اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: بنت حوا تباہی کے دہانے پر!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Sunday 28 October 2018

بنت حوا تباہی کے دہانے پر!

فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی
ــــــــــــــــــــــــــــــ
مذہب اسلام دین فطرت ہے، مذہب اسلام کے تمام تر احکام اسی کے مطابق ہیں، ایک فطرت سلیمہ جس کا تقاضہ کرے،اسلامی شریعت معاشرتی زندگی کے خوشگوار بنانے پر زور دیتی ہے، ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کو مذہب اسلام میں خاص اہمیت حاصل ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پورے نوع انسانیت کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے، مظلوموں کو انصاف بے سہاروں کے لئے معین ومددگار بن کر آپ اس دنیا میں تشریف لائے، بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عورتوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے تھے، زندہ درگور کردیا جاتا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم رحمت بنا کر بھیجیے گئے، چنانچہ اسلام نے عورتوں کو وہ مقام دیا جس کا وہ حق دار تھی،عورت اگر ماں ہے تو آقا نے فرمایا اس پیروں تلے جنت ہے،عورت اگر بیوی ہے تو سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیوی کے منہ میں کھانے کا لقمہ رضائے الہی کے لئے ڈالنے پر اللہ تبارک وتعالی ثواب سے نوازتا ہے، اسلام نے عورت کو عزت بخشا، بعثت نبوی سے پہلے صنف نازک پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے، اللہ تبارک وتعالی نے اپنے محبوب نبی کو رحمة للعالمین بنا کر بھیجا، آپ ساری انسانیت کے لئے رحمت ہیں، آپ پر نازل کردہ شریعت نے بھی عورتوں کو وہ مقام دیا جواس سے پہلے نہی ملا تھا، وراثت میں اللہ نے ان کا حصہ مقرر کیا، اور پوری تفصیل کے ساتھ قرآن میں بیان کیا.
مذہب اسلام انتہائی پاکیزہ مذہب ہے، اسلام کی عمدہ تعلیمات سے متاثر ہوکر پوری دنیا میں مذہب اسلام بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے، خصوصا مغربی ممالک میں اسلام کے حلقہ میں داخل ہونے والوں کی بڑھتی تعداد دیکھ کر اسلام سے بیر رکھنے والے حیران پریشان ہیں، یہی وجہ ہے مذہب اسلام کے بارے میں طرح طرح شکوک شبہات پیدا کرنے کی عالمی کوشش جاری ہے، شرعی احکام کی غلط تشریحات کرکے سادہ لو اور دین سے ناواقف مسلمانوں کے دلوں سے اسلامی شریعت کی عظمت و وقار کو کم کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے، خصوصا کالج کا طبقہ جن کا عام طور سے علماء سے تعلق نہیں ہوتا دین سے یا تو ناواقف ہوتے ہیں یا دین کے سلسلہ میں اتنی معلومات نہیں رکھتے کہ جس کے ذریعہ حق وباطل کو ممتاز کرسکیں، یہی وجہ ہے کہ کالج کا ایک مخصوص طبقہ احکام شرعیہ پر اعتراض کے درپہ ہے، العیاذباللہ کچھ لوگ اسلام کو ہی خیرآباد کہہ چکے، اس  میں زیادہ تعداد مسلم خواتین کی ہے، ہندوستان میں منظم طریقہ سے خواتین کے ایمان پر ڈاکہ زنی کی جارہی ہے.
قصور ان کا نہیں قصور اپنا ہے:
ہندوستان میں کچھ خواتین کے ارتداد کی خبریں سن کو مل رہی ہیں، ہندوستان میں بڑھتے ارتداد کی لہر کے جہاں بہت سے اسباب بیان کئے جارہے ہیں وہیں سب سے بنیادی اور اہم وجہ یہی ہے کہ ان خواتین نے اسلام کو صحیح طور پر سمجھا نہیں، اسلام کی قدر و منزلت ان کے دلوں میں رچی بسی نہیں تھی، سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ فرمان سے ناآشنا تھیں،قصوران کے والدین کا بھی ہے جو اپنی اولاد کو دین سے دور رکھا، ایمان کی قدر و منزلت ان کے دلوں نہیں بیٹھایا.
ارتداد کے اسباب:
موجودہ وقت میں ہندوستان میں فتنہ ارتداد زور پکڑتا جارہا ہے، اور نہایت ہی سنگین مسئلہ بن گیا ہے، جہاں میڈیا کا بھی اہم کردار ہے اس ایشو کو عام کرنے میں، سچ اور جھوٹ کی آمیزش پر مبنی خبروں نے اس فتنہ کو حد سے زیادہ سنگین بنا دیا ہے.
جہیز کا بھی اہم کردار:
فتنہ ارتداد کی ہوادینے میں جہاں بہت سے اسباب ہیں وہیں جہیز کا بھی اہم کردار ہے، آج مسلم معاشرہ شریعت مطہرہ سے انتہائی دور ہوچکا ہے، ہماری شادیوں میں اور غیر مسلموں کی شادیوں میں اب کوئی فرق نہی رہ گیا سوائے مذہبی چیزوں کو چھوڑ دیا جائے، مسلم معاشرہ فضول رسموں میں پڑ گیا، جہیز جو ایک غیر اسلامی رسم ہے، اس کا رواج عام ہوتا جارہا ہے، اب جہیز کی فرمائش کی جانے لگی ہے، یہی وجہ ہے ایک غریب باپ اپنی بیٹی کی شادی کرنے سے عاجز وقاصر ہے، جہاں پہلے یہ خبریں سننے کو ملتی تھیں فاطمہ عابدہ نے خودکشی کرلیا، ان کے والدین نے ٹھیک عمر میں شادی کرنے سے بیچارے قاصر رہے، معاشرہ میں اس بچی کو بےپناہ طعنہ ملتے تھے، بیچاری فاطمہ، عابدہ خودکشی پر مجبور ہوجاتی تھیں،اگر وہ مسلم دوشیزہ خودکشی کررہی ہے، تواس کے ذمہ دار تمام لوگ ہیں، کیونکہ ہم نے مل کر اس گھٹیا معاشرہ کو تشکیل دیا، جس کی وجہ سے خودکشی پر مجبور ہوئی لہٰذا گناہ میں پورے معاشرہ کے لوگ شریک ہوں گے، اور سب کے سب گنہگار ہوں گے.
بددینی بھی اثر انداز:
کل تک بنت حواء کے بارے میں یہ خبر ملتی تھیں فاطمہ رقیہ مناسب جوڑا نہ ملنے کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتر گئیں، آج کل ہم ماڈرن اسلام کے نام لیوا ہیں، اپنی بچہ بچیوں کو پیدا ہوتے ہی جب وہ چھوٹی عمر کے ہوتے ہیں تو ان کو انگلش میڈیم اسکولوں میں داخلہ دلواتے ہیں، بچپن ہی سے وہ بچہ غیر کی تعلیم پاتا ہے، وہ نام توعبدالرحمان رکھا ہوا ہے لیکن صرف نام کا مسلمان ہے، نہ اسے اسلام کے بارے میں کچھ معلومات ہے، کن چیزوں سے اسلام کی سرحد سے انسان خارج ہوتا ہے اسے نہیں معلوم، وہ تو وراثت میں بس اسلام کو پاگیا، قرآن بھی اسے پڑھنا نہیں آتا.
جب جوانی کی عمر میں قدم رکھتا ہے، مخلوط تعلیم حاصل کرتا ہے، اس کے ذہن میں یہ بیٹھا ہوا ہے وہ ایک ماڈرن مسلمان ہے، اجنبی لڑکیوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ان سے بات کرنا ہنسی مذاق کرنا ان کے نزدیک کوئی بری چیز نہیں، حالانکہ مذہب اسلام وہ پاکیزہ مذہب ہے جو زنا ہی سے نہیں بلکہ ان تمام چیزوں پر روک لگا دیتا ہے جو زنا تک پہنچانے والے ہیں، اسلام تو کہتا ہے اجنبی لڑکی سے گفتگو کرنا حرام ہے، لیکن ہمارا وہ بچہ جس کو ہم نے اسلام سے دور رکھا، اللہ کے فرمان "و لاتقربوا الزنا" سے دور رکھا، اس کے نزدیک اجنبیہ لڑکی سے خلوت اور اس سے دوستی کوئی بری چیز نہیں، بربادی کی راہ تو ہم نے تیار کی ہے، قصور آر ایس ایس یا بجرنگ دل کو دینے سے کوئی فائدہ نہیں، ہم نے ہی اپنی اولاد کو تباہی کی راہ پر ڈھکیل دیا، دین سے دور رکھ کر خود بھی اپنی آخرت کو تباہ وبرباد کئے، اور اولاد کی زندگی کو بھی برباد کیا، انسان کا دل ہے، اب کس پر فدا ہوجائے اسے نہیں معلوم، محبت ایسی چیز ہے نہ ذات دیکھتی ہے، نہ مذہب، محبت نام ہی ہے دل کسی کی طرف مائل ہونا، قصور تو اپنا ہے کہ ہم نے اسے بربادی کی طرف دھکیلا، اسلام تو پردہ کا حکم دیتا ہے، پردہ کی وجہ بہت سے گناہ سے انسان بچ جاتا ہے، اور غلط لوگوں کی نگاہوں سے بھی  حفاظت ہوتی ہے، اسلام کاہر حکم حکمت سے خالی نہیں، لیکن ہم نے اپنی بچی کو یہ سکھایا ہے پردہ تو اصل دل کا ہے، دل صاف ہونا چاہیے، چہرہ کا پردہ ضروری نہیں، اسے معلوم بھی کیسے ہوتا کہ چہرہ کا پردہ ضروری ہے، اللہ نے قرآن میں پردہ کا حکم دیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ کے سلسلہ میں سخت ہدایات ارشاد فرمائے ہیں، ہم نے تو اسے انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کرایا، اگر آج ہماری لڑکی بے پردگی کی وجہ سے کسی رام کیلاش یا رام پرساد سے عشق کر بیٹھی تو قصور اسلام کا یا اسلامی تعلیمات کا نہیں، ایمان کی قدر و منزلت تو کبھی ہم نے اسے بتایا نہیں، قصور ہمارا ہے کہ ہم نے اپنی اولاد کے لئے یہ راہ فراہم کیا،
بڑھتے ارتداد کی خبروں میں جہاں میڈیا کا اہم رول ہے، میڈیا کو وہ فن حاصل ہے کہ چوہے کو ہاتھی بنا کر پیش کردے، معمولی بات بڑھا چڑھا کر پیش کردے، وہیں ہم نے دوسری طرف ایسا معاشرہ تشکیل دیا ہے کہ اب ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں، شادی بیاہ میں اس طرح غیراسلامی رسم و رواج کو فروغ دے دیا ہے کہ اس زمانے میں شادی انتہائی مشکل ہوگئی ہے،  یہی وجہ زنا اور دوسرے گناہ کے راستہ روز بروز بڑھ رہے ہیں، نکاح کو اسلام نے انتہائی آسان بنایا ہے، مدینہ طیبہ ہی میں حضرات صحابہ کرام کا نکاح ہوجاتا تھا، اللہ کے رسول تک کو بھی خبر نہ ہوتی تھی، آج ہم صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلنے کا دعوی کرنے والے نکاح کا اس قدر اہتمام ہو رہا ہے، کہ شادی کے بعد مقروض ہونا پڑجاتا ہے، قصور اغیار کا نہیں قصور اپنا ہے کہ ہم نے اسلام کی تعلیمات سے منہ موڑلیا ہے، یہ فتنہ ارتداد کاسلسلہ تبھی رکے گا، جب ہم اپنے بچوں کو بچپن سے ہی دین کی تعلیم دیں گے، ایمان کی قدرومنزلت ان کے دلوں میں بیٹھائیں گے، اور شادی بیاہ اسلامی طرز پرکریں گے، جب شادیاں سادگی سے ہوں گی تو بہت سارے فتنہ اور گناہ خود بخود بند ہوجائیں گے.
موجودہ زمانے کی سنگینی کو سمجھنا ہوگا، موجودہ حالات کامشاہدہ کرنے کے بعد دل یہی کہتاہے کہ آزادی سے پہلے جوحالات تھے جن کی منظرکشی مفکراسلام سیدابوالحسن ندوی رحمہ اللہ نے القراءہ الراشدہ جلد تین میں کیا ہے، بعینہ وہ حالات نظر آرہے ہیں، بس فرق یہ ہے کہ اس وقت پادری اپنے مذہب کی تبلیغ پورے زور شور سے کررہے تھے، اللہ جزائے خیر دے اکابر علماء دیوبند کو جب امت مسلمہ غریبی سے لڑرہی تھی، پیشہ کی لالچ میں کچھ لوگ اپنے مذہب کی تبلیغ کررہے تھے، اورارتداد کی راہ کی طرف لے جارہے تھے، ایسے نازک ترین حالات جب ہندوستان میں ارتداد کی لہر چل پڑی تھی، علماء دیوبند نے ارتداد کی لہر ہی کو نہیں روکا بلکہ ہندوستان میں اسلام کا ایک روشن چراغ دارالعلوم دیوبند کی شکل جلایا، جس کے فیض سے آج پوری دنیا منور ہو رہی ہے، اللہ تعالی ان اکابرین علماء دیوبند کی قبروں کو منورکرے جنہوں نے ہمارے ایمان کی حفاظت کرے، آخر میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں یہ دعاہے پھر امام ربانی مولانا رشید احمد گنگوہی اور حجة الاسلام مولانا قاسم نانوتوی رحمھما اللہ کی شکل میں کوئی نیک بندہ کھڑا کردے جو اس فتنہ کا ڈٹ کر مقابلہ کرے اور اللہ کی زمین میں اللہ کے دین کو عام کرے.آمین.