اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: ایک مثالی استاذ و مربی!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Sunday 28 October 2018

ایک مثالی استاذ و مربی!

بقلم: محمد فہیم قاسمی
استاذ جامعہ شیخ الہند انجان شہید اعظم گڈھ

بزمِ انجم میں قبا خاک کی پہنی تم نے.
دنیائے فانی سے دنیائے باقی کی طرف کوچ تو سبھی کو کرنا ہے، باقی رہنے والی ذات صرف اللہ تعالی کی ہے، ہاں! کچھ لوگوں کا جانا بے شمار افراد کو غم زدہ کر دیتا ہے، ١٥صفرالمظفرکو جس ذات گراں مایہ نے اس فانی دنیا کو الوداع کہا، وہ علم حدیث کے استاذ، عربی ادب کے ماہر، تصنیف و تالیف کے شہسوار، تقریر و خطابت میں اسٹیج کی رونق، ترجمانی میں لاثانی، ایک باکمال استاذ اور باصلاحیت منتظم کی ہے، وہ ہستی استاذ المکرم حضرت مولانا عبدالرشید بستوی علیہ الرحمہ کی ہے، جن کی علمی لیاقت و صلاحیت کا تعارف عاجز کیا کرائے، حضرت الاستاد اپنی علمی و عملی صلاحیتوں کی بنیاد پر، استاذ المکرم حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری علیہ الرحمہ کے چہیتے اور معتمد تھے۔
احقر ٢٠٠٥ء  میں جامعہ امام انور کی جامع مسجد کے  اندرونی حصے میں امتحان داخلہ کی کاپی لکھ رہا تھا کہ لمبے قد، مناسب صحت، درمیانی آنکھوں، کشادہ پیشانی، سانولے سرخی مائل رنگ، سفید کرتے پائجامہ میں ملبوس، سر پر پنج کلی ٹوپی لگائے ہوئے، ایک پروقار، بارعب شخصیت مسجد میں داخل ہوئی، یہ شخصیت حضرت الاستاد مولانا عبدالرشید بستوی علیہ الرحمہ کی تھی، جو اس وقت بھی صدرالمدرسین تھے، یہ حضرت الاستاذ کا پہلا دیدار تھا۔
بحمداللہ احقر کا داخلہ عربی ششم (جو اسی سال قائم ہوا تھا) میں ہوگیا, ظہر بعد کے دو گھنٹے  حضرت الاستاد ہی سے متعلق تھے، جن میں مشکوۃ شریف کے آخر کا ایک جز اور موطا امام محمد کے اسباق تھے، حضرت پابندی سے درس میں حاضر ہوتے، اکثر اپنی دو یا تین سال کی بچی کی انگلیاں پکڑے اور کبھی اسکے برادر اکبر کو ساتھ لیے ہوئے درس میں جلوہ افروز ہوتے، اکثر خود ہی عبارت پڑھتے، مختصر الفاظ میں متعلقہ عبارت کے مناسب، تسلی بخش تشریح فرماتے اور یہی طرز تشریح اختلافی مسائل میں بھی اختیار فرماتے اور طلبہ اس تشریح سے بالکل مطمئن ہوتےجاتے۔
 حدیث پاک کا جز ہے " نصرت بالرعب" کہ رعب کے ذریعے میری مدد فرمائے گی، حدیث رسول کے درس دینے والے کی اس کے ذریعے سے مدد کیوں نہ فرمائی جاتی، یقینا حضرت الاستاد کی شخصیت بہت ہی بارعب تھی؛ لیکن طبیعت نہایت ہی نرم، چال انتہائی سبک،نگاہیں نیچی، زیارت و ملاقات کے وقت خوش دل، بات کرتے وقت ہونٹوں پر مسکراہٹ رقصاں، طلبہ پر نہایت شفیق اور مہربان باپ کی طرح تھے۔
دوران تعلیم احقر نے  عربی انشاء کے مشق کی درخواست کی، تو حضرت الاستاذ نے اس درخواست کو نہ صرف یہ کہ شرف قبولیت سے نوازا؛ بلکہ حوصلہ افزائی بھی  فرمائی، اور مسلسل پورے سال بعد نماز عصر جامعہ کی مسجد میں  پڑھاتے رہے، پھر احقر دارالعلوم وقف میں دیوبند میں علمی تشنگی بجھانے کا موقع حسین موقع ملا، تو ملاقات میں گرچہ کمی واقع ہوگئی، لیکن جب بھی حاضری کا موقع ملتا دل باغ باغ ہو جاتا.
فراغت کے بعد وقفہ وقفہ سے  حضرت الاستاذ سے ضرور بات ہوتی تھی، جب بھی رابطہ ہوتا، آپ نہایت خوش ہوتے اور ڈھیر ساری  دعاؤں سے نوازتے۔
ابھی گزشتہ سے پیوستہ مہینے ایک ضرورت سے حضرت الاستاذ سے گفتگو ہوئی، ضرورت کیا بیان کرتا، حضرت الاستاذ نے سلام کے بعد فرمایا: بیٹے! میں بہت بیمار ہوں، یہ سن کر جو ہستی ہمیشہ دعاؤں سے نوازتی رہی، یہ بندہ عاصی  اس کی صحت و عافیت کی دعائیں کرنے لگا اور حضرت الاستاذ کی مقبول دعائیں لے کر فون رکھ دیا اور دنیاکےشب وروز میں کھو گیا، بدقسمتی سے دنیا کی مصروفیات میں اتنا منہمک ہوا کہ دوبارہ رابطہ کرنے کی سعادت نہ مل سکی، معمول کے مطابق بعد نماز مغرب اپنے کاموں میں لگا ہوا تھا کہ اچانک بذریعہ میسج یہ خبر موصول ہوئی کی مولانا عبدالرشید بستوی کا انتقال ہو گیا، یہ خبر کیا تھی ایک آسمانی صائقہ تھی، جس سے پورا وجود ششدر رہ گیا اور حیرت و استعجاب میں دل یہ صدائیں لگانے لگا کی کاش یہ خبر سچ نہ ہوتی؛ مگر رفیق محترم مولانا بدر الاسلام صاحب قاسمی (استاد جامعہ امام انور شاہ دیوبند) کی تصدیق نے اس خبر کو سچ ہی ثابت کردیا، ان کے انتقال کی خبر اتنی اچانک اور غیر متوقع تھی کہ مسلسل تصدیقات، نماز جنازہ، لحد میں دفن ہو جانے کے بعد بھی حضرت الاستاذ کی موت کا یقین نہیں ہوتا لیکن میرے یقین نہ کرنے سے کیا ہو سکتا ہے، جبکہ حضرت الاستاذ اپنی تمام خوبیوں اور نیرنگیوں کو سمیٹ کر ١٥ صفر المظفر ١٤٤٠ بمطابق٢٥ اکتوبر ٢٠١٨ کو ہمارے درمیان سے رخصت ہوچکے؛ البتہ اپنی علمی کاوشوں اور کارناموں سے حضرت الاستاذ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے اللہ تعالی ان کی قبر کو نور سے منور فرمائے دین اسلام کی خدمت کا بہترین بدلہ عطا فرمائے، نیز پسماندگان و متوسلین اور جامعہ کے منتظمین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین
         ــــــــعـــــــ
علم والے علم کا دریا بہا کر چل دیئے
 واعظان قوم سوتوں کو جگا کر چل دیئے
کچھ سخن ور تھے کہ سحر اپنا دکھا کر چل دیئے
کچھ مسیحا تھے کہ مردوں کو جلا کر چل دیئے