اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: فیضانِ شُجاعت ایک مطالعہ ایک تبصرہ!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Friday 26 October 2018

فیضانِ شُجاعت ایک مطالعہ ایک تبصرہ!

عاصم طاہر اعظمی
ــــــــــــــــــــــــــــ
فیضانِ شُجاعت نامی کتاب در اصل استاذ الاساتذہ نمونہ اسلاف حافظ شُجاعت علی رحمتہ اللہ علیہ کی سوانح حیات پر لکھی گئی ایک کتاب ہے جس کو بڑی عرق ریزی کے ساتھ حضرت مولانا نور قاسمی صاحب نے مرتب کیا ہے حافظ شجاعت علی صاحب نور اللہ مرقدہ کی شہرہ آفاق و ہمہ گیر شخصیت سے کون واقف نہیں، جو تدریسی، تبلیغی، اصلاحی و اخلاقی صفات و کمالات سے مجلی تھی، مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم افراد ان کے صفات و کمالات کے بہت عقیدت مند تھے، بہر حال ان کی حیات و خدمات پر مشتمل کتاب کا یہ عمل انتہائی داد و تحسین کا حامل ہے ناچیز مولانا نور قاسمی صاحب کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہے جنہوں نے ترتیب کتاب کے اس اہم تقاضہ کی تکمیل کی، ساتھ میں حافظ شجاعت علی نور اللہ مرقدہ کے دونوں صاحبزادوں مولانا شمش الہدی قاسمی اور ان کے بڑے بھائی شمس الضحٰی خان صاحب کو بھی کہ دونوں صاحبان نے اس سنہرے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں متّفقہ طور پر پہل کی اور اس کتاب کو منصہء شہود پر لانے میں اہم کردار ادا کیا، بڑی ناسپاسی ہوگی اگر ایسوں میں عزیزم حافظ عبدالرحمٰن صاحب کو نہ یاد کروں کہ جن کے توسط سے کتاب مجھ تک پہنچی،

مت سہل ہمیں جانو! پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

ایسے مقبول زمانے میں کہاں ہوتے ہیں
آج تک جن کے لیے اہل جہاں روتے ہیں

استاذ الاساتذہ حافظ شجاعت علی نور اللہ مرقدہ کی پیدائش 1941ء کو *کرتھیا* مہراج گنج میں ہوئی، آپ نے ایسے گھرانے میں آنکھیں کھولیں جو انتہائی دیندار و شریف مانا جاتا تھا، صوم صلوٰۃ کی پابندی، خوش اخلاقی، سخاوت و مہمان نوازی ایثار و خلوص، تواضع و انکساری، لباس میں سادگی خاندانی وراثت تھی،
آپ نے اپنی زندگی کی تقریباً ستاون بہاریں دیکھ کر اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے،
زندگی ایک سفر ہے اور انسان عالم بقا کی طرف رواں دواں ہے، ہر سانس عمر کو کم اور ہر قدم انسان کی منزل کو قریب تر کر رہا ہے، عقل مند مسافر اپنے کام سے فراغت کے بعد اپنے گھر کی طرف واپسی کی فکر کرتے ہیں، وہ نہ پردیس میں دل لگاتے اور نہ ہی اپنے فرائض سے بے خبر شہر کی رنگینیوں اور بھول بھلیوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں ہماری اصل منزل اور ہمارا اپنا گھر جنت ہے، ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایک ذمہ داری سونپ کر ایک محدود وقت کیلئے اس سفر پر روانہ کیا ہے، عقل مندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہم اپنے ہی گھر واپس جائیں کیونکہ دوسروں کے گھروں میں جانے والوں کو کوئی بھی دانا نہیں کہتا،
لیکن اسلام یہ نہیں چاہتا کہ انسان دنیا ہی کو مقصودِ کل اور مطلوبِ کامل سمجھتے ہوئے، عشرتوں کا دلدادہ ہوجائے اور حدیثِ پاک کے مطابق درہم ودینار کا بندہ بن جائے، اسلام دنیا کو عارضی قیام گاہ سے تعبیر کرتا ہے۔ پس دنیا اور متاعِ دنیا کی تمام تر رنگینیوں، رعنائیوں اورچمک دمک کے باوجود اِس سے بقائے حیات اور فرط وانبساط کے لیے استفادہ تو ضرور کرناچاہیے، لیکن اسے اپنی دائمی اور ابدی منزل ہر گز نہیں سمجھنا چاہیے، مومن کی دائمی منزل کہیں اور ہے ، یہی قرآن کا پیغام ہے اور یہی صاحبِ قرآن کاشِعار ہے۔
اسی لیے اللہ عزّوجلّ نے فرمایا: ''جس مرد وزن نے ایمان پر قائم رہتے ہوئے نیک کام کیے ، تو ہم اس کو پاکیزہ زندگی کے ساتھ ضرور زندہ رکھیں گے اور ہم ان کو ان کے نیک کاموں کی ضرور جزا دیں گے‘‘(النحل:97)
  نظیر اکبر آباد ی نے کہا ہے:
جب چلتے چلتے رستے میں، یہ جَون تیری ڈھل جائے گی
اک بدھیا تیری مٹی پر، پھر گھاس نہ چرنے آوے گی
یہ کھیپ جو تو نے لادی ہے، سب حصوں میں بٹ جاوے گی
دھن پُوت،جمائی بیٹا کیا، بنجارن پاس نہ آوے گی،
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا، جب لاد چلے گا بنجارہ
حق تعالیٰ جل مجدہ استاذ الاساتذہ حافظ شجاعت علی نور اللہ مرقدہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ان کے نام سے قائم کیے گئے حافظ شجاعت فیضِ عام چیری ٹیبل ٹرسٹ کو ہر عام و خاص کے نزدیک قبول فرمائے، حق تعالیٰ جل مجدہ اس ٹرسٹ میں کام کرنے والے اراکین کا حامی و ناصر ہو آمین ثم آمین.