اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: دارالعلوم ندوۃ العلماء کا ایک علمی ستارہ روپوش!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday 28 January 2019

دارالعلوم ندوۃ العلماء کا ایک علمی ستارہ روپوش!

تحریر: مولانا محمد یوسف صاحب قاسمی ندوی
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ دنیا ایک فانی جگہ ہے، جہاں سے روزانہ انسانوں کے آنے کی طرح جانا بھی لگا رہتا ہے، اور ہر ایک کو اپنے متعلقین کے جانے سے غمی اور تکلیف ہوتی ہے، لیکن بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جن کے جانے سے چند گنے چنے افراد کو تکلیف نہیں ہوتی ہے، بل کہ ایک عالم سوگوار ہوجاتا ہے، انھیں عظیم تر شخصیات میں ایک نام حضرت مولانا سید واضح رشید صاحب ندویؒ معتمد تعلیمات دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا بھی ہے، جو ابھی حال ہی میں 16/ جنوری 2019ء کو یہ دار فانی چھوڑ کر دار ابدی کی طرف منتقل ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
حضرت مولانا سید واضح رشید ندوی صاحب نور اللہ مرقدہ کے سانحہ ارتحال سے صرف قریبی اعزہ واقرباء ہی نہیں پورا عالم اسلام گریہ وزاری کی زد میں آگیا،اور ہر ایک نے اپنے تحت تمام مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر زبان حال اور زبان قال سے رنج و غم کا اظہارکیا اور مختلف مقامات پر تعزیتی پروگرام منعقد کئے گئے اور حضرت والا مرحوم کے اوصاف حمیدہ کا ذکر کرکے قلب وجگر کو تسلی دی گئی، ان کو خراج عقیدت پیش کیا گیا اور وہ سب کچھ کیا گیا جو سید الکونین ﷺ نے کرنے کا حکم دیا تھا، کیونکہ عالم اسلام کے علمی حلقوں کو جو نقصان اور خسارہ ہوا ہے اس کی تلافی ناممکن معلوم ہو رہی ہے ۔
حضرت مولانا سیدواضح رشید ندوی صاحب سادہ مزاج اور کم گو انسان تھے، اپنے بلند اخلاق وکردار،تواضع وانکساری اور عاجزی ومتانت کی وجہ سے ہر کسی کے محبوب اور منظور نظر تھے، ہندوستان اور ہندوستا ن کے علاوہ مختلف ممالک میں اس ناگہانی حادثہ پر تعزیتی پروگرام اورایصال ثواب کی نشستوں کا انعقاد آپ کی ذات گرامی کی مقبولیت کی بین دلیل ہے، حدیث میں فرمایا گیا:  ’’من تواضع للہ رفعہ اللہ‘‘ (مشکوۃ شریف) کہ جس نے اللہ کے لئے تواضع اختیار کیا اللہ نے اس کو بلند کیا ۔
حضرت مولانا سیدواضح رشیدصاحب کی ولادت ۱۰؍اکتوبر ۱۹۳۵ء؁ کو ہوئی، آپ نے اپنے آبائی گاؤں کے خاندانی مکتب سے ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا، اس کے بعد عربی تعلیم کے لئے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخلہ لیا اور یکسوئی وتندہی کے ساتھ اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں ہمہ تن مصروف رہے اور۱۹۵۱ء؁میں ندوہ ہی سے فضیلت تک کی تعلیم مکمل کی، پھر اس کے بعد ۱۹۵۳ء؁ میں انٹر پاس کیا اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے انگریزی لیٹریچر میں ایم۔ اے۔ کیا، ۱۹۵۳ء؁ سے ۱۹۷۳ء؁ تک آپ نے ریڈیو کے شعبہ عربی میں اناؤنسری کی حیثیت سے ملازمت کی اور حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ کے ایماء پر ندوۃ العلماء تشریف لائے اور اس وقت سے تادم حیات اپنے مادر علمی کے چشم وچراغ بن کر علمی ،ادبی، فکری اور صحافتی کارناموں کے ذریعہ روشن وتابناک نقوش ثبت کیے۔
آپ کو ۲۰۰۶ء؁ میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے معتمد تعلیم کے عہدے کے لئے منتخب کیا گیا، آپ ندوہ کے عربی جریدہ ’’الرائد‘‘کے چیف ایڈیٹر اوراور ماہنامہ ’’البعث الاسلامی‘‘ کے جوائنٹ ایڈیٹر تھے، اس کے علاوہ متعدد شعبوں کے ذمہ دار بھی تھے اور ساتھ ہی ’’رابطہ ادب اسلامی‘‘ کے جنرل سکریٹری بھی تھے، مولانا مرحوم تاریخ ادب عربی کے انسائیکلو پیڈیا تھے، انہیں اردو ،انگریزی اور عربی میںمکمل مہارت حاصل تھی، عالمی احوال پرگہری نظر رکھتے تھے، اس میں دو رائے نہیں کہ مولانا دین کے مخلص خادم اور صحافت کے سچے علمبردار تھے، یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام کے تمام طبقات میں ہر دل عزیز ومقتدر اور اپنے علم وعمل، بلند اخلاق وکردار کی بناء پر نہایت قد آور اور نیک شہرتوں کے حامل انسان تھے۔
حضرت مولانا صف اول کے صحافی اورمفکرو ادیب تھے، آپ نے مغربی تہذیب کو قریب سے دیکھا تھا، اس کی عیاریوں اور مکاریوں سے بخوبی واقف تھے، اسی لیے  عالم اسلام کے اندوہ ناک حالات، اس کے احوال وکوائف اور مغرب کی سازشوں کے خلاف قلم اٹھاتے رہے،آپ متعدد عربی واردو کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ معروف اسکالر بھی تھے،حضرت والا کی ذاتی زندگی عبادت وریاضت ،متانت وسنجیدگی،زہدورع کی پیکر تھی، آپ ہر قسم کے لہو لعب اور خرافات سے گریز کرتے اور بقدر ضرورت بولتے تھے، اور یہی تمام چیزوں کے مجموعے نے مولاناکو علمی درجات کی بلندیوں تک پہنچایا، اسی لئے تو مولانا نے سترہ سالہ ابتدائی زندگی میں سندفراغت حاصل کرلیا ۔
مولانا مرحو م مولانا ابو الحسن علی حسنی ندویؒ کے بھانجے تھے اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ناظم اعلیٰ اور مسلم پرسنل لاء کے صدر حضرت مولانامحمدرابع حسنی ندوی زید مجدہم کے چھوٹے بھائی تھے، سفر وحضر کے ساتھی صبح وشام کے رفیق ومشیر تھے، حضرت مرحوم کے قرآنی ذوق کایہ حال تھا کہ اخیر دور میں اپنی آنکھوں کی بینائی کمزور ہوجانے کے باوجودروزانہ پانچ پارے تلاوت فرماتے تھے یا پھر دوسروں سے سنتے تھے ۔
حضرت مولانا مرحوم کے سانحۂ ارتحال کا واقعہ گزشتہ ۱۶؍جنوری کی صبح ۲۰۱۹ء؁کو بوقت تہجد پیش آیا اور ۸۴؍سال کی عمر میں صدائے رب ذوالجلال پر لبیک کہا اور دار الفنا ء سے دارالبقاء کے لئے رخت سفر باندھااور ہزاروں لوگوں کی چشم کو آبدیدہ کرکے مالک حقیقی سے جاملے اور یہ پیغام دیا کہ:
 جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے ٭یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
حضرت مولانا مرحوم کی نماز جنازہ دار العلوم ندوۃ العلماء کے گراؤنڈ میں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں ادا کی گئی اور پھرحضرت کو آبائی گاؤں رائے بریلی میں منتقل کیا گیا اور وہاں پر بھی نماز جنازہ پڑھی گئی اور ان کے آبائی قبرستان دائرہ شاہ علم اللہ تکیہ کلاں میں تدفین کی گئی۔
اللہ سے دعا ہے کہ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے، جنت میں بلند واعلی درجات سے ہمکنار کرے، اور اپنی رضا نصیب فرمائے۔ آمین
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے