اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: تمہار ی داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday 31 October 2018

تمہار ی داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں!

طٰہٰ جون پوری
ــــــــــــــــــــــــ
      اس وقت وطن عزیز بھارت میں مسلم ناموں کو بدلا جارہا ہے، اور یہ کام پہلے بھی دنیا کے مختلف گوشوں میں ہوا ہے، مثال کے طور پر ’’حجاز مقدس ‘‘ کو  (المملکۃ العربیۃ السعودیۃ) ’’مصر‘‘ کو ایجپٹ (Egypt)، قاہرہ کو (Ciro)، قسطنطنیہ کو (Consatantinpole)، حبشہ کو (Abyssinia  اور اب  Ethiopia)، اردن کو ( Jordon)، شام کو (Syria)، حلب کو (aleppo)، مراکش کو  (Morocco)،  ارسطو کو  (Aristotle)،  عثمانی سلطنت کو (Ottomam Empire)، (سلطنت کا انگریزی ترجمہ  Empire ہے، یعنی صرف لفظ ِعثمانی کو بدلا ہے)، اس کے علاوہ سینکڑوں اور مثالیں ہیں، لیکن یہ مشتے از خروارے کے طور پر پیش ہیں۔
   وطن عزیز میں ناموں کی تبدیلی پہلے بھی ہوئی ہے،  لیکن جب سے  BJP  آئی ہے، تو اس نے اپنے خفیہ مشن  (ہر وہ چیز، جس سے اسلام کی بو آتی ہے، اس کو ختم کر کے، ہندتوا کے تحت ہندوئیت کا چولا پہنانا ہے) کو جاری رکھا ہے،  چناں چہ کچھ دنوں قبل  ’’یوگی حکومت ‘‘ نے  ’’مغل سرائے اسٹیشن‘‘  کا نام  بدل  کر   ’’ دین دیال اپادھیائے‘‘  رکھ دیا، اور ابھی حال ہی میں ’’اِلٰہ آباد اسٹیشن ‘‘  کا نام  بدل  کر ’’پریاگ راج" رکھ دیا ہے، ناموں کی یہ تبدیلی محض تبدیلی نہیں ہے،  بلکہ اس کے پیچھے جو ’’ناپاک ارادے‘‘  ہیں ان سے واقف ہونا ضروری ہے۔
   ان ’’تَن و مَن کے کالوں‘‘ کی یہ ناپاک سازش ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ کو بدل دیا جائے اور مسلمانوں کارشتہ اپنی تایخ سے توڑ دیا جائے،  اور ساتھ ہی ساتھ یہ پیغام دیا جائے کہ یہ نام تو  ’’بابر اور اس کی اولاد‘‘ نے بدل کر رکھا تھا،  اب ہمیں موقع مل رہا ہے،  اس لیے ہم اپنی پرانی چیزوں کو حاصل کرلیں گے، حالانکہ اس کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ جتنے بھی نام ہیں، کسی کو بدلا نہیں گیا ہے، بلکہ یہ سب آباد کردہ علاقے اور شہر ہیں۔
جہاں تک مسلمانوں کی تاریخ بدلنے کی بات ہے، اِن شاءاللہ اس مقصد میں تو وہ ناکام و نامراد ہوں گے، کیوں کہ یہ اُمت مسلمہ کی خاصیت ہے  جس نے اپنی تاریخ کی حفاظت کی ہے، ورنہ تو ہر قوم کی تاریخ بس اساطیر الاولین ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ مسلمانوں کا رشتہ تاریخ سے توڑنے میں ایک حد تک کامیاب ہو رہے ہیں، چناں چہ آج مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ایسا بھی ہے، جو اپنی تاریخ کو بھول چکا ہے، اور اپنے اَسلاف کے کرشمائی کارناموں سے ناواقف ہے، وہ جانتا ہی نہیں کہ ’’معرکہ بدر  و  اُحُد ‘‘کیا چیز ہے؟  اسے خبر ہی نہیں کہ  ’’غزوہ خندق و بنوقریظہ‘‘  کب پیش آئے؟ اسے پتہ نہیں کہ ’’قیصر و روم‘‘ کا وجود کس نے مٹایا، وہ  ’’ محمد الفاتح، سلطان صلاح الدین ایوبی، محمد بن قاسم، سید احمد شہید، شیخ الھند مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمھم اللہ اور ان کے علاوہ سینکڑوں جیالوں سے ناواقف ہے، وہ  اس سے بے خبر ہے کہ اس کے آباء و اَجداد نے وطن عزیز  ’’بھارت‘‘  کو اپنے خونِ جگر سے سینچا ہے اور اس کے لیے اپنا جتنا لہو بہایا ہے، اُتنا کسی قوم نے پانی بھی نہیں بہایا ہے۔
        ـــــــــــعــــــــــ
جب گلستاں کو خوں کی، ضرورت پڑی
سب سے پہلے،  ہماری ہی گردن کٹی

        تاریخ کو بھلانا اور اس سے رشتہ توڑنا کسی بھی قوم کے لیے تباہی کا پیغام ہوتا ہے، قوموں کو زندہ رہنے کے لیے اپنی تاریخ کو یاد رکھنا ضروری ہے، تاریخ کی خصوصیت ہے کہ اس سے قوموں کے عروج و زوال کا پتہ لگتا ہے، تاریخ کے ذریعہ قوموں کی ترقی و تنزلی اور اس کےاسباب و علل پرروشنی ڈالی جاتی ہے۔ 
       آج پوری دنیا میں عموماً اور وطن  عزیز میں خصوصاً اس کی بات کی سخت ضرورت ہے کہ تاریخ سے ہمارا رشتہ مضبوط ہو، ہم جس جگہ ہوں اپنی تاریخ کو باقی رکھیں، جن جن علاقوں میں ہمارے تاریخی مقامات ہیں، اس کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھائیں، بہت سی تاریخی عمارتیں ’’محکمہ آثارِقدیمہ‘‘کے ہاتھوں میں ہیں، ان سے اپنی نسلوں کو واقف کرائیں، مقننہ سے ایسے قوانین بنوائےجائیں، جس سے یہ  مسلمانوں کے ہاتھوں میں دوبارہ واپس آئیں، مدارس کے اندر تاریخ کو نصاب کے ایک مضبوط حصہ کے طور پر پڑھایا جائے، جو اسکول اور کالج  ہمارے اپنے ہیں، ان میں معتبر تاریخ کو لازمی کیا جائے، مساجد کے ائمہ اور مقررین حضرات تاریخ سے مسلم قوم کو باخبر کریں، غلط تاریخ کو جس انداز سے پیش کیا جارہا ہے، اس کا بھر پور رد کریں.
             ـــــــــــعــــــــ
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندی مسلمانوں
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں