اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: افطار میں برادران وطن کو بھی کبھی شریک کیجیے!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday 21 May 2018

افطار میں برادران وطن کو بھی کبھی شریک کیجیے!

تحریر: محمد قمرالزماں ندوی مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
ــــــــــــــــــــــ
        اللہ تبارک و تعالٰی نے پوری انسانیت کو ایک ہی ماں باپ آدم اور حوا علیھم السلام سے وجود بخشا، گویا ساری مخلوق ایک ہی کنبہ کے افراد اور ایک ہی خاندان کے ارکان ہیں ۔
     نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ الخلق کلھم عیال اللہ ساری کی ساری مخلوق اللہ ہی کا کنبہ ہے ۔
       اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو یہ رشتہ ہمیں برادران وطن کے ساتھ حن سلوک، خیر خواہی اور بہتر رویہ کی راہ دکھاتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے ۔ آج کے ملکی اور غیر ملکی حالات میں ہم مسلمانوں کو اس پہلو سے بھی ضرور غور کرنا چاہئے کہ ہم کس طرح برادران وطن کو اپنی خوشیوں میں  شریک کریں اور عید الفطر اور افطار کا اسلامی اور روحانی منظر دکھا کر ان کا دل جیتیں اور  مذہب اسلام سے مانوس کریں ۔
          شریعت کی رو سے رمضان المبارک کا مہینہ ضبط نفس ایثار اور غم خواری کا مہینہ ہے یہ انسانیت کے دکھ درد اور پریشانی کو سمجھنے اور محسوس کرنے کا مہینہ ہے اس مہینہ میں جہاں روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور نفلی نمازوں اور تلاوت و تسبیحات و اذکار کی زیاتی کی تلقین کی گئ ہے وہیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ خرچ خرچ کرو اور خلق خدا کو فائدہ پہنچاو ۔ خلق خدا میں ساری انسانیت شامل ہے ۔ صدقات واجبہ یعنی زکوة تو صرف مسلمان فقراء اور مستحقین پر خرچ کریں کیونکہ ہمیں اسی کا پابند شریعت نے بنایا ہے ،لیکن صدقات نافلہ جہاں ہم مسلمان غرباء اور مستحقین پر خرچ کریں وہیں برادران وطن پر بھی ہم اس مد میں سے کچھ خرچ کریں ،اور خصوصا آج کے حالات اور حساس دور میں اس کی سخت ضرورت ہے ،جہاں برادرن وطن کے ذہنوں میں ہمارے تئیں بہت ہی نفرت، غلط فہمیاں ہیں اور دوریاں ہیں ۔
           ہمارا عقیدہ ہے کہ دنیا و آخرت کی کامیابی اور نجات کے لئے ایمان اور عمل صالح شرط لازم ہے اس کے بغیر انسان خسارہ میں ہے سورہ عصر میں اللہ تعالی نے زمانے کی قسم کھا کر اس بات کو بیان کیا کہ زمانہ کی قسم سارے کے سارے انسان خسارے اور گھاٹے میں ہیں بجز ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے عمل صالح کیا حق اور صبر پر جمے رہے اور اس کی تلقین کرتے رہے ۔
        اس سے معلوم ہوا کہ ایمان سے محرومی کی وجہ سے ایسے لوگ ہمیشہ دوزخ کا ایندھن بنے رہیں گے اور یہ دوزخ کس قدر ہولناک تکلیف دہ اور اذیت ناک ہوگا کہ دنیا میں اس کی ہولناکی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ اللہ تعالٰی انسان کے سارے جرم اور گناہ کو معاف کر دیں گے لیکن شرک کو کبھی معاف نہیں کریں گے ۔
    تو ان ایمان سے محروم اور شرک میں مبتلا لوگوں کی نجات اور کامیابی کی فکر کرنا یہ ہماری ذمہ داری ہے، اللہ تعالی نے اس امت (مسلمہ) کو خاص طور پر اس کی ہدایت کی ہے اور اس کا مکلف بنایا ہے ۔
     تو ہماری یہ دعوتی ذمہ داری تو پورے سال اور پوری زندگی پر محیط ہے لیکن رمضان المبارک کے مہینہ میں ہماری یہ ذمہ داری دوگنی اور دو چند ہو جاتی ہے کیونکہ یہ مہینہ وہ مبارک مہینہ ہے جس انسانیت  کی ہدایت کے لئے اللہ تعالی نے آخری آسمانی الہامی کتاب نازل کیا ۔
         لہذا اس کتاب  ہدایت کو اور اس کے آفاقی پیغام کو برادران وطن تک اس ماہ مبارک  میں پہچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔
رمضان المبارک کا یہ مہینہ ہمارے لئے اس کا بہتر موقع بھی فراہم کرتا ہے ۔
الحمد للہ ایک حلقہ اس عمل اور اس محنت کے لئے کوشاں اور سرگرداں ہے اور اس کے مفید نتائج بھی سامنے آرہے ہیں ۔
دوسرا کام جو ہم مسلمانوں کو اس ماہ مبارک میں آج کے ملکی حالات کی روشنی خاص طور پر انجام دینا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہم افطار کے موقع پر برادران وطن کو بھی مدعو کریں اور وہ ہمارے کھانے میں شریک ہوں اور خدا کی بندگی کے اس غیر معمولی نظارہ کو وہ اپنی سر کی آنکھوں سے دیکھیں لیکن یہ افطار پارٹی کی طرح رسمی پارٹی نہ ہو جہاں شور و ہنگامہ اور افرا تفری اور تصویر کشی کا ماحول ہوتاہے اور روحانیت اور عبادت نام کی کوئ چیز نہیں ہوتی ۔ اس کے لئے ضروری ہوگا کہ افطار کے نظم کو شور و ہنگامہ اور محض کھانے پینے کے انتطام اور تصویر کشی اور دیگر خرافات سے بچاتے ہوئے وہ ماحول پیدا کیا جائے جو افطار کے لئے مطلوب ہے اور غذائی دعوت سے زیادہ جس میں روحانی دعوت کا عنصر شامل اور  نمایاں ہو ۔ افطار سے پہلے روزہ کی حکمت و مصلحت اور اس کے روحانی و جسمانی فائدے پر گفتگو کی جائے ۔ اور اس وقت غیر مسلم بھائیوں کے سامنے انسان اور انسانیت کے مقام کو اجاگر کیا جائے اور حسب حال مختصر سے بیان میں توحید و رسالت اور آخرت کے تصور پر بھی روشنی ڈالی جائے ۔ نیز قرآن مجید کا تعارف کرایا جائے اور قرآن مجید کا ہندی اور انگریزی نسخہ ان لوگوں کی خدمت میں پیش کیا جائے ۔
اجتماعی نماز کا منظر وہ دیکھ سکیں اس کے لئے افطار کے بعد ان کے بیتھنے کا مناسب انتظام بھی کیا جائے ۔ اس دعوت کو صرف کھانے کا دسترخوان نہ بنایا جائے بلکہ ہدایت ربانی کا دستر خوان بھی بنانے کی کوشش کی جائے ۔
جب افطار کے وقت موجود  برادران وطن ہماری نماز کو دیکھیں گے تو ضرور اس کا اثر پڑے گا کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ خود نماز کا منظر بھی بہت ہی پر کیف اور متاثر کن ہے ۔
آئیے رمضان المبارک میں ہم اس پہلو اور اس جہت سے بھی اپنی ذمہ داری کو ادا کریں یقینا آج کے ماحول میں اس طرح کی  دعوتی حکمت عملی کی سخت ضرورت ہے ۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو اس کی توفیق بخشے اور صرف تھیوری نہیں بلکہ پریکٹیکل ہم اس کام کو انجام دینے لگیں اس کی ہمت اور حوصلہ بخشے ۔  آمین