اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: عصرِ حاضر میں میڈیا کا کردار اور ہماری ذمہ داریاں!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday 26 July 2018

عصرِ حاضر میں میڈیا کا کردار اور ہماری ذمہ داریاں!

تحریر: عاصم طاہر اعظمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آج کے ترقی یافتہ دور میں میڈیا کی اہمیت مسلم ہے، مختلف قسم کے ذرائع ابلاغ نے ٹیکنالوجی کے سہارے اس وسیع و عریض کرہ ارض کو ایک گلوبل ویلیج میں بدل کے رکھ دیا ہے، میڈیا نے انسان کو ہر ہر لمحے سے باخبر رکھنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے، آج کے دور کا اہم ترین مسئلہ معلومات کی قلت نہیں بلکہ بے پناہ معلومات کے سمندر نے انسانوں کو فکری پریشانیوں میں مبتلا کر رکھا ہے، آج کے میڈیا کا سب سے بڑا استعمال ذہن سازی اور مخصو ص مقاصد کے لئے کیا جانیوالاپروپیگنڈا ہے، میڈیا کے شوروغل نے سچ اور جھوٹ کی پہچان مشکل بنا دی ہے، مباحثوں ، خبروں اور دلکش پروگراموں کے ذریعے فکر ، سوچ اور ذہن کو مسخر کیا جاتا ہے، ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی بھرپور یلغارکی بدولت آج ہمیں  اسلامی معاشرے میں فحاشی و عریانی ، رقص و سروراور سب سے بڑھ کر لادینی جیسی لعنتوں کا سامنا ہے، مغربی تہذیب عام ہو رہی ہیں جبکہ ہماری ثقافتی روایات روبہ زوال ہیں، میڈیا کے منفی کردار نے ہی آج نوجوانوں کو مغربی تہذیب کا دلدادہ بنایا ہے، بوڑھوں کے نصیب سے مساجد اور عبادات کی لگن چھینی ہے، بچوں کو مغربی تہذیب سے آشنا کرایا ہے جبکہ حکمرانوں کو روشن خیالی کا درس دیا ہے، آج کے دور میں میڈیا سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں ہے، میڈیا سے آگاہی کی آج سب سے زیادہ ضرورت ہے، اگر ہم معاشرتی ترقی کی منزل پانا چاہتے ہیں تو میڈیا سے ہمقدم ہوتے ہوئے اس بے قابو جن سے دوستی کرنا ہوگا میڈیا کو اپنی معاشرت و روایات سے ہم آہنگ کرنے کے لئے بھرپور تیاری کی ضرورت ہے، ذرائع ابلاغ کے کردار و عمل سے آگاہی کے لئے نصاب تعلیم میں ان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی ضرورت ہے، کس طرح میڈیا معاشروں کو بدلتا ہے ، پروپیگنڈا کے رائج طریقیوں اور دوسرے اصول و ضوابط کا علم ہی لوگوں کو اس کے اثرات سے محفوظ رکھ سکتا ہے،
کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ ہمیں دنیا داری سے کیا مطلب ہم مسلمان تو اللہ پر بھروسہ کرنے والے ہیں اور اللہ ہی ہر چیز کا بدلہ دینے والا ہے ، اب میڈیا مسلمانوں کو بدنام کرے تو اسکا جواب بھی اللہ ہی دیگا، یقیناًہر چیز کا خالق اللہ ہے اور ہر چیز پر جزاء و سزااللہ ہی دینے والاہے، لیکن قرآن میں اللہ نے اس بات کی بھی تذکرہ ہے کیا ہے کہ ’’ اللہ اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت بدلے ‘‘ اب یہاں میڈیا کے تعلق سے بھی وہی بات آتی ہے کہ اگر مسلمان خود اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی تردید کے لئے وسائل نہیں بناتے ہیں تو اللہ کی جانب سے تو کوئی وسیلہ نہیں بنے گا اور نہ ہی اسکے لئے الگ مخلوق کی آمد ہوگی ۔ اصل میں مسلمانوں نے اسلام کے چند محدود تعلیمات کو ہی اپنا کر اسلام کو محدود کردیا ہے  نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم کی چند احادیث پر عمل کرنا ہی مسلمانوں نے اپنا فریضہ سمجھ لیا ہے ، جب ہم اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات آئیگی کہ جرنلزم یعنی صحافت اسلام کا ہی ایک جز ہے ، نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں اسلام کی تبلیغ کے لئے جو خطوط لکھے جاتے تھے وہ ایک طرح سے اخبارات ہی ہیں،جو عوام کے درمیا ن پڑھ کر سنائے جاتے تھے ، اسکے بعد خلفائے راشدین نے اس طریقے کو اپنا یا اور دین کی اشاعت کی، اسلام کے حریفوں کو خطوط کے ذریعے جواب دیا لیکن آج اس طرز کو ہم نے یہودی و سنگھیوں کا رواج سمجھ رکھا ہے، اسلام میں کسی حق بیانی کو ظاہر کرنے سے کبھی منع نہیں کیا ہے حالانکہ اس وقت وسائل و طریقے الگ تھے اور اب کے وسائل و طریقے الگ ہیں لیکن ہم ان باتوں کوسمجھنے سے قاصر ہورہے ہیں اور دین کو آڑ بنا کر ہمت نہیں کرپا رہے ہیں، دنیا کے 98؍ فی صد میڈیا پر یہودیوں نے قبضہ کرلیا ہے ، ہندوستان کے 98فی صد حصہ پر سنگھیوں کا قبضہ ہے اور 90؍ فی صد مسلمان میڈیا سے دور ہیں، اس ملک کے 17؍ کروڑ مسلمان اگر چاہتے تو ہر ایک کروڑ مسلمانوں کے لئے ایک میڈیا ہاؤس کا قیام کرسکتے تھے لیکن افسوس صد افسوس کہ کوئی ایک بھی ایسا میڈیا نہیں ہے جو حق کی ترجمانی کرے الا ماشاءاللہ،
اس وقت اسلام پر جو منظم طریقہ پر یورش ہورہی ہے، اس میں سب سے اہم کردار پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، اور سوشل میڈیا کا ہے، تمام ذرائع ابلاغ پر یہودیوں کا قبضہ ہے، وہ جس خبر کو جس طرح چاہتے ہیں پیش کرتے ہیں اور دل و دماغ پر بٹھا دیتے ہیں، یہ ذرائع ابلاغ ہی کا کمال ہے کہ جس کے ذریعہ آج اسلام کو ایک دہشت پسند مذہب کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے، جس سے اور تو اور مسلمان کا ایک طبقہ متأثر ہورہا ہے، ہمیں یہ کہنے سے دنیاوی مشکلات سے نجات نہیں مل سکتی ہے نہ صحافتی مہم اور حملہ کو روکا جاسکتا ہے اور نہ ہی آخرت میں اس باز پرس سے بچا جاسکتا ہے، کہ “ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا، اور صحافت پر گندگی کا پردہ پڑا ہوا ہے،اخبارات، جرائد و رسائل اور سوشل میڈیا میں حوا کی بیٹیوں کی عریاں اور نیم عریاں تصویریں ہوتی ہیں، آج کی صحافت بے حیائی کو فروغ دے رہی ہے اس لئے یہ ناجائز وحرام ہے” محض نفرت اور کنارہ کشی اس کاعلاج نہیں ہے، بلکہ حکمت پسندی سے کام لیتے ہوئے اس میدان کو صاف کرنے کی ضروت ہے، اس کے ذریعہ جہاں اسلامی تعلیمات کی نشر واشاعت کی جاسکتی ہے، وہیں اسلام پر ہونے والے حملوں کا دفاع بھی کیا جاسکتا ہے، اپنی نجی مجلسوں اور کمروں میں بیٹھ کر اظہارِ افسوس اور تبصروں سے اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا جواب نہیں دیا جاسکتا، ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان عصر حاضر کے تقاضوں کو سمجھیں، اپنے فنی و مادی وسائل کو بروئے کار لاکر ذرائع ابلاغ پر اپنا تسلط جمائیں، پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک، سوشل میڈیا کی طاقت اپنے حق میں استعمال کرنے کی جد وجہد کریں، اس میدان میں اہم پیش رفت کے بغیر مدارس اسلامیہ بھی اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش نہیں ہوسکتے ہیں، کم ازکم سوشل میڈیا میں تو ہم سرم گرم رول ادا کرہی سکتے ہیں،
اگرملک کے ایسے بڑے دینی مدارس کہ جہاں سے ہر سال ہزاروں طلبہ فارغ ہوتے ہیں، ان میں سے ہر مدرسہ کے ذمہ داران بیس سے پچیس ایسے ذی استعداد فارغین کو سامنے لا سکیں کہ جو میڈیا کا کافی حد تک علم رکھتے ہوں، انہیں اپنی بات کہنے کا ہنر آتا ہو، وہ میڈیا پر آکر اپنا موقف بے دھڑک بیان کر سکیں تو یقیناً ہمارے معاشرے میں میڈیا کی تباہ کاریوں میں کمی لائی جا سکتی ہے اور ضرور مدارس اسلامیہ کو اس میں آگے آنا چاہیے،
اللہ جل مجدہ مسلمانوں کے اندر خاص طور پر مدارس اسلامیہ کے فارغین میں میڈیا کے تئیں بیداری اور اس کا صحیح استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمیـــن