اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: محبت کی انتہا عشق ہے تو عشق کی انتہا؟؟؟

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Sunday 31 March 2019

محبت کی انتہا عشق ہے تو عشق کی انتہا؟؟؟

✍️شرف الدین عبدالرحمٰن تیمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ اس زمانے کی بات ہے جب انیس نے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے اورینٹل کالج میں داخلہ لیا، داخلے کے بعد وقتا فوقتا کالج آتا جاتا رہا اس دوران انیس کی بہت سارے لوگوں سے شناسائی ہوگئی، شناساؤں کی لمبی فہرست میں ایک ایسا چہرہ بھی تھا جو انیس کے لیے بے حد خاص کب بن گیا تھا، اس کی اسے خبر بھی نہ ہوئی ۔اس کی ادا،  حسن، سنجیدگی اور متانت کا جادو انیس کے دل پر چل چکا تھا لیکن انیس کو اس کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں تھا کہ وہ کسی جادوگر کی جادوگری کا شکار ہوچکا ہے.
گرمی کی لمبی رخصت اپنوں کے درمیان گزار کر کچھ دنوں بعد  ایک بار پھر انیس کالج کی طرف رواں دواں تھا ۔ سفر کی مشقت جھیلتا ہوا کالج پہنچنے کے بالکل قریب تھا کہ کہیں سے ایک آواز آئی : میرے ہمسفر، میرے یار، میرا پیار ایک بار پلٹ کر دیکھ لے  ۔ اپنی محبوبہ کو، آرزو اور تمناؤں میں الجھی کتنے دنوں سے تیرے انتظار میں بیٹھی ہوں کہ میرا یار اور پیار آئے گا اور مجھے اپنے سینے سے لگا کر تڑپتے دلوں کو سکون بخشے گا، بہتے ہوئے اشکوں کو پونچھے گا، لگی ہوئی پیاس کو بجھائے گا اور دکھتے دلوں کا مداوا بن جایے گا..... جب اس آواز نے  انیس کے کانوں پر دستک دی تو انیس بھونچکّا رہ گیا ۔ ادھر ادھر پلٹ کر دیکھنے لگا ۔ کچھ دیر بعد انیس کی نگاہ اس چھریرے بدن، پتلی کمر،  خوبصورت رخساروں والی اس معصوم پر پڑی جس کی محبت کا احساس انیس کو تڑپا رہا تھا اور  جذبات کو بر انگیختہ کر رہا تھا کہ تیرا بھی کوئی طلبگار ہے- آخر کار انیس اس کے قریب پہنچ کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بہت غور سے دیکھا تب اسے احساس ہوا کہ یہی میرا پیار ہے اور یہی میرے ارمان اور چاہت کی انتہا ہے۔ فرطِ جذبات میں آکر اسے اپنے سینے سے لگا کر آئ لو یو کہہ کر اپنی محبت کے بندھن کو مضبوط کیا..... پھر آہستہ آہستہ انیس کی یہ محبت پروان چڑھتی گئی ۔بالآخر جب انیس نے گریجویشن کرکے اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا چاہا تو کچھ روڑے انیس کی راہ محبت میں آکھڑے ہوئے..... محبت کی اس خوبصورت فضا کے بیچ دولت حائل ہوگئی ۔بہت اصرار کیا پر لڑکی کے والدین شادی کے لیے رضا مند نہیں ہوئے..... بڑی منت اور سماجت کی، اشک بھری آنکھوں سے گزارش کی کہ میرے پیار کا بھرم رکھ لیں، محبت کے بیچ حائل دولت کی اس دیوار کو منہدم کر دیں لیکن انیس کی ساری کوششیں ناکام اور سارے حربے بے سود ثابت ہوئے..... طلعت کی سسکیاں اور آہیں بھی والدین کے پتھر دل کو موم کرنے میں نا کام رہی، طلعت کی آنکھیں سوج گئیں اور روتے روتے آنسو خشک ہوگئے لیکن محبت کے بازار میں دولت غالب آگئی اور طلعت کے پیار کا بھرم ٹوٹ گیا۔ آخر اسی غم واندوه کے پہاڑ تلے دبی طلعت کچھ دنوں بعد اپنے مالک حقیقی سے جا ملی.....طلعت کی جدائی کے بعد بھی انیس مسلسل ان کی گلیوں کا چکر لگاتا رہا، ان کی یادیں اور بیتے ہوئے لمحوں کو یاد کرتا رہا، محبت کی انمول دولت کو نہ پانے کا صدمہ بھی انیس پر بجلی بن کر گرا اور انیس بھی اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا-عقل کی دولت سے محروم ہونے بعد بھی انیس نے طلعت کی گلیوں کو اپنا مسکن بنا لیا ۔ گھر والے لاکھ چاہتے کہ انیس اپنے گھر  لوٹ آئے اور اپنی زندگی کے بچے ہوئے ایام گھر پر گزارے لیکن انیس کسی کی نہیں سنتا اور سنتا بھی تو کیوں کر.....وہ تو طلعت کی محبت میں گرفتار ان کی یادوں میں کھویا ہوا صرف یہی کہتاتھا"محبت کی انتہا عشق ہے تو عشق کی انتہا کیا ہے؟"