اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: موت ایک ناقابل انکار حقیقت!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday 30 July 2018

موت ایک ناقابل انکار حقیقت!

فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دنیاوی زندگی دارالعمل ہے، نیک اعمال کا پورا پورا بدلہ اور برے اعمال کی پوری سزا اس دنیا میں اللہ تبارک وتعالی نہیں دیتا جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا، وانماتوفون اجورکم یوم القیامة، یعنی اعمال کا پورا پورا بدلہ قیامت کے دن دیا جائے گا، دنیا میں تھوڑی بہت سزا تو کسی برائی کی کبھی اللہ دیدیتا ہے، لیکن پورا پورا بدلہ قیامت کے دن ہی ملے گا، جب دنیا دارالعمل ہے، وقتی زندگی ہے،
اصل زندگی آخرت کی ہیے، اس دنیا سے ہر انسان کو کوچ کرجانا ہے، اسی لئے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے بارے میں فرمایا "کن فی الدنیاکانك غریب" اے عبداللہ بن عمر دنیا میں آپ ایسے ہی رہو جیسے ایک مسافر رہتا ہے، مطلب یہ کہ دنیا کی طرف  مت مائل ہو دنیا کی لذتوں سے لطف اندوز مت ہو، لوگوں سے زیادہ مل جل کر مت رہو کیونکہ ایک دن لوگوں کو چھوڑ کرجانا ہے، آگے آقا نے فرمایا "اوعابرسبیل" یعنی دنیا میں تم مسافر کی طرح ہو بلکہ ایک راہ گیر کی طرح ہو کیونکہ مسافر تو کسی شہر میں قیام بھی کرلیتا، لیکن راہ گیر اپنی منزل مقصود کی طرف نظر رکھتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی لذتوں میں مست ومگن ہوکر آخرت کومت بھول جاؤ بلکہ جس طرح ایک مسافر کہیں سفر کرنے سے پہلے تیاری کرتا ہے ایسے ہی تم بھی اپنے آخرت کے سفر کے لئے تیاری کرو.
ایک دوسری حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اکثروا ھاذم اللذات الموت" لذتوں کو ختم کرنے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کرو، موت کو یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ موت کو بھول نہ جاو کہ تم قیامت کے دن سے غافل ہوجاؤ بلکہ موت کو کثرت سے یاد کرو، موت کو کثرت سے یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کی تیاری کرو، اعمال خیر میں سبقت کرو، برائیوں سے اجتناب کرو، کیونکہ جب موت کو یاد کرو گے توآخرت سے غافل نہیں رہو گے.
 موت ایک ایسی چیز ہے جس کا علم سوائے اللہ کے کسی کو نہیں، ان پانچ چیزوں میں جس کا علم صرف اللہ کو ہے ان میں موت بھی ہے، جب موت کا وقت متعین نہیں، نہ ہی انسان کو موت سے چھٹکارا ہے کہ موت سے بچ نکلے اور حساب وکتاب اس کا نہ ہو.
اللہ پاک نے قرآن میں فرمایا "اے انسانوں اور جنات کی جماعت تم آسمان و زمین کے کناروں سے پار ہونے پر قادر ہو تو پار ہوجاؤ، پار وہی ہوسکتا ہے جو طاقت ور ہو، مطلب یہ ہے کہ تم اللہ کی قضاء سے بچ کر نہیں نکل سکتے بلکہ ایک دن تمہیں موت آئے گی اور حساب و کتاب کے مراحل سے گزرنا ہوگا، حساب وکتاب سے کوئی مفر نہیں، اللہ کو تم دھوکہ دے سکو اے انسانوں اور جناتوں کی جماعت تم اس پر ہرگز قادر نہیں، لہٰذا موت کا ہمیشہ استحضار رکھو اور ہر آن اور ہرلمحہ اس کی تیاری میں ہمہ تن گوش رہو.
قرآن کریم میں دوسری جگہ اللہ فرماتا ہے "این ماتکونوا یدرکم الموت" (آل عمران) یعنی تم جہاں کہیں بھی رہوگے موت تمہیں دبوچ لے گی اگرچہ تم مضبوط قلعہ میں ہی کیوں نہ ہوں، مطلب یہ ہے کہ موت سے کوئی چھٹکارا نہیں، ہر نفس کو موت کامزہ چھکنا ہے، اور دار دنیا سے دار آخرت کی طرف کوچ کرنا ہے.
موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کے بارے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں، ہر شخص موت کا قائل ہے، اور موت کے سلسلہ میں کیوں کر کوئی اختلاف کرسکتا ہے جب کہ ہر شخص اس کا مشاہدہ کرتا رہتا ہے، کہ انسان کا جسم جس پر انسان کو ناز ہوتا ہے، حضرت عزرائیل علیہ السلام جب روح قبض کر لیتے ہیں، وہ جسم کسی کام کا نہیں رہتا، روح قبض ہونے کے بعد ساری دنیا کے انسان مل کر روح کو دوبارہ واپس نہیں لاسکتے.
خدا کے منکرین اگر اس بات پر بھی غور کریں تو دنیا کا کوئی خالق انہیں ضرور نظر آئے گا، کیونکہ جو جسم تھوڑی دیر پہلے بالکل ٹھیک تھا، ایکبارگی کیا ہوگیا کہ بولنے پر بھی قادر نہیں.
موت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کا تحفہ قرار دیا ہے، کیونکہ مرنے کے بعد اخروی زندگی کی جانب رسائی ہوگی، اور نیک اعمال کا پورا پورا بدلہ دیاجائے گا.
ایک عقل مند انسان وہی ہے جو اپنی اصلی اور لابدی زندگی کے لئے تیاری کرے، کیونکہ جب دنیاوی سفر کے لئے پہلے سے تیاری کرتے رہتے ہیں کہ سفر کے اندر کوئی پریشانی اور مصیبت کا سامنانہ کرنا پڑے، تو آخرت کاسفر تو ہمیشگی کا سفر ہے، ایسی جگہ کوچ کرنے کی جگہ ہے جہاں سے دوبارہ لوٹ کر نہیں آنا ہے، لہٰذا ہماری توجہ دنیا کے مال و متاع پر ہو اور اپنی اخروی زندگی کو سجانے سنوارنے سے بالکل غافل ہوجائیں تو ایسا شخص بیوقوف ہے، عقل مند تو وہ ہے جو اپنی لابدی اور اخروی زندگی کے لئے محنت کرے اور ہر آن اور ہرلمحہ آخرت کو سجانے میں مصروف ہو، اور اپنے ہر عمل میں قرآن وحدیث کی پیروی کرے.
دنیاوی زندگی کو بہتر بنانے سے اسلام میں منع نہیں کیا گیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے اس دعا کو پڑھا کرتے تھے  "ربنا آتنا فی الدنیا حسنة وفی الاخرہ حسنة" یعنی دنیا اور آخرت کی بھلائی سے نواز دے، اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فن تفسیر کے امام امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ نے دنیا کی بھلائی اور آخرت کی بھلائی میں کئی قول نقل کئے ہیں، دنیا کے اندر بھلائی مراد نیک بیوی، کشادہ گھر، مال کثیر، یہ تمام چیزیں مراد ہیں، لہٰذا دنیا کوبہتر بنانے کی نفی کرنا اور یہ کہنا کہ دنیا کو بہتر بنانے سے اسلام میں منع کیا گیا ہے، ایسا کہنے والا پلہ درجہ کا جاہل ہے، قرآن کے خلاف اس کا قول ہے، دنیا کو بہتر بناؤ اس سے منع نہیں کیا گیا ہے، ہاں آخرت سے غافل ہونا اس سے منع کیا گیا ہے.
آج کل مسلمانوں میں بہت ہی خرابی یہ پیدا ہوگئی ہے کہ مسلمان صرف نماز پڑھ لینے کو آخرت کی تیاری سمجھتا ہے، اور دوسرے احکام میں شریعت کی پاسبانی کو ضروری نہیں سمجھتا، نماز تو فرض ہے ضروری ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے صرف نماز ہی ضروری ہے اور دوسرے شرعی احکام سے ہم غافل رہیں، شریعت کی خلاف ورزی کریں، خاص کر آج کل ساری توجہ عبادات پر ہے، معاملات کی درستگی کو ہم سرے سے دین سمجھتے ہی نہیں، حالانکہ حقوق العباد اسلام میں بہت اہم ہے، حقوق العباد کی اہمیت کا اندازہ آپ مسلم شریف کی اس روایت سے لگا سکتے ہیں، قیامت کے دن ایک عبادت گزار کو حاضر کیا جائے گا، جس نے دنیا میں بہت زیادہ عبادات کیا، خوب نمازیں پڑھیں، روزہ رکھے، لیکن اس کے اندر کمی یہ تھی کہ لوگوں سے معاملات درست نہیں تھے، کسی کو گالی دیتا تھا، کسی کی حق تلفی کرتا تھا، کسی سے لڑائی جھگڑا کرتا تھا، قیامت کے دن پائی پائی کا حساب ہوگا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جن لوگوں کے ظلم وزیادتی دنیا میں کیا تھا ان کو اس کے بدلہ نیکیاں دلائی جائیں گے، جبکہ اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گے تو دنیا میں جتنا ظلم وستم ان پر کیا تھا اس کے بقدر گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے، اور وہ شخص جو دنیا میں خوب عبادت کیا اس کو جھنم میں ڈال دیا جائے گا، حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد پر پوری توجہ دی جائے، معاملات کی درستگی کا خاص خیال رکھا جائے، ہر آن ہر لمحہ موت کا استحضار ہو، اخروی سفر کی تیاری کے لئے ہمہ تن گوش ہو، اللہ تعالی ہم سب کو جنت الفردوس میں اعلی ٹھکانہ نصیب فرمائے...آمین...