اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: یہ پھول کھلا تو مگر کِھل کے مسکرا نہ سکا!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday 29 October 2018

یہ پھول کھلا تو مگر کِھل کے مسکرا نہ سکا!

شرف الدین عبدالرحمٰن تیمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
گذشتہ چار سالوں سے لگتا ہے کہ اب وہ 65 سال پہلے والا ہندوستان نہیں رہا، تہذیب وثقافت کے وہ علمبردار نہیں رہے، گنگا جمنی تہذیب کے متوالے بھی ناپید ہوگئے، محبت کی فضا نفرت میں تبدیل ہوگئ، آپسی بھائی چارے کا جنازہ نکل گیا، محبت والفت کے بول بھی کم سنائی دینے لگے، زہریلی فضا، نفرت کی دیوار، سیاست کی کالا بازاری اور حکومت کی گندی پالیسیوں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا- یہی وہ ہندوستان تھا جس کی تہذیب وثقافت کی مثال دیگر ممالک کے باشندے دیتے نہیں تھکتے تھے، گنگا جمنی تہذیب یہاں کی ایک شناخت تھی، امن وسکون اور پیار ومحبت اس کی ایک انوکھی پہچان تھی، مل جل کر گلے لگ کر ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا یہاں کے باشندوں کا طرہ امتیاز تھا، نفرتوں سے نفرت کرنا اور محبت کے میٹھے بول بولنا اس کا شیوہ تھا، آپسی اتحاد اور بھائی چارہ کا ماحول یہاں کا خاصہ تھا لیکن اب تو یہ سارے امتیازات وخصوصیات ناپید ہوتے نظر آرہے ہیں فضا زہر آلود اور آپسی اتحاد واتفاق پارہ پارہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے- آئے دن ظلم وبربریت کے شکار اقلیت طبقہ کے افراد ہی ہو رہے ہیں کبھی گائے کے نام پر تو کبھی لوجہاد، آتنک واد اور دہشت گردی کے نام پر ہماری نسل کشی کا سلسلہ جاری وساری ہے -
کبھی اخلاق کی دررناک موت کا منظر سامنے دکھائی دیتا ہے تو کبھی جنید کی چڑھتی جوانی درندوں اور نام نہاد محب وطن  کے بھینٹ چڑھ جاتی ہے تو کبھی افرازول تو کبھی منہاج تو کبھی نجیب جیسا ہونہار طالب تعصب کی آگ میں جھلسا دیا جاتا ہے - یہ سلسلہ رک جاتا تو تھوڑا اشک بہا لیتے اپنے آپ کو کوس لیتے، آہے بھر لیتے لیکن یہ سلسلہ دراز ہوتے ہوتے یہاں تک آپہونچا کہ محمد عظیم کی عظمت بھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکی، پھول جیسا مسکراتا چہرہ بھی حیوانیت کی بھینٹ چڑھ گیا- مسکراتا چہرہ، دنیا کے پیچ وتاب سے بے خبر، گندی سیاست اور سیاست دانوں کی چال بازی سے نا آشنا بے دردی کے ساتھ پٹخ پٹخ کر شہید کردیا جاتا ہے- درندوں کی اولاد اس معصوم کی معصومیت پر ترس کھائے بغیر ایک ماں کے خواب کو چکنا چور کر دیتا ہے، باپ کی تمناؤں پر پانی پھیر دیتا ہے-
وہی آسمان جس پر کچھ دیر پہلے اس کی نظریں تھی وہ بے بسی کے ساتھ اس معصوم نوخیز غنچہ کو مسلا ہوا دیکھ رہاتھا -خیر ۔ کفنانے دفنانے کا انتطام شروع کیا جائے! یہ سب تو مسلم کمیونٹی کے لئے اب ہندوستان میں روزمرہ کا معمول ہے، ہمیں اس ملک کو بچانا ہے، اس کے سیکولرزم کو بچانا ہے، اس کے امن و امان کی ٹھیکیداری بھی ادا کرنی ہے، اور پھر ۲۰۱۹ کے الیکشن پر بھی خون کا نذرانہ ہم ہی کو تو پیش کرناہے لہٰذا ان سب کے پیش نظر کوئی کچھ نہ کہے، سب مون برت رکھ لو، قلم بند کردو، موبائل آف کردو، دو چار لاکھ روپیے لواحقین کے منہ پر مار کر ان کا بھی منہ بند کردو، اور زیادہ شورشرابہ ہو تو مزید دو چار رسمی بیانات، مقدمات کے اعلانات اور دور دورے کر لیے جائیں گے، مل گیا انصاف، ختم کہانی، یہی ہے ہندوستانی مسلمانوں کی مسلمانی! یقین نہ ہو تو حافظ جنید اور اخلاق دادری کی شہادت کو دیکھ لیجیے، شمبھولال دیگر اور سِنہا کے ٹولے پر نظر دوڑا لیجیے، اور اگر کسی ایک " ہجومی دہشتگردی " میں آپکی جھولی میں انصاف نظر آئے اور مجرمین کیفرکردار پر نظر آئیں تو بتائیے:
 ہندوستانی مسلمانوں کو خوب سمجھ لینا چاہئے کہ اسوقت وی بارود کے ڈھیر پر ہیں، ان کے لیے جہاں لازمی طورپر دعوتی فریضے کی انجام دہی ضروری ہے، وہیں انہیں مین اسٹریم میں اتر کر اپنی اس ذلت آمیز شبیہ کو بزور طاقت کچلنا ہوگا، اس کا طریقہ یہ نہیں ہوتاکہ آپ نے چند لوگوں کے جھانسے میں آکر ان کی بھیڑ بن کر ان کو اسٹیج دے دیا، ان کے بھوشن ہوئے، تصویریں شائع ہوئیں بن گئے سلیبریٹی، ہوگئے لیڈر، اور ختم ہوگئی ہمدردی- بلکہ اس کا لائحہ عمل یہی ہے کہ آپ ہجومی دہشتگردی کے خلاف سڑکوں پر اتریں اور تب تک ڈٹے رہیں جب تک کہ فاسٹ ٹریک کارروائی شروع نہ ہوجائے-
بگڑے ہوئے سنگھی زہر زدہ دہشتگردوں کا علاج اس کے سوائے کچھ بھی نہیں ہے، آپ جب تک ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہاتھ جوڑ کر سیکولرزم کی بھیک مانگتے رہیں گے اتنے وقت میں مزید سینکڑوں جانیں اس جنون کا شکار ہوں گی-
 اگر آپ اپنا لوہا خود نہیں منواتے تو اس ملک میں آپ اسی طرح سیاسی قتل و غارت کے شکار رہیں گے، کم از کم اب تو آنکھیں کھولیں، ڈھکوسلوں سے باہر آئیے، حقیقت کا سامنا کیجیے، اور حقیقت یہی ہیکہ آزادی میں آپ کے باپ داداؤں نے اپنا خون پسینہ بہایا لیکن آزادی کے ستر سال بعد اسی ملک میں آپکی اوقات یہ ہیکہ، آپکی قومی شناخت پر آپکو راہ چلتے قتل کردیا جاتاہے،اور اب تو راجدھانی دہلی میں یہ ہورہاہے جہاں سیاسی، اور ملی لیڈرشپ کے مراکز بھی ہیں اور یہ راجدھانی کبھی ہماری شوکت و سطوت کا نشان ہوا کرتی تھی ۔یہ حال تاریخ میں کبھی شودروں کا ہوا کرتاتھا جسے پوری دنیا ذلّت کے نشان سے تعبیر کرتی ہے! اگر ان منتشر اور بکھرے بکھرے واقعات پر آپ کی آنکھیں نہیں کھلیں تو اجتماعی یلغار آپکو چٹ کرجائے گی، اگر آپ اپنی اسٹریٹیجی نئے سرے سے مرتب نہیں کرتے تو کوئی ابابیل، کوئی محمد بن قاسم نہیں آئے گا، تاریخ بھی ذلّت پذیروں کے ساتھ نہیں ہوتی-(ماخوذ)
انتظار کیجیے محمد عظیم کے بعد اگلی باری کا ۔ آپ یا میں؟