اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: فارغین جامعہ مظا ھر علوم کا الوداعی پیغام!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday 30 March 2019

فارغین جامعہ مظا ھر علوم کا الوداعی پیغام!

مادر علمی کے نام
ازقلم: احتشام الحق کبیر نگری
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وائے ناکامی:کہ اب وقت جدائی آگیا
اور اب ہونٹوں پہ یہ پیغام وداعی آگیا
خوں کے آنسو، رواں ھیں،دامنِ دل تارتار
الوداع کہتے ھوئے گونجی ھے بانگِ اضطرار
رئس محترم،صدرِمکرم، اساتذۂ کرام، قارئینِ ذوالاحترام، اور عزیز ساتھیوں!
آج کا دن ہمارے لئے خوشی اور غم کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ جلوہ گر ھے، اور ہم اپنے دلوں میں،وصال و فراق کے دو متضاد اثرات پا رھے ھیں ،
یعنی ابھی کل کی بات ھے کہ ہم دور دراز سے ،،اطلبو العلم ولو بالصین،،،،،،، کے جزبۂ مستانہ سے سر شار ہوکر جامعہ میں کشاں کشاں، چلے آئے تھے، اور اس وقت ہم اپنے جامعہ کہ آغوشِ تعلیم و تربیت میں جگہ پاکر بہت مسرور و شاداں تھے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،
لیکن آج : جب نصابِ مقرر وحدیث مسلسل کی تکمیل ہوجانے کے بعد اپنے گھروں کی جانب کوچ کرنے والے ھیں ، تو ہم غم فراق سے بوجھل ھیں ، ہمارے سینے شدتِ غم سے پھٹے جارھے ھیں ، ہمارے کلیجے منھ کو آرھے ھیں ، ہمارے دلوں کی دھڑکنیں کم اور کبھی تیزہورھی ھیں ، ہماری انکھوں سے آنسوں کے دھارے رواں ھیں ،مہرِ کارواں کی جانب سے ہمیں اذنِ رحیل مل چکا ھے ، اور سمندِ عزم ، جست لگانے کے لئے دو پیروں پر بالکل تیار کھڑا ھے ،،
لیکن ہمارے قلوب، ہجرت کے لئے آمادہ نھیں ھیں ، ہمارے پاؤں جامعہ کے دامنِ محبت میں الجھے ہوئے ھیں ،، جو کہ از خود چھوڑنا نھیں چاہتے ھیں ، ہماری نگاہیں رئیسِ محترم۔ اور حضراتِ اساتذۂ کرام، کے چہروں پر ٹکی ہوئی ھے ، جو کہ ہٹنا نھیں چاہتی، اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ انسانی فطرت، جزبۂ وفاداری، اور شیوۂ حق شناسی کا عین تقاضہ ھے ،،
میرے محترم رفیقوں!! بھلا ہم اپنے اس مادرِ علمی کو کیسے بھلا سکتے ھیں ،، جس نے کل اپنی پیاری ، پیاری ، بانہوں کو لہرا لہرا کر ہمارا پر جوش استقبال کیا تھا ،،اور اپنے معنوی سینے سے لگا کر ایک حقیقی ماں جیسا ، خلوص و پیار بخشا تھا ، اور ایک متعینہ مدت تک اپنے علمی و تربیتی کوکھ میں رکھ کر ٹھیک اسی طرح ہماری پرورش کی ھے ، جس طرح ایک مرغی اپنے انڈوں کو اپنے پیروں اور پروں میں سمیٹ کر ایک خاص مدت تک سیتی ھے اور پھر اس سے ننھے ننھے چوزے نکال کر انھیں چلنے پھرنے اور دوڑنے کے لائق بنادیتی ھے ۔۔۔۔
کاروانِ طلبِ علم کے میرے ہم سفروں ۔۔۔۔بھلا ہم اپنی درسگاہوں کو کیسے بھلا سکتے ھیں جن میں ہمیں علمی دانے چگنے کے سنہرے مواقع نصیب ھوئے ، اور ہم اس دارالحدیث کو کیسے بھلا سکتے ھیں جو ہمارے قال اللہ قال الرسول کے زمزموں سے ایک مدت تک گونجتی رھی ، ہم اس مسجدِ جامعہ کو کس طرح فراموش کرسکتے ھیں ، جس کے فرشِ عنمبری پر ہم سجدہ گزاری کیا کرتے تھے ،،
ہم اس باب مظاھر کو کیسے نظر انداز کر سکتے ھیں جو ہر شام و سحر ہمیں اپنی دل فریب مسکراہٹوں کے ساتھ ویلکم، کہا کرتا تھا۔۔۔
کاروانِ علم کےمیرے ہم رکابوں!!! آ جب ہم اپنی حسرت بھری نگاہیں، حضرتِ رئیس محترم کے چہرۂ خوباں پر ڈالتے ھیں تو ہماری چیخ نکل جاتی ھے ، ہمارے حواس گم ھوجاتے ھیں ، ہم ہوشربادرمیں داخل ھوجاتے ھیں ، ہمارے دل ، فرطِ غم سے چھلنی ھونے لگتے ھیں ،، اور آنسوں کاسیلاب ہماری انکھوں کے چشمۂ سیال سے رواں ہو کر ہمارے رخسار کو تر بتر، کرتے ھوئے ، ہمارے دامنوں کو بھگو دیتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے عزیز ساتھیوں!!! یہ وہی مردم ساز شخصیت ھے ، جنھوں نے ہمیں بنانے اور سنوارنے میں پوری محنت صرف فرمائی،، یہ وہی افراد گر ہستی ھے ، جنھوں نے ہم جیسے مٹی کے ٹھیکروں کو دُررہائے اثمنہ، بنادیا ، یہ وہی ساقئِ فرزانہ ھیں، جنھوں نے ہمیں علم و ہنر بھرے جام لٹائے ھیں ، یہ وہی مشفق و مہربان اور ناظم ذیشان ھیں جنھوں نے ہمیں باپ جیسا پیار بخشا ،
اور جب ہم ان کی مخلصانہ دعوت پر لبیک کہتے ھوئے یہاں ائے تو انھوں نے ہمیں دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہا ،
ہمارے لئے در، در کی خاک چھانی، ہمارے لئے دور دراز کے اسفار کئے ، ہمارے لئے خورد و نوش کا بہترین انتظام فرمایا ، ہمارے لئے پرسکون ماحول میں رہ کر تعلیمی مراحل طے کرنے کا زریں موقع بہم پہوچایا ، ہماری خوابیدہ صلاحیتیوں کے ابھارنے اور ہمیں چاند، سورج کی طرح نکھارنے میں اہم رول ادا فرمایا ،،،، انھیں الوداع کہتے ھوئے ہماری زبانیں گنگ ھوجاتی ھیں ، ہمارے ذھن و دماغ ماؤف ہوجاتے ھیں ، ہمارے کلیجے منھ کو آتے ھیں ، مصافحہ کرتے وقت ہاتھ چھوڑنےکو جی نھیں چاہتا ،، اور رخِ تاباں سے نگاہیں ہٹنا نھیں چاہتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح جب ہم اپنی معزز اور مؤقر اساتذہ کی جانب ، وداعی نظریں اٹھاتے ہیں ، تو ہمارے قلوب ، جزباتِ محبت سے لبریز ہوجاتے ھیں ، انھیں الوداع کہتے ھوئے ہماری ہچکیاں بند ھوجاتی ھیں ،، ہماری انکھوں سے آنسؤں کی دھاریں رواں ھیں ، اور ہم احساسِ غم کے بحرِ عمیق میں غوطہ زن ھیں۔۔۔۔۔۔
میرے ہم عصروں ۔۔۔۔۔۔۔ میخانۂ مظاھر کے یہ وہی قسّامانِ داناں ہیں جنھوں نے ہمیں اپنی شبانہ روز کی مجلسوں میں ، صحبت و ہمنشینی کا شرف بخشا ، ہم پیاسے تھے ہمیں علوم دین کے جامِ جم سے سیراب فرمایا ،،، ہم گونگے تھے ، ہمیں لبِ اظہار عطا کیا ، ہم تہی دامن تھے ہمیں علوم و فنون کے یواقیت و لألی سے بھر پور کیا ،، ہم بے خبر تھے ہمیں  اسرار زندگی سکھائے، ہم تہزیب و تمدن سے ناآشنا تھے، ہمیں تہزیب و تمدن کے گر   سکھلائے ، ہم آخلاق سے بے بہرہ تھے ہمیں زیورِ اخلاق سے آراستہ فرمایا ، ہمیں حوادث کی بھیانک موجوں سے کھیلنے کا حوصلہ بخشا ،،ہمیں مصائب و آلام میں الجھ کر مسکرانے کا ہنر دیا ،، ہمیں راہِ وفا میں رکاوٹوں کی ناقابلِ تسخیر چٹانوں کو ، عزم جواں سے چور چور کرنے کا سلیقہ عطا کیا ،،ہمیں بجلیوں کاجواب قہقہوں سے دینے کا جرأتِ رِندانہ دی ،، ہم جاہل تھے ، ہمیں مختلف علوم و فنون کی کتابوں کے تالے کھولنے کی کنجیاں عنایت فرمائی،، ہمیں اخلاصِ عمل کے سانچے میں ڈھال کر ایثار و۔و فا کے نمونے بناکر ، قوم کے سامنے پیش فرمایا،، ہم۔گھٹنوں کے بل چلنے والے تھے انھوں نے ہمیں سنبھلنا، چلنا، اور پھر میدانِ عمل میں دوڑنا سکھایا ،، ،،،،،،،، آج ہم ان کی شفقت و محبت کے گھنے سایوں سے محروم ہورھے ھیں، تو ہمیں اپنی یتیمی کا احساس ہورھا ھے اور ہمیں اپنی حرماں نصیبی پر رونا آتا ھے ۔۔
رئیس محترم کی مہر الفت یاد آتی ھے
ہمیں استاذوں کی نظر محبت یاد آتی ھے
جدائی کہ کھڑی ہم خون، کے آنسوں بہاتے ھیں
یقینا شدتِ غم سے کلیجے منھ کو آتے ھیں ،،،،
اور ہاں اے میرے ہم دموں۔۔ جب ہم اپنے ماضی پر نظرڈالتے ھیں تو باہمی میل جول، نشست و برخاست، قیام و طعام، لکھنا پڑھنا، چلنا پھرنا، اور کھیل کود یاد کرکے، فرطِ خوشی سے جھوم جاتے ھیں ،
لیکن اس کے ساتھ ھی جب ہم کو مستقبل کی طویل مفارقت کا تصور آتا ھے تو دل کانپ جاتے ھیں  روحیں لرز جاتی ھیں ، بدن پر کپکپی طاری ھوجاتی ھے ، اور فراق و جدائی کا احساس جان لیوا پیغام بن کر ہماری آنکھوں کے پردوں پر جلوہ گر ہوجاتا ھے۔۔
چمنِ مظاھر کے نوشگفتہ غنچوں۔۔۔۔۔ آج کا دن ہمارے لئے یوم احتساب بھی ھے ،،یعنی آج ہمیں یہ سوچنا ھے کہ۔۔۔۔ جامعہ کے قیام کے دوران جہاں ہمارے رئیسِ محترم نے تمام تر سہولیات و مراعات سے نواز کر ہمیں پُر سکون ماحول میں حصول تعلیم کا ہر امکانی پہلو مہیافرمایا اور ہمارے مشفق اساتذۂ کرام نے ہم پر علم و ہنر کے گراں قدر مینھ برسائے ، تو ہم نے ان سہولیات و مراعات سے کتنا فائدہ اٹھایا ، اور علم و ہنر کی ان بارشوں سے کس قدر سیراب ہوئے اور انکے جزبات و خواہشات کی کس درجہ قدردانی کی ،،،،
اگر ہم سے کچھ حقِ قدر دانی ادا ہو سکا تب  تو دل و جان سے شکرِ خداوندی بجالائیں اور اگر جانے انجانے میں خامیاں اور کوتاہیاں سرزد ھوئی ھوں تو آئندہ اپنے قول و وعمل سے ان کی تلافی اور تدارک کا عزم بالجزم کریں ۔۔
اے افق مظاھر کے درخشندہ ستاروں۔۔۔۔۔۔۔ہمارا یہ بھی اخلاقی فریضہ اور منصبی تقاضہ ھے کہ ہم اپنے محبوب جامعہ کے پیغام کو دنیابھر میں عام کریں ، اس کی خدمات کو خوب خوب متعارف کرائیں ، اس کے مشن کو روز افزوں اگے بڑھائیں، اور اس کی نیک نامی کے باعث بنیں۔
اور ہمارے لئے یہ بھی ضروری ھے کہ، جب بھی ملک و ملت پر کوئی نازک وقت آئے تو مخلصانہ اور رضاکارانہ، اپنا ہر ممکن تعاون اور خدمت پیش کریں ۔۔
ہم دست بدعا ھیں کہ خدائے ذوالجلال ، ہمیں اخلاص و ایثار کی دولت سے نوازے اور پوری زندگی اشاعتِ اسلام کی توفیق بخشے،،، آمین
اے چمن زارِ مظاھر تیری عظمت کو سلام
تیری الفت، تیری عزت، تیری حرمت کو سلام
السلام اے باغِ دیں اے مرکزِ دیں السلام
السلام ائے فخرِ دوراں اے محمد کے غلام
تیری خدمت، تیری شہرت، زندہ باد، زندہ باد
تاقیامت نامِ نامی، تیرا ھو پائندہ باد
وآخردعوانا ان الحمدللہ رب العالمین