اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: اپریل فول کی حقیقت!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Sunday 31 March 2019

اپریل فول کی حقیقت!

تحریر: محمد سجاد سوپولوی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مالک لوح وارض سماء نے اسلام کوایک دائمی اور آفاقی مذہب بنایاہے۔ جس نے اپنے پیروکاروں کو بہترین اور عمدہ اصول و قوانین دییےہیں،کسی بھی موڑپر بے مہار نہیں چھوڑا ؛بلکہ زندگی کے تمام گوشوں کے لیے اسلام کی جامع ہدایات موجود ہیں اور اسی کی پیروی میں ہماری کامیابی و کامرانی کا راز پنہاں ہے ۔
 انسان جن لوگوں کے ساتھ رہتاہے ،ان کی کچھ عادتیں اورخصلتیں ضرورجگہ بناتی ہے۔آج کا انسان یورپ وامریکہ کی تقلید اور مغربی تہذیب کے دلدادہ ہیں ۔یورپی تہذیب وتمدن  نے مسلمانوں کی زندگی کو اپنے رنگ میں رنگ دیا ہے ۔مسلمانوں کی زندگی میں مغربی تہذیب و تمدن کے بعض ایسے اثرات بھی داخل ہو گئے ہیں ،جن کی حقیقت پر مطلع ہونے کے بعد ان کو اختیار کرنا انسانیت کے خلاف ہے؛ مگر افسوس کہ آج مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ان اثرات پر مضبوطی سے کاربند ہے ،حالانکہ دلائل وشواہد اورتاریخ سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کے قوموں کا اپنی ثقافت ،تہذیب و تمدن کو کھودینا ہی ان کے زوال اور خاتمے کا سبب ہواکرتا ہے-مذہب اسلام کا تو اپنے پیروکاروں سے یہ مطالبہ ہے کہ:اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے نقشے قدم پر مت چلو ،یقینا وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے (بیان القرآن)
 یہودونصاری کی جو رسوم و رواج ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑتی جارہی ہیں، انہیں میں سے ایک "اپریل فول" منانے کی رسم بھی ہے۔ اس رسم کے تحت یکم اپریل کی تاریخ میں جھوٹ بول کر کسی کو دھوکا دینا ،مذاق کے نام پر بے وقوف بنانا اور اذیت دینا نہ صرف اچھا سمجھا جاتا ہے؛ بلکہ اسے ایک دانشمندی قرار دیا جاتا ہے ۔جو شخص جتنی صفائی اور چابکدستی سے دوسروں کو جتنا بڑا دھوکا دے دے ۔اتنا ہی اس کو دانشمند، ذہین، باشعور، قابل تعریف اور یکم اپریل کی تاریخ سے صحیح فائدہ اٹھانے والا سمجھا جاتا ہے ۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس رسم بد کی ابتداء کب اورکیسے ہوئ؟یہ بات ہرایک کے ذہن میں جگہ بناتی ہے،اسی لیے ہر کوئی اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتاہے،تاکہ معلوم ہوجائے کہ اس رسم بد نےاتنی تیزی کے ساتھ کیسے اور کس طرح معاشرے میں جڑ پکڑ لیا کہ ایک ایمان والے کاذہن اس طرف مبذول ہوگیا،جس کی بناپر انہیں شدت سے یکم اپریل کا انتظار ہوتاہے،اسی کو سمجھنے اور حقیقت سےپردہ اٹھانے کے لیے، یہاں صرف تین اقوال کا ذکر کافی وشافی معلوم ہوتاہے۔
(1 )بعض مصنفین کا کہنا ہے کہ فرانس میں سترہویں صدی سے پہلے سال کا آغاز جنوری کے بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا ،اس مہینے کو رومی لوگ اپنی بیوی"" وینس ""(Venus)کی طرف منسوب کرکے مقدس سمجھا کرتے تھے  اوریہ سال کا پہلا دن ہواکرتا تھا، اس لئے خوشی میں اس دن کو تہوار کے طور پر منایا کرتے تھے اور اظہار خوشی کے لیے آپس میں ہنسی مذاق بھی کیا کرتے تھے، تو یہ چیز رفتہ رفتہ ترقی کرکے اپریل فول کی شکل اختیار کرگئی۔
 (2 )انسائیکلوپیڈیا آف برٹینیکا میں اس رسم کی ایک اور وجہ بیان کی گئی ہے کہ اکیس مارچ سے موسم میں تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے، ان تبدیلیوں کو بعض لوگوں نے اس طرح تعبیر کیا کہ (معاذ اللہ) قدرت ہمارے ساتھ اس طرح مذاق کر کے ہمیں بے وقوف بنا رہی ہے، لہذا لوگوں نے بھی اس زمانے میں ایک دوسرے کو بیوقوف بنانا شروع کردیا۔( انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا 1/694 )
(3)ایک تیسری وجہ انیسویں  صدی عیسوی کی معروف انسائیکلوپیڈیا "لاروس" نے بیان کی ہے اور اسی کو صحیح قرار  دیا ہے،جس کا حاصل یہ ہے کہ جب یہودیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو گرفتار کیا اور رومیوں کی عدالت میں پیش کیا تو رومیوں اور یہودیوں کی طرف سے حضرت عیسی علیہ سلام کو تمسخر اور استہزاء کا نشانہ بنایا گیا، ان کو پہلے "یہودی سرداروں اور فقیہوں"کی عدالت میں پیش کیا گیا، پھر وہ انہیں "پیلا طس" کی عدالت میں فیصلہ کے لئے لے گئے، پھر پیلاطس نے ان کو" ہیرودیس" کی عدالت میں بھیج دیا اور بلاآخر ہیرودیس نے دوبارہ فیصلے کے لیے ان کو پیلاطس ہی کی عدالت میں بھیج دیا۔ لوقا کی انجیل میں اس واقعہ کو اس طرح نقل کیا گیا ہے:
 "اور جو آدمی یسوع کو پکڑے ہوئے تھے ،اس کو ٹھٹھوں میں اڑاتے اور مارتے تھے اور اس کی آنکھیں بند کرکے اس سے پوچھتے تھے کہ نبوت سے بتا تجھے کس نے مارا اور انھوں نے طعنہ سے اور بھی بہت سی باتیں اس کے خلاف کہیں"- (انجیل، لوقا، باب 22، آیت: 36 56 صفھہ722)
 اور انجیل لوقا ہی میں ہیرودیس کا پیلاطس کے پاس واپس بھیجنا ان الفاظ میں منقول ہے :
"پھرہیرودیس نے اپنے سپاہیوں سمیت اسے ذلیل کیا اور ٹھٹھوں میں اڑایا اور چمکدار پوشاک پہنا کر اس کو پیلاطس کے پاس واپس بھیجا (انجیل،لوقا، باب 32 ،آیت :11 صفحہ822)
 لاروس کا کہنا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو ایک عدالت سے دوسری عدالت میں بھیجنےکامقصد بھی ان کے ساتھ مذاق کرنا اور انہیں تکلیف پہنچانا تھا ،چونکہ یہ واقعہ یکم اپریل کو پیش آیا تھا اس لئے اپریل فول کی رسم درحقیقت اسی شرمناک واقعے کی یادگار ہے( ذکروفکر صفحہ 76۔ 86 )
اگر یہ بات درست ہے تو غالب گمان یہی ہے کہ یہ رسم یہودیوں نے جاری کی ہوگی اور اس کا منشاء عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی تسخیر ہوگی ،لیکن یہ بات انتہائی تعجب خیز ہے کہ جو رسم یہودیوں نے (معاذ اللہ )عیسی علیہ سلام کی ہنسی اڑانے کے لئے جاری کی  تھی اس کو عیسائیوں نے کس طرح قبول کرلیا ؛بلکہ خود اس کو رواج دینے میں شریک ہو گئے جب کہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کو نہ صرف رسول؛ بلکہ ابن اللہ کا درجہ دیتے ہیں۔ قرین قیاس یہ ہے کہ یہ ان کی دینی بدذوقی کی یا بے ذوقی کی تصویر ہے۔ جس طرح صلیب ،کے ان کے عقیدے کے مطابق اس پر حضرت عیسی علیہ السلام کو سولی دی گئی ہے، تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کی شکل سے بھی نفرت ہوتی ،لیکن ان پر خدا کی پھٹکار یہ ہوئی کہ اس پر انہوں نے اس طرح تقدس کو پروان چڑھایا کہ وہ ان کے نزدیک مقدس شے بن کران کے مقدس مقامات کی زینت بن گئی ۔بس اسی طرح اپریل فول کے سلسلے میں بھی انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کے دشمنوں کی نقالی شروع کردی"اللهم احفظنا منه" اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عیسائی اس رسم کی اصلیت سے ہی ناواقف اور نابلد ہو اور انہوں نے بے سوچے سمجھے اس پر عمل شروع کردیا ہو-والله اعلم باصواب
  تاریخی اعتبار سے جیساکہ اوپرذکر کیا گیا،یہ رسم بداس قابل نہیں ہےکہ اسےفروغ دیاجائے؛کیوں کہ یہ بات معلوم ہوگئی کہ اس کا رشتہ یا تو کسی توہم پرستی سے جڑا ہوا ہے ،جیسا کہ پہلی صورت میں، یا کسی گستاخانہ نظریہ اور واقعے سے جڑا ہوا ہے ؛جیسا کہ دوسری اور تیسری صورت میں اس کے علاوہ یہ رسم اس لئے بھی قابل ترک ہے  کہ یہ مندرجہ ذیل کئی گناہوں کا مجموعہ ہے:
 1 -یہود و نصاریٰ اورکفار کے ساتھ مشابہت
2- جھوٹ،ناحق مذاق اور دوسروں کی ایذاء رسانی
 3- دھوکہ اور فریب کاری
 ان سب کاحاصل یہ ہے کہ" اپریل فول" بہت سے بدترین اوربے حس گناہوں کا مجموعہ ہے ؛لہذا یہ رسم اس لائق نہیں کہ اسے معاشرے میں فروغ دیاجائے؛بلکہ اس بات کی اشد ضرورت ہی کہ اس کا سد باب کیاجئے؛کیوں کہ اس کی تاریخ پر نظر کرنے سے جہاں اس بات کا علم ہواکہ حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں گستاخی ہے، اسی طرح اللہ عزوجل کی شان میں بھی بڑی گستاخی ہے ۔اللہ تعالی امت مسلمہ کو صحیح سمجھ اوراس طرح کی برائیوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین