس کے دشمنوں کے دلوں میں اس کے رعب اور ہیبت کی داستانیں سنی تھیں، دل میں اسے دیکھنے کی تمنا اور آرزو مجھے ہما وقت بے چین و بے قرار کئے رہتی، میں بارگاہِ الٰہی میں شب و روز اس کے دیدار کے لئے دعا کرتی، لیکن ساتھ ہی اس کے دیدار سے محرومی کا غم بھی ستاتا رہتا،آخر میری دعا بارگاہِ الٰہی میں شرفِ قبولیت کو پہنچ گئی، اچانک ایک دن میں نے اسکی آمد کا شور سنا، اور دیکھا فارس روم کے تمام لوگ اس کو دیکھنے کے لئے آ پہونچے ہیں، لوگوں کا اتنا بڑا ہجوم میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، لوگ جوگ در جوگ آتے ہی چلے جارہے تھے، اور ہر ایک ٹکٹکی باندھے اس کے دیدار کا شوق دل میں لئے دیوانہ وار اس کی راہ تک رہا تھا، کہ یکایک دو شخص پہاڑی کی اونٹ سے نمودار ہوئے، ایک اونٹ پر سوار تھا، تو دوسرا سواری کی مہار تھامے پیدل چل رہا تھا،اور اسی حال میں دونوں میری دہلیز تک آئے، اچانک لوگ استقبال کے لئے سوار شخص کی طرف بڑھے، تو میری حیرت کی انتہا نہیں رہی،جب میں نے سوار شخص کو کہتے سنا، امیر المومنین میں نہیں یہ ہیں،میں حیرت و تعجب میں محو اس کو دیکھتی رہی. تاریخ اسلام کا عظیم ہیرو اور فاتح جسکا نام سنکر روم و ایران کے بادشاہوں کے دل دہل جایا کرتے تھے، میرے پاس اس حال میں آیا کہ اسکے کپڑوں میں چودہ پیوند لگے تھے اور غلام کو سواری پر بٹھائے خود لگام پکڑ کر پیدل چل رہا تھا، شاید تم سمجھ گئے، ہاں وہ ابن خطاب تھا، بادشاہت میں بھی اقلیم زہد و فقر کا بے تاج فرماں روا، محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کا سچا عاشق اور جانثار غلام، جسکی غلامی نے اسے فاروق اعظم کا خطاب دلوا دیا،
       ــــــــــعـــــــ
 کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں،
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں.

ہاں جب تک عبداللہ کے یتیم سے وفا کا ثبوت دیا، تو آسمانوں کی بلندی پر کمندیں ڈالدئں، اور بلند پروازی سے فرشتوں کو حیران کردیا، روم و ایران مشرق و مغرب میں اسلام کا جھنڈا لہرا دیا ، لیکن ہائے افسوس جب سے محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقہ سے بغاوت کی،نوجوان گانے بجانے کے عادی ہوگئے، پیشانی کو سجدے کے چھومر سے سجانے کے بجائے سر پر بغاوت کا تاج رکھ لیا، عشق الہی اور محبت رسول کی چنگاری دل میں جلانے کے بجائے، ناچ گانوں پہ تھرکنا شروع کردیا، مصلے پر رونے والیوں نے پیر میں گھنگھرو باندھ لئے، قرآن کو پس پشت ڈال دیا، تو پھر مائیں دوسرا عمر نہ جن سکیں، صلاح الدین نہ دے سکیں، جو پھر سے میرے معصوم بچوں پہ ہورہے مظالم کو روکتا اور مسجد اقصٰی میں اللہ اکبر کی صدا لگاتا، ہائے امت کی مائیں بانجھ ہوگئیں،
    ـــــــــــعـــــــ
آ تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر سناں اول، طاؤس و رباب آخر