اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعا ہے!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday 25 July 2018

اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعا ہے!

امیر سندھی
ـــــــــــــــــــــــ
اخلاق، پہلوخان، جنید، نجیب، افراز، سراج، عمر، احمد، حافظ شیخ، ظفر، نعمان، زاہد، قاسم، علیم الدین، اکبرخان اور شعیب: ہندوستانی مسلمانوں کے دلوں پر گہرے اور گھاتک زخم، نام نہاد جمہوریت کے منہ پر طمانچہ، اس کے علاوہ سینکڑوں گم نام شہدا، لٹی ہوئی عصمتیں، تار تار ردائیں۔ جلتے گھر اور دکانیں، ملبے کے ڈھیر میں دبی مساجد اور مدرسے!
؎ اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعاہے
ہزاروں اشک بار آنکھیں، لاکھوں پاش پاش دل، ٹکڑوں میں بٹے جگر، آہ و بکا کی تانیں بکھیرتے قلم، فریاد کن زبانیں، زخم سے چور چور روحیں، لہو لہان تھکے ہارے اجسام۔کسی مسیحا، ہم درد، مخلص اور غم گسار کی تلاش میں سرگرداں بھٹکتے پھر رہے ہیں؛ مگر ناکامی اور نامرادی ہے کہ پیچھا نہیں چھوڑتی۔ کوئی تو ہو جو برستے آنسوؤں کو پونچھے، بیٹھتے دلوں کو تھامے، رِستے زخموں پر مرحم رکھے، بھیانک ظلمت، گھٹا ٹوپ اندھیرے اور تاریک شب میں آفتاب صبح ثابت ہو۔ عجب وقت آن پڑا ہے، جنھیں اڑے وقت میں کام آنا تھا، وہ غیروں کی جھولی میں پڑے ہیں۔ وہ میرِ کارواں، جن سے امیدیں وابستہ ہیں، وہ بے مروتی، مصلحت پسندی اور کھوکھلی بیان بازی سے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں۔
       ـــــــــــــــعـــــــــــــ
وہی راہزن جنھوں نے میرے کارواں کو لوٹا
بہ خدا انھی میں شامل تھا امیر کارواں تک
زخم خوردہ ہندی مسلمان کسی جائے پناہ کی تلاش میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ان کے دشمنوں کے عزائم بلند اور حوصلے بڑھتے جارہے ہیں۔ دشمنوں کو معلوم ہوگیا، انھوں نے اچھی طرح سے جان لیا کہ یہ لاوارث ہیں، ان کا کوئی سہارا و آسرا نہیں۔ ان کے بڑے، جنھیں انتقام لینا تھا، وہ ہم سے اخوت کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ انھوں نےپہلے پہل اخلاق کو بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار کر دیکھا کہ کیا رد عمل ہوتاہے؟ دشمنوں نے دیکھا کچھ مسلمان صبر کی تلقین کر رہےہیں۔ چند گمراہ صوفی صافی لوگ مسلمانوں کے اعمال کی سزا بتا رہے ہیں۔ (ظالمو! یہ تمہاری بد اعمالی کی نحوست ہے اور مسلمان تمہاری اقتدا کی قیمت چکا رہے ہیں) بھگوا آتنکی پہلے بیانات، مذمت، جلسے جلوس اور قرادادوں سے خائف ہوئے، جلد ہی جان گئے کہ یہ گیدڑ بھبکیوں کے علاوہ کچھ نہیں، یوں ان کا حوصلہ بڑھتا گیا، پولیس اور سرکار کی اعانت نے انھیں اور جری کردیا، وہ یکے بعد دیگرے محمدِ عربیؑ کے غلاموں کے خون سے ہولی کھیلنے لگے۔
           ـــــــــــعــــــــــ
نبی اکرم، شفیع اعظم
دکھے دلوں کا پیام لے لو
اے میرِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کی رحمت، محبت، امت سے اپنائیت، ہمدردی اور پیار دیکھ کر بے اختیار مضطرب دلوں سے پکار اٹھتی ہے۔ اے مسیحائے عالمین! آپ کی امت بے سہارا ہوچکی ہے، ہمارے بڑے ان سے انصاف کی آس پر جی رہے ہیں، جن کے بھیانک جبڑوں سے گجرات کے ہزاروں مسلمانوں کا خون رس رہا ہے۔ اے آقا! گر آپ ہوتے تو ہم یوں لاوارث کتوں کی طرح نہ مارے جاتے، سید الرسل! آپ نے ایک مسلمان کے خون کی خاطر، پورے لشکر کو موت کے منہ میں ڈال کر حضرت عثمانؓ اور پورے لشکر کو محفوظ کر لیا تھا۔ ایک بیٹی کی چادر کے تقدس پر کُشتوں کے پشتے لگائے۔ آہ ہماری جھولی میں چادر اور چہار دیواری کے تقدس سے آگے آصفہ جیسی لٹی پٹی لاشیں اور تار تار ردائیں ہیں۔
ایسے وقت میں امیر معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہما، حجاج ابن یوسف اور منصور بہت یاد آتے ہیں، انھوں نے ایک ایک مسلمان کی جان، عزت، عزمت، غیرت، آن بان اور شان کے لیے بڑے بڑے معرکے سر کیے، لشکروں کو حرکت دی، مسلمانوں کے دشمنوں کو بتا دیا کہ مسلمان راکھ کا ڈھیر نہیں۔ سب مسلمان ایک مسلمان کے لہو کے لیے جان سے گزر سکتے ہیں۔
اے مسلمانو! کیا آصفہ ہماری بیٹی نہیں تھی؟ اسے صرف اس لیے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ مسلمان تھی! افراز اس لیے زندہ جلائے گئے کہ وہ محمد کا کلمہ پڑتے تھے۔ نجیب کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ وحدانیت کے قائل تھا۔ اکبر کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ وہ مسلمان ماں کا بیٹا تھا، اس لیے پولیس نے بھی ان کے مقدس خوں سے ہاتھ رنگے۔ میرے بھائیو! کبھی اپنے اختلافات سے فرصت ملے، کبھی سوشل دانشوری ست کچھ وقت ہاتھ لگ جائے، جب فرقہ فرقہ کھیلتے کھیلتے تھک جائیں، اپنے مسلک کو جنتی، باقی کو کافر بنانے کے کام سے جب فارغ ہوجائیں تو سوچنا:۔"کیا ہم ذلیل ہونے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟ اسی طرح پستے رہیں گے؟ ایک ایک کرکے نشانہ بننے سے بہتر ہے کہ سب میدان میں آ جائیں۔ بے بسی کے بجائے سینہ تان کر، بزدلی کے بجائے بہادروں والی موت کو گلے لگائیں۔ مسلمانوں کیا ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ قاتل بھیڑ کی لاشیں گرنے کی خبر آئے؟
جنازے ڈھوکر کندے ہلکان ہوچکے، لاشیں اٹھا اٹھا کر ہم تھک گئے۔ خون کے آنسوں بہا کر آنکھیں خشک ہوچکیں، ضبط کے بندھن ٹوٹ چکے، صبر کا پیمانہ چھلک پڑا، اب آہوں اور سسکیوں کی بجائے غیض و غضب سے برا حال ہے۔ اب ہمیں انداز، روش اور طریقۂ کار بدل کر یہ اعلان کرنا ہوگا۔
        ــــــــــعــــــــ
وہ دن گئے، جب ہر اک ستم کو ادائے محبوب کہ کے خوش تھے
اب آئے گی ہم پے اینٹ کوئی، تو پتھر اس کا جواب ہوگا
گر ہم نے یہ نہیں کیا، تو ہم خود اپنی تباہی کے ذمہ دار ہوں گے، اللہ بزدلوں کی نصرت نہیں فرماتا، فطرت اور قدرت سے انحراف کرنے والوں کو تقدیر بھی نہیں بخشتی، ظلم پر خاموشی ظلم ہے، ستم کو سہ کر چپی سادھ لینا ناقابل معافی جرم ہے۔ قتل، فساد، فتنے اور غارت گری کے خلاف جتنی دیر سے اٹھیں گے، اتنی ہی زیادہ جانیں گم کریں گے۔ مسلمانو! بہت ہو چکی صفائیاں اور جمہوریت کی ٹھیکے داری۔ خدا را، خدا را، خدا را! ہوش میں آؤ! دیکھو تو سہی، مودی سامراجیت، انگریز سامراجیت کا دوسرا رخ ہے، بھگوا آتنک،  انگریزی دہشت گردی سے بھی بھیانک ہے، انگریز تو صرف اپنے باغیوں کو قتل کرتے تھے؛ مگر یہ پر امن شہریوں کو مارتے، مزدورں کا خون بہاتے اور نہتے لوگوں کی جان لیتے ہیں، بے قصور نوجوانوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنساکر ان کی زندگی سے کھیلتے ہیں۔ مسلمانو! آپ محمد عربی کے غلام، فاروق اعظمؓ کے عقیدت مند، ابن ولید کے بیٹے ،محمد بن قاسم کے نام لیوا ہو، پھر ڈرتے کیوں ہو؟ قرآن سے روشنی لیکر کچھ کر دکھاؤ، پرکھوں کے کارنامے سنانے کے بجائے خود اپنے وطن کے لیے کارنامے سر انجام دو۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پر آشوب حالات میں خونِ مسلم کی ارزانی کا یہ عالم ہے کہ جانوروں کے لیے مسلمانوں کو تڑپا دیا جاتا ہے۔ آدھی امت عید ملن، ایکتا بازی میں مصروف ہے، باقی مصلحت پسندی کے آہنی خول میں قید وبند۔ کچھ نے قومیت کا بت گلے لگایا ہوا ہے، باقی وطنیت کی نظر ہوگئے۔ ایسے میں اس پاک ہستی کی یاد سے دل و دماغ معطر ہونے لگتے ہیں، جو رحمۃ للعالمین ہیں۔ جن و انس، کافر و مشرک، جمادات و نباتات، بحرو بر، اپنے، پرائے: سب کے لیے سراپا رحمت، صلی اللہ علیہ وسلم۔ ایسا کوئی رہبر نہیں جو ملت کو پرخطر حالات سے باعزت نکال سکے، ایسا کوئی قائد نہیں جو امت مرحومہ کی کشتی بھنور سے کنارے لگا سکے۔ ایسے وقت اس نبی رحمت، ضحوک قتال کی بارگاہ میں دعا کی درخواست سب سے بڑا سہارا اور دکھی دلوں کا آسراہے۔
             ــــــــــــعـــــــــ
اے خاصۂ خاصان رسل، وقت دعا ہے
امت پے تیری آکے عجب وقت پڑا ہے