اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: کیا اس لیے خوشی مناتے کہ چھبیس جنوری ہے؟

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Sunday 27 January 2019

کیا اس لیے خوشی مناتے کہ چھبیس جنوری ہے؟

وصی اللہ قاسمی سدھارتھ نگری
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کے طور پر متعارف وطن عزیز "ہندوستان" کا 70/واں جشن یوم جمہوریہ منائے جانے کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں، کہیں حفاظتی بند وبست تھا تو کہیں پریڈ کی تیاری. دینی وعصری تعلیم گاہوں کی بات کیجیے یا جماعتی، سرکاری وغیر سرکاری مقامات کی، غرضیکہ ایک منظم شکل میں، آزاد بھارت کی پہچان کے طور پر معروف " ترنگا جھنڈا " ایک بار پھر سہ رنگی انگڑائیاں لینے کے لیے بیتاب تھا اور اپنے دامن میں لپٹے پھولوں کو زمین پر بھیج کر خوشبؤوں اور خوشیوں کو بکھیرنے ہی والا تھا کہ اسی دوران ایک پست آواز سنائی دیتی ہے جو ساری سرگرمیوں کو موقوف کردیتی ہے، یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی بوڑھی عورت اپنے ظالم  بیٹوں سے کچھ فریاد کرنا چاہتی ہے؛ لیکن آواز ہے کہ صاف سنائی نہیں دیتی، گلے کی خراش بدمزگی پیدا کرنا چاہتی ہے؛ لیکن جدوجہد اور عزم و استقلال سے جوان یہ پست آواز کچھ اس انداز سے اپنی دکھ بھری آپ بیتی کا آغاز کرتی ہے :
"میں نے اپنی عمر کی کئی بہاریں دیکھی ہیں، چہرے پر جھُرّیاں پڑچکی ہیں اور پیشانی پر باریک لکیریں بھی....... رُکیے..... رُکیے...... ذرا رُکیے! بلکہ میں نے اپنی عمر کی کئی خزائیں دیکھی ہیں، بہاروں کا تو میری زندگی سے کوئی خاصا واسطہ نہیں، کیونکہ :

فطرت آرائے جنوں ہے تنِ عریاں میرا
میری بیچارگیاں ہیں سروساماں میرا

عمر کا اتنا لمبا عرصہ گزرجانے کے باوجود، لوگ مجھے حق وانصاف کی شناخت قرار دیتے ہیں؛ حالانکہ میں نے اپنی آنکھوں سے ظلم وستم، درود وکرب،. غم وآلام اور اضطراب وبے چینی کی ایسی ایسی اَن گنت اور ان َ کہی داستانیں دیکھی اور سُنی ہیں، جنہیں سوچ کر آج بھی میرا سر احساسِ ندامت سے جھک جاتا ہے، میں نے بہتوں کو انصاف دلانے میں کامیابی حاصل کی ہے؛ لیکن آج بھی عوام میں ایک کثیر تعداد ایسے مظلوموں کی ہے جو میری درازئ عمر کے باوجود، میرے لرزتے ہاتھوں میں اپنا نصیبہ تلاش کرتی ہے، نتیجتاً کبھی نامرادی تو ہاتھ لگتی ہے پَر مایوسی نہیں. نامرادی اس لیے کہ کچھ ناعاقبت اندیش مسلسل میرے اور ان مظلوموں کے تعاقب میں رہتے ہیں؛ پھر بھی مایوس اس لیے نہیں ہونے دیتی کہ پورے معاشرے کو قانونی طور پر حاکمانہ اختیارات سے بہرہ مند کرنا، میرا دوسرا نام ہے...... میں حکومتی پالیسیوں کو طے کرنے کے لیے کسی نہ کسی شکل میں عوامی رائے کو بنیاد بنانا ضروری قرار دیتی ہوں......... میں عوامی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہتی ہوں..... میری ساری توانائیاں اسی کے لیے صَرف ہوتی ہیں..... میں ایک ایسے طرزِ حکومت کے لیے کام کرتی ہوں جو سب کے لیے قابلِ قبول ہو....... اسی لیے میرے خمیر میں آمریت کی دور سے بھی کوئی آمیزش نہیں...... میری ساری جدوجہد عوام پر.......... عوام کے ذریعہ............. عوام ہی کی حاکمیت کی خاطر کار فرما ہوتی ہے.
اب میں آپ کو اپنی ماضی سے گزار کر حال میں لانا چاہتی ہوں
تو سنو !.... ذرا توجہ کے کانوں سے سنو !...... میرے گیسوؤں کو سنوارنے کا کام اس وقت شروع ہوا تھا، جب اس ملک کو 1947ء/ میں ظالمانہ برطانوی ایکٹ سے نجات ملی تھی، پھر ڈاکٹر امبیڈکر کی صدارت میں 13/ کمیٹیوں کے ذریعہ دوسال سے زائد پر محیط ایک طویل عرصہ میں میری ایک ایک نوک پلک پر کافی ردوقدح، بحث ومباحثہ، ترمیم وتنسیخ اور حذف واضافہ کے بعد مجھے آخری اور تکمیلی شکل دینے کے لیے 26/ نومبر 1950ء/ کو اسمبلی میں پیش کیا گیا، بعد ازاں ہمیشہ کے لیے ہندوستانی عوام کی خدمت کی خاطر میدان میں اتار دیا گیا.
وہ دن ہے اور آج کا دن ! میرے پاؤں میں لغزش نہیں آئی، میرا سابقہ محبت اور نفرت دونوں میدان کے کھلاڑیوں سے رہا، محبت کرنے والوں کو میں نے انعام سے نوازا اور نوازتی بھی رہوں گی  ! اور اپنی ذات سے نفرت کرنے والی ایک تعداد کو سبق سکھانے میں کامیابی تو حاصل کی ہے؛ لیکن اس حقیقت کے اعتراف میں مجھے کوئی  تامل نہ ہونا چاہیے کہ میری عمر جوں جوں دراز ہوتی گئی اتنا ہی مجھے فنا کے گھاٹ اتارنے کی خاطر کام کرنے والے عناصر عروج حاصل کرتے گئے اور آج وہ میری پیٹھ میں چھرا گھونپ کر مجھے اس ملک سے بھگاوا دینے کی آخری کوششیں کررہے ہیں، جھوٹ پر جھوٹ بولے جارہے ہیں اور پروپیگنڈوں کا تو معلّم اول بننے کے لیے ساری توانائیاں جھونکے ہوئے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے کوئی دوسرا متبادل تلاش کرلیا ہے، لیکن میں تمام باشندگان وطن کو اس بات سے باخبر کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ مجھے ختم کرکے کسی متبادل کو اپنا کر خوش نہیں رہ پاؤگے!
اور سنو !  چلو ایک سچی مگر انتہائی کڑوی بات بھی بتاتی چلوں.... اس پوری کارروائی اور بد عنوانی میں ملوث حلقے کا تانا بانا جس سے ملتا ہے اور تاریخ میں جس نے اپنا نام انتہائی بدبودار روشنائی سے درج کرایا ہے اس کو میں  اپنی ہمہ گیر طاقت کے بل بوتے پر عدلیہ کے پلیٹ فارم سے دو مرتبہ غیر قانونی قرار دے چکی ہوں، اور آج اس ملک کا ہر طبقہ اس کا تعلق کسی بھی دھرم اور مذہب سے ہو، انہیں کی وجہ سے مصائب ومسائل کے گھیرے میں ہے، جبکہ میں نے ہر ایک کو سماجی، معاشی، اور سیاسی انصاف کے حقوق فراہم کیے تھے، اظہار خیال، یقین، اعتماد، اعتقاد اور مذہب کی آزادی عطا کی تھی، ہر شخص کو مساوی حقوق سے بھی نوازا تھا، قوم کے اتحاد اور ہر فرد کی عزت و توقیر کا سامان بھی مہیا کیا تھا اور آج یہ  اعلی اقدار تباہی وبربادی کے آخری دہانے پر ہیں، چنانچہ کبھی گھر واپسی کے نام پر کسی کو ٹارچر کیا گیا تو کبھی مختلف معاملوں میں مسلم نوجوانوں کا قتل کیا گیا، آزادی مذہب کو ختم کرنے کے لیے یوگا اور سوریہ نمسکار کو ہر ایک کے لیے لازم کرنے کی غیر منصفانہ کوشش کی گئی، ملک میں شرافت کے جامے سے باہر نکل جانے والوں نے پاکستان جاؤ کے نعرے لگائے، طلاق ثلاثہ بل کے نفاذ کی انتھک کوشش کی، ملعون زمانہ بدزبان  طارق فتح کا سہارا لے کر " دوسرے کے کندھے پر بندوق چلانے" کی عملی مشق کی گئی، بابری مسجد قضیے کو لاینحل بنانے کی ہر ممکن کوشش کی،  مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو ایک سازش کا حصہ قرار دے کر اپنے ذہنی دیوالیہ پن کی دلیل لوگوں کے ہاتھوں میں تھمائی، سادہ لوح عوام کے دلوں میں مسلمانوں کے تئیں نفرت پیدا کرنے کی غرض سے لوجہاد، گئو تحفظ جیسی غیر قانونی مہم چھیڑی، مسلم مکت بھارت کا نعرہ لگایا، میرے لیے مایہ فخر جنت نشاں کشمیر میں طویل ترین کرفیو نافذ کیا، (جس کا سلسلہ چلتا ہی رہتا ہے،) مسلم پرسنل لاء میں دراندازی کی تدبیریں کی گئیں، قومی خزانے سے کئی لاکھ کروڑ کے گھوٹالے ہوئے، میرے ماتھے پر نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کا کلنک لگایا گیا،...... ان تمام چیزوں سے بڑھ کر میرے جگر کو چھلنی کرنے والا ایک درد انگیز سانحہ اس وقت پیش آیا جب مجھے سنوارنے والوں نے حقیقت کا اظہار ان الفاظ میں کیا  کہ : سپریم میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے

الغرض!

یہ نہ سمجھو ! گرا ہے ایک مکاں
ایکتا کے گلے کا ہار گرا

اُف عروسِ وطن کے جھومر سے
ٹوٹ کر دُرّ شاہوار گرا

عدلیہ ، انتظامیہ ، قانون
تن سے ہر ایک کے ازار گرا

معتبر، غیر معتبر نکلے
پایہ اہلِ اقتدار گرا
اس لیے جشن منانے کی خاطر موجود تمام لوگوں سے میرا ایک سوال ہے، وہ یہ کہ ملک جب یہ اور ان کے علاوہ نہ جانے کتنے مسائل سے جوجھ رہا ہے پھر آج یہاں کس بات کی خوشی میں جشن منارہے ہو؟، کیا صرف اس لیے کہ آج 26/ جنوری ہے؟
اگر تمہارا جواب ہاں میں ہے تو یاد رکھو ! کہ کوئی دن اور تاریخ اپنی ذات میں کسی خصوصیت کے حامل نہیں ہوتے، ہاں ! ان سے جڑی نسبتیں ضرور خصوصیت پیدا کردیتی ہیں؛ لیکن جب وہ نسبتیں ختم ہوجائیں تو ظاہر ہے وہ ایام اور تاریخیں بھی اپنی اہمیت اور خصوصیت کھو بیٹھتی ہیں.
تم اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہو تو بتاؤ! آزادی سے کیا مراد لیتے ہو؟ کسی بیرونی قوم کو اپنے ملک سے نکالنا یا اس سے زیادہ کچھ اور؟..... شاید آزادی انسان کی فطرت میں ایک ایسی خواہش کا نام ہے جسے خواہشِ بینا کہتے ہیں، یہ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کا خواب ہے جس میں مساوات ہو، عدل ہو، انصاف ہو، استحصال نہ ہو، نیز جس معاشرے یا ملک میں مذہبی آزادی ہو اور جہاں حکمراں بدیسی نہ ہوں؛ بلکہ دیسی ہوں، جہاں ترقی کے مواقع سب کو یکساں طور پر مہیا کرائے جائیں، لیکن یاد رہے کبھی کبھی دیسی حکمراں بھی بدیسی حکمرانوں سے زیادہ ظالم اور جابر ہوسکتا ہے، اس طرح کی تاریخی صورت حال اکثر پیدا ہوجاتی ہے، اس لیے آزادی کی جدوجہد ایک مسلسل عمل کے طور پر معاشرے کے افراد میں موجود ہونا چاہیے، آزادی محض سیاسی مفہوم نہیں رکھتی؛ بلکہ آزادی ایک ہمہ گیر اصطلاح ہے، جس کا مقصد انسانی معاشرے کی جملہ ساختوں مثلاً : سیاسی، سماجی، اقتصادی، مذہبی اور لسانی امور کی تہذیب میں ایک توازن ہو. (اقتباس)

لہذا آج خوشی میں سرشار تمام ہندوستانیوں سے میں ایک درخواست کرنا چاہوں گی کہ وطن عزیز کو تباہ کرنے والے فاسد عناصر سے بیک آواز ان الفاظ میں خطاب کرو! کہ :

نئی صبح چاہتے ہیں، نئی شام چاہتے ہیں
جو یہ روز و شب بدل دے، وہ نظام چاہتے ہیں

وہی شاہ چاہتے ہیں، جو غلام چاہتے ہیں
کوئی چاہتا ہی کب ہے؟ جو عوام چاہتے ہیں

اور آپسی رویہ کچھ ایسا بناؤ کہ یک جان دو قالب کا نقشہ پیش کرتے ہوئے ایک دوسرے سے یوں کہو کہ :

ہردم آپس کا یہ جھگڑا میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
کل کیا ہوگا شہر کا نقشہ، میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

ایک خدا کے سب بندے ہیں، ایک آدم کی سب اولاد
تیرا میرا خون کا رشتہ، میں بھی سوچوں تو بھی سوچ