اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: معاشرے کی ایک اہم ضرورت "انفاق فی سبیل اللہ"

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Friday 31 May 2019

معاشرے کی ایک اہم ضرورت "انفاق فی سبیل اللہ"

از قلم: محمد سالم ابوالکلام شکیل آزاد
ـــــــــــــــــــــــــــــ
ارکان اسلام میں ایک اہم رکن زکوة بھی ہے صرف یہی ایک بات اس کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں جگہ جگہ نماز کے ساتھ ساتھ زکوہ کا بھی تذکرہ فرمایا ہے ایک جگہ ان دونوں فرائض پر عامل مسلما نوں کو سچا مومن قرار دیا اللہ تعالی فرماتا ہے، وہ لوگ جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو ہم نے انہیں دیا ہے اس میں خرچ کرتے ہیں وہی سچے مومن ہیں دوسری جگہ ان کی کامیابی کو اللہ تعالی یو ں فرمایا ہے جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں نماز قائم کریں اور زکوہ دیں ان کا اجر بے شک ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے نہ اداسی اور غم زکوہ صاب نصاب مسلمان پر فرض ہے جسے ہر سال ادا کئے بغیر کوئی صاحب نصاب مسلمان مسلمان ہی نہیں رہ سکتا اللہ تعالی نے مال ودولت دے کر مسلمانوں کو آزمائش و امتحان میں ڈالا ہے آیا
وہ مال کی محبت میں گرفتار ہوکر مال کو جمع کرتا اور گن گن کر رکھتا ہے یا حکم الہی کی کرتے ہوئے ایک مخصوص حصہ شرعی اصولوں کے مطابق زکوہ کی شکل میں نکال کر اپنا مال پاک کرتاہے زکوہ در اصل ایک مشق و تربیت ہے تاکہ مسلمان اپنے نفس کو اپنا تابع و مطیع بنانے اس کے دل سے مال کی محبت نکل جائے اور ضرورت پرنے پر وہ بے دریغ اپنی دولت اللہ کی راہ میں خرچ کر سکے اور اس کو زاپنی سعادت مندی سمجھے کہ اللہ کی فراہم کردہ دولت کو اس نے اللہ کی راہ میں خرچ کردیا یہی اسلام کا تقاضہ ہے اور مقصد زکوہ میں یہ شامل ہے کہ مال کی محبت اس کے اندر کم سےکم ہو جائے اور اس میں اخوت و محبت جو دو سخا ہمدردی و خیر خواہی اور ایثار وقربانی جیسی انسانی اقدار پیدا ہو جائیں جن سے ایک صالح اسلامی معاشرہ وجود میں آتا ہے گویا فرضیت زکوہ میں اللہ تعالی نے بہت سے فوائد و ثمرات پوشیدہ رکھے ہیں ظاہر ہیں نگا ہیں جن کا ادراک نہیں کر سکتیں قرآن کے بیان کردہ آٹھ مصارف زکوہ میں ایک مصرف فی سبیل اللہ بھی ہے فی سبیل اللہ سے مراد اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے گویا زکوہ کا ایک مصرف جہاد ہے خوہ مجاہدین کو دیا جائے ان کے لئے ہتھیار وغیرہ خریدا جائے اور جہاد فی سبیل اللہ میں دین کی سر بلندی اسلامی علوم کی نشر و اشاعت دعوت و تبلیغ دینی مدارس اور اسلامی مراکز کی تعمیر و مرمت اور ان کی نگہداشت علم دین کا حصول وغیرہ بھی شامل ہے بلکہ بعض علماء کے نزدیک ملکی اور علاقائی حالات و ظروف کے تناظر میں علم و دین کا حصول جہاد سے بھی افضل ہے اسلام نےجہاں صاحب نصاب مسلمانوں کو ایک مخصوص حصہ زکوہ کی شکل میں ادا کرنے پر اکسایا اور ابھارا اور نہ ادا کرنے پر وعید وتہدید سنائی وہیں عام مسلمانوں کو محتاجوں مسکینوں یتیموں بیواو ں وغیرہ کے دکھ درد میں شریک ہونے اور مصیبت زدہ بھائیوں کی اعانت و امداد پر بھی ابھارا ہے چنانچہ قرآن وحدیث نفلی صدقات و خیرات کی بڑی تاکید آئی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں نظام زکوہ کے علاوہ انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعہ خیر کثیر حاصل کرسکتا ہے وہیں ایک غریب کمزور اور افلاس زدہ مسلمان بھی اس خیر کثیر سے مرحوم نہیں رہتا بلکہ بسا اوقات وہ مالدار وں پر سبقت بھی حاصل کر لیتا ہے ہاں شرط ہے کہ دل جوہر اخلاص سے مالا مال ہو ایک صحیح حدیث میں وارد ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا ایک درہم ایک لا کھ درہم پر سبقت لے گیا ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیسے آپ نے فرمایا ایک شخص کے پاس بہت مال تھا اس نے اس میں سے ایک لاکھ درہم صدقہ کردیا اور ایک آدمی کے پاس صرف دو درہم تھے اس نے ان میں سے ایک درہم صدقہ کردیا غریب اور کمزور مسلمانون کے لئے یہ بہت بڑی خوشخبری ہے کہ ان کا معمولی صدقہ بڑے بڑے صدقات پر سبقت لے جا سکتا ہے اس لئے انہیں اپنی حیثیت کے مطابق انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعہ خیر کثیر حاصل کرتے رہنا چاہئے اور اپنی آمدنی پر قناعت کرتے ہوئے رب کا شکریہ ادا کرنا چاہئے اللہ تعالی انفاق فی سبیل اللہ کے سلسلے میں ایک جگہ فرماتا ہے جو لوگ اپنا مال اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں انکی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہو اور اللہ تعالی جسے چاہے بڑا جڑھا کر دے اور اللہ تعالی کشادگی والااور علم والا ہے اور جو لوگ اپنا مال اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں نہ ایذا دیتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے ہے ان پر نہ تو کچھ خوف ہے نہ وہ اداس ہونگے دوسری جگہ ارشاد فرمایااگر تم اللہ کو اچھا قرض دوگے یعنی اس کی راہ میں خرچ کروگے تو وہ اسے تمہارے لئے بڑھاتاجائے گا اور تمہارے گناہ بھی معاف فر ما دے گا اللہ بڑا قدر دان بڑا بردبار ہے اس بات کو اللہ تعالی نے دوسری جگہ بیان فرمایا ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالی کو اچھا قرض دے پس اللہ تعالی اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے گا اللہ ہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے اور تم سب اس کی جانب لوٹائے جاو گے یہ بات ایک دوسری جگہ اس طرح بیان کی گئی کون ہے جو اللہ تعالی کو اچھی طرح قرض دے پھر اللہ تعالی اسے اس کے لئے بڑھاتا چلا جائے اور اسکے لئے پسندیدہ اجر ثابت ہو جائے یہ اور اس طرح کی بہت سی آیتیں ہیں جو صدقات و خیرات کی رغبت دلاتی ہیں اور اگر ایک مرد مومن انہیں سنجیدگی سے پڑھ لے اور عمل کرے تو  اس کی آخرت سنور جاتی ہے احادیث مبارکہ میں بھی صدقہ وخیرات کی بڑی تاکید و ترغیب موجود ہے چند حدیثیں ملاحظہ فر مائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالی سخی ہے اور سخاوت کو پسند کرتا ہے اور اچھے اخلاق کو پسند اور گھٹیا عادات کو نا پسند کرتا ہے ایک جگہ فرمایا صرف دو آدمیوں کے ساتھ رشک کرنا جائز ہے ایک وہ جس کو اللہ نے مال دیا اور وہ اسے صحیح جگہوں پر خچ کرتا ہےاور دوسرا وہ جسے اللہ تعالی نے علم وحکمت سے نوازا ہے اور وہ ا س کے مطابق فیصلہ کرتا اور تعلیم دیتا ہے نیز فرمایا تم میں سے کون ہے جسے اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ پسند ہو لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر کسی کو اپنا ہی مال پسند ہے آپ نے فرمایا اس کا اپنا مال تو وہ ہے جو اس نے آگے کے لئے بھیج دیا ہے اور جو پیچھے چھوڑے جارہا ہے وہ اسکے وارث کامال ہے مزید فرمایا آگ سے بچو اگر چہ کھجور کا ٹکڑا خیرات کرکے ہی بچو نیز فرمان نبوی ہے ہر صبح دو فرشتے اترتےہیں ایک کہتا ہے اے اللہ خرچ کرنے والے کو اس کا عوض دے اور دوسرا کہتا ہے اے اللہ کنجوسی کرنے والے کو بربار کردے حضرے عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا تم نے جو بکری ذبح کی تھی اس کا گچھ حصہ باقی یے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ یہ نہ کہو بلکہ یہ کہو کندھے کے سوا سب باقی ہے یعنی جو صدقہ ہو چکا حقیقت میں وہی باقی ہے جس کا اجر قیامت کے دن ملے گا ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا جس نے حلال کمائی سے ایک کھجورکے برابر خیرات کی اور اللہ حلال ہی قبول کرتا ہے اسے اللہ اپنے دائیں ہاتھ سے قبول کرتا ہے اور پھر خیرات کرنے والے کے لئے بڑھاتا رہتا ہے جس طرح کے تم میں سے کوئی اپنے بچھڑے کو پالتا ہے یہاں تک کہ وہ صدقہ یعنی اس کا اجر پہاڑ جتنا ہو جاتاہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ و خیرات پر امت کو اکسایا اور ابھارا ہےاور عملی طور سے بھی نمونہ پیش فرمایا ہے ایک واقعہ سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ایک آدمی نے حا ضرہوکر سوال کیا تو آپ نے فرمایا اس وقت میرے پاس دینے کے لئے کچھ نہیں ہے البتہ میرے نام سے کوئی چیز خرید لو میں اسے ادا کردوں گا یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہایا رسول اللہ صلی علیہ وسلم جس کی آپ کو طاقت نہیں اللہ تعا لی نے آپ کو اس کا مکلف نہیں ٹھرایا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات نا گوار محسوس ہوئی ایک انصاری نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ خرچ کیجئے اور اللہ تعالی کی طرف سے فقر کا خدشہ نہ محسوس کیجئے یہ سن کر آپ مسکرا ئے اور فر ما یا مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے آغوش نبوت کے پروردہ صحابہ کرام نے انفاق فی سبیل اللہ کی ایسی ایسی مثالیں قائم کی ہیں کہ تاریخ عالم اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے غزوہ تبوک کے موقع پر جب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کے لئے عام چندے کی اپیل کی تو تمام صحابہ کرام نے اپنی اپنی گنجائش کے مطابق اس کار خیر میں حصہ لیا لیکن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کا تمام اثاثہ لا کر خدمت نبوی میں ڈھیر کردیا اور کوئی دوسرا اس کار خیر میں ان سے سبقت نہ لے جا سکا سورہ بقرہ کی آیت من ذاالذی یقرض اللہ نازل ہوئی تو ایک صحابی ابو دحداح رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اللہ تعالی ہم سے قرض طلب فرماتا ہے آپ نے ارشاد فرمایا ہاں صحابی نے عرض کیا اپنا ہاتھ دیجئے پھر ہاتھ میں ہاتھ لے کر کہا یا رسواللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اپنا باغ جس میں چھ سو کھجور کے درخت ہیں اللہ تعالی کو قرض دیا وہاں سے سیدھے باغ میں آئے اور بیوی کو باغ سے باہر ہی کھڑے ہو کر آواز دی بچوں کو باہر لے کر آجاو میں نے یہ باغ راہ خدا میں دے دیا ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ کے انصار میں سب سے زیادہ کھجور کے باغ تھے اور ان باغوں میں بیرحاءکا باغ سب سے زیادہ پیارا تھا جوکہ مسجد کے سامنے ہی تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں جایا کرتے اور اس کا عمدہ پانی پیا کر تےتھے جب یہ آیت کریمہ لن تنا لو االبر حتی تنفقو ا مما تحبون نازل ہوئی تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اللہ تعالی فرماتاہے کہ جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو گے ہر گز بھلائی نہ پاو گے اور مجھے اپنے سب مالوں میں بیر حا ء سب سے پیارا ہے میں اسی کو اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں اور اللہ سے امید کرتا ہوں کہ مجھ کو اس کا ثواب دے گا اور وہ میرا ذخیرہ رہے گا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ جس کام میں مناسب سمجھیں اس کی آمدنی خرچ کریں رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فر مایا واہ واہ وہ تو بہت نفع بخش مال ہے واہ واہ وہ وہ تو بہت نفع بخش مال ہے ایک مرتبہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایک لاکھ درہم بھیجے جو انہوں نے اسی وقت غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کر دیئے اور وہ اس دن خود روزہ سے تھیں بعد میں خادمہ نے عرض کیا اگر افطار کے لئے کچھ بچا لیتیں تو اچھا تھا حضرت عائشہ نے جواب دیا اس وقت یاد دلاتیں تو رکھ لیتی جب رسول اللہ صلی علیہ وسلم رومیوں کے ساتھ جنگ کی تیاری کر رہے تھے اور مسلمانوں پر تنگی کا وقت تھااس فوج کے لئے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے دس ہزار دینار تین سو اونٹ پورے سازو سامان سمیت اور پچاس گھوڑے دیئے تھے بعد میں مزیدصدقہ کیاتو کل مقدار نو سو اونٹ اور ایک سو گھوڑے تک جا پہنچی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد میں ایک مرتبہ قحط پڑا لوگ خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو کل تمہاری مشکل دور ہو جائے گی دوسرے روز حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ایک ہزار اونٹ غلے سے لدے ہوئے مدینہ پہنچے مدینہ کے تاجر ان کے پاس آئے تاکہ غلہ خرید کر بیچیں اور لوگوں کی پریشانی دور ہو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا تم مجھے کتنا نفع دوگے تاجروں نے دس کے بارہ پیش کئے انہوں نے کہا مجھے اس سے زیادہ ملتے ہیں تاجرون نے دس کے چودہ پیش کئے انہوں نے کہا مجھے اس سے زیادہ ملتے ہیں تاجروں نے پوچھا ہم سے زیادہ دینے والا کون ہے مدینہ کے تاجر تو ہم ہی ہےحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے ہر درہم کے عوض دس درہم ملتے ہیں کیا تم اس سے زیادہ دے سکتے ہو تاجروں نے کہا نہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا تاجرو گواہ رہنا میں یہ تمام غلہ مدینہ کے محتاجوں پر صدقہ کرتاہوں قرآن و حدیث کے دلائل اور صحابہ کرام کے حوال وواقعات سے انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت و فضیلت روز روشن کی طرح کھل کر سامنے آتی ہے انفاق فی سبیل اللہ کا یہی وہ معیار ہے جس پر اسلام اپنے پیروں کاروں کو عمل پیرا اور کاربند دیکھنا چاہتا ہے ظاہر ہے جس معاشرے یا سماج میں مذکورہ صفات انفاق سے متصف افراد ہونگے وہ معاشرہ احساس محرومیت کا شکار نہیں ہوگا وہاں کوئی بھوکا اور ننگا نہیں ہوگا مصیبت زدہ اور پریشان حال کو سہارا ملے گا ایسے ہی معاشرے کی ترجمانی کرتے ہوئے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھامسلمانوں کی مثال با ہمی محبت و مئودت اور شفقت کے لحاظ سے جسم واحد کی سی ہے کہ اگر ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بخار اور بے خوابی کا شکار ہوجاتاہے، کاش موجودہ دور کے مسلمان بھی معاشرے کی اس اہم ضرورت انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت وعظمت کو محسوس کریں اور اس پر عمل کرکے دنیا کو ایک مثالی معاشرہ کی جھلک دکھا سکیں.
ربنا تقبل مناانک انت السمیع العلیم