اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: بھاجپا کے بہانے مسلم قیادت والی پارٹیوں کا سیاسی قتل کرنا چاہتا ہے مہا گٹھبندھن و کانگریس گٹھبندھن: عامر رشادی

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday 30 March 2019

بھاجپا کے بہانے مسلم قیادت والی پارٹیوں کا سیاسی قتل کرنا چاہتا ہے مہا گٹھبندھن و کانگریس گٹھبندھن: عامر رشادی

کیا پورے صوبہ میں ایک بھی مسلم قیادت والی سیاسی پارٹی ایسی نہیں ہے جس کو نام نہاد سیکولر پارٹیاں اپنے گٹھبندھن کا حصہ بنا سکیں؟ راشٹریہ علماء کونسل 
اشرف اصلاحی
ــــــــــــــــــــــــــ
لکھنؤ(آئی این اے نیوز 30/مارچ 2019) سبھی سیاسی پارٹیوں کو مسلمانوں کا ووٹ تو چاہیئے مگر کوئ بھی پارٹی مسلم سماج کو ان کے حقوق دینے کو تیار نہیں ہے۔ موجودہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں مسلم سماج کو سیاسی غلام ہی بنا کر رکھنا چاہتے ہیں تاکہ مسلم سماج قلی بن سیکولرزم کی گٹھری کو ڈھوتا رہے اور ان پارٹیوں کو حکومت تک پہونچاتا رہے اور اپنی قیادت اور حصہ داری کی بات کرنا تو دور اس ضمن میں سوچے بھی نہیں۔ اسی سازش کے تحت صوبہ میں بھی جو مہاگٹھبندھن بنا ہے اس میں بھی کہیں مسلم قیادت والی سیاسی پارٹیوں کو حصہ داری نہیں دی گئ ہے اور نہ ہی سیکولرزم کی مسیحا کہی جانے والی کانگریس نے اپنی قیادت میں بنے گٹھبندھن میں کسی مسلم قیادت والی پارٹی کو کوئ جگہ دی ہے۔ دونوں گٹھبندھن کا مسلم قیادت والی پارٹیوں سے دوری بنائے رکھنا یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ یہ پارٹیاں مسلمانوں کو اپنا بندھوا سیاسی مزدور سمجھتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ بھاجپا کا خوف دکھا کر ہم مسلمانوں کا ووٹ تو ایسے ہی لے لیں گے تو ان کی قیادتوں کو حصہ داری دے کر کیوں انہیں خوددار بنائیں اور سیاسی طور پر متحد اور بیدار ہونے دیں۔ مذکورہ باتیں راشٹریہ علماء کونسل کے قومی صدر مولانا عامر رشادی مدنی نے مرکزی دفتر لکھنئو میں منعقد پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہیں۔
       انہوں نے کہا کہ " بھاجپا کو حکومت سے باہر ہم بھی کرنا چاہتے ہیں تاکہ مہنگائ، غریبی، فرقہ واریت وغیرہ سے ملک کو بچایا جا سکے اور اس لئے ہم لگاتار کوشش کرتے رہے کہ فاسشٹ طاقتوں کے خلاف سبھی حزب اختلاف پارٹیاں متحد ہوکر انتخاب لڑیں اور بھاجپا کو حکومت سے باہر کا راستہ دکھائیں لیکن کانگریس ہو یا مہا گٹھبندھن یہ ہماری حمایت لینے کو تیار ہیں مگر ہمیں حصہ داری دینے اور ہماری قیادت کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ہم نے تو بڑا دل دکھاتے ہوئے 2017 کے ودھان سبھا انتخاب میں مایاوتی صاحبہ کی گزارش پر دلت قیادت کو ختم کرنے کی سازش کو ناکام بنانے کے لئے پوری حمایت دے دی تھی اور بابا امبیڈکر کے لئے مسلم لیگ کی قربانی کو دہرایا تھا مگر اس کا بھی لحاظ نہیں رکھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ آج کانگریس اپنا دل و مہان دل جیسی چھوٹی پارٹیوں سے گٹھبندھن کر چکی ہے یہاں تک کہ این آر ایچ ایم(NRHM) جیسے بڑے گھوٹالے کے ملزم بابولال کشواہا تک سے گٹھبندھن کر چکی ہے لیکن مسلم قیادت کو ایک گھوٹالے باز سے بھی بدتر سمجھا جاتا ہے اور انہیں ساتھ لینے کو تیار نہیں ہے۔ بسپا اور آر ایل ڈی سے گٹھبندھن کے بعد سپا نے جنوادی پارٹی اور سمانتا دل جیسی چھوٹی پارٹیوں سے بھی گٹھبندھن کیا ہے مگر اسے بھی مسلم قیادت کا وجود نہیں چاہیئے۔ ان میں سے کوئ بھی پارٹی کسی بھی مسلم قیادت والی پارٹی کے ساتھ گٹھبندھن کرنے کو تیار نہیں ہے کیونکہ یہ چاہتے ہیں کہ مسلم قیادت والی پارٹیوں کو سیاسی اچھوت بنا دیا جائے تاکہ پورا سماج ہی سیاسی لیڈرشپ و حصہ داری اور اپنے حقوق کی بات کرنا ہی چھوڑ دے۔ مسلم قیادت والی کچھ پارٹیوں نے کانگریس اور مہاگٹھبندھن کے ساتھ گٹھبندھن کا حصہ بننے کی کوشش بھی کی تاکہ ووٹوں کا بکھراؤ نہ ہو مگر انہیں بھاجپا کو روکنے سے زیادہ مسلم سماج کی سیاسی حصہ داری کو روکنے میں زیادہ دلچسپی ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ نہ تو کانگریس اور نہ ہی مہاگٹھبندھن کو پورے صوبہ میں 22 فیصد ووٹ والے کسی بھی مسلم قیادت والی پارٹی گٹھبندھن کا حصہ بنانے کے لائق نہیں ملی جبکہ 1.5 فیصد ووٹ والے جاٹ برادری کو اور ایسے ہی کشواہا، موریا، پٹیل وغیرہ برادری کی پارٹیوں کو بھی حصہ داری دے دی گئی ہے۔
مولانا نے مزید کہا کہ یہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کو صرف اپنا سیاسی غلام سمجھتے ہیں اور پورے سماج کے ووٹ کو اپنا مال سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے ابھی پچھلے ہفتہ مسلم قیادت والی ایک 40 سالہ پرانی پارٹی کے اعلی لیڈران کو راہل گاندھی دو دن تک اپنے دلی دفتر پر بیٹھائے رکھے اور پھر بغیر ان سے ملے انہیں واپس لوٹا دیا اور وہیں اترپردیش میں سپا نے ایک مسلم قیادت والی پارٹی کو سال بھر سے زائد دھوکے میں رکھ کر اپنے پیچھے دوڑاتے رہے اور ضمنی انتخاب میں ان کا ووٹ تک لے لیا اور اب جب حصہ داری دینے کا وقت آیا تو انہیں بھی کنارے کر دیا جبکہ انکے ذریعہ ہی لائ گئ ایک دوسری پارٹی کو مہاگٹھبندھن کا اعلانیہ طور پر حصہ دار بنا دیا۔  ایسی حالت میں یہ صاف ہے کہ مسلم سیاسی قیادت کو یہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں ابھرنے ہی نہیں دینا چاہتی۔ انہیں صرف مسلمان جی حضوری اور ان کا جھنڈا ڈنڈا ڈھونے کے لئے ہی چاہیئے۔ کیا یہ بھاجپا کے ہارڈ ہندتوا کی آڑ میں ان سیکولر پارٹیوں کا سافٹ ہندتوا کا چہرا ہے ؟
ان حالات میں ہم جیسی پارٹیوں کو اپنے وجود کو بچائے رکھنے کے لئے خود ہی جمہوری طور طریق کا حصہ بننا ہوگا اور اپنے سماج کے ساتھ ہی دوسرے پسماندہ و مظلوم سماج کی آواز بن سیاسی سنگھرش جاری رکھنا ہوگا اور ہم اس کے لئے تیار ہیں۔ ساتھ ہی ہمارا یہ بھی ماننا ہے کہ ملک سے بھاجپا کی غیر جمہوری، بدعنوان، فرقہ پرست سرکار کو کرسی سے باہر کرنا بھی ملک کے مفاد میں بہت ضروری ہے اور اس کے لئے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیئے۔ اس لئے ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ راشٹریہ علماء کونسل صرف کچھ محدود لوک سبھا سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارے گی۔ جہاں ہمارا مظبوط پارٹی ڈھانچہ ہو یا جہاں ہماری موجودگی بہت ضروری ہو۔ ہم صوبہ کی صرف 10 سیٹوں پر اپنے امیدوار اتار رہے ہیں اور مظبوطی سے انہیں ہی لڑائیں گے۔ کیونکہ جمہوریت میں وہی سماج زندہ ہوتا ہے جس کی سیاسی قیادت و موجودگی ہوتی ہے۔ ساتھ ہی ہم نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ دوسری جس سیٹوں پر مسلم اور دوسرے پچھڑے سماج کی قیادت والی پارٹیاں اپنے امیدوار لڑا رہی ہیں کونسل ان امیدواروں کو اپنی حمایت دے کر اپنے قیام کے روز اول سے مسلم و پچھڑی ذات کی پارٹیوں کے متحد کرنے کی کوشش کو سچ کر دکھائے گی۔