اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: مسجد اقصٰی کی پکار!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Tuesday 22 May 2018

مسجد اقصٰی کی پکار!

از: محمد آصف قاسمی سیتامڑھی
استاذ مدرسہ ابی بن کعب تحفیظ القرآن الكريم گھاسیڑہ میوات
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    مسجد اقصٰی مسلمانوں کا قبلہ اول ہے،خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے، بایں وجہ مقامی مسلمان غایت درجہ محبت کی بناء پر اسے المسجد الأقصى یا حرم قدسی شریف (الحرم القدسي الشريف) کہتے ہیں.
  یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے جس پر فی الوقت صہیونیوں کا ناجائز اور غاصبانہ قبضہ ہے، حالانکہ صرف فلسطين کے مسلمانوں ہی کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے یہ مقام ایک خاص مذہبی حیثیت بھی رکھتا ہے کہ یہ سرزمین بے شمار انبیاء کرام کا مولد و مسکن رہا ہے اور معراج کے سفر کے دوران حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور جملہ انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت کی تھی پھر براق کے ذریعہ ساتوں آسمان کے سفر پر روانہ ہو ئے، قرآن مجید نے اس سفر کا دلکش منظر کھینچا ہے اور ذخیرہ احادیث کو کھنگالنے سے پتہ چلتا ہے کہ صرف تین مساجد کی جانب سفر کرنا باعث برکت ہے جس میں مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصٰی شامل ہیں، ابتدا میں 16 سے 17 ماہ تک مسلمان مسجد اقصٰی کی جانب رخ کر کے نماز ادا کرتے تھے پھر تحويل قبلہ کے بعد خانہ کعبہ مسلمانوں کا قبلہ قرار پایا،نیز بہت سے صحابہ کرام تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی ہے.
        چنانچہ امت مسلمہ کی نمائندگی کرنے والے کم و بیش تمام مقتدر اہل علم اور دینی و سیاسی ادارے مسجد اقصٰی کے حوالے سے جس موقف پر متفق ہیں، وہ یہ ہے کہ یہ مقام تاریخی اور شرعی لحاظ سے بلا شرکت غیر مسلمانوں کی ملکیت ہے، اس کی تولیت اور اس میں عبادت خالصۃ مسلمانوں کا استحقاق ہے اور یہودیوں کا اس مقام پر عبادت کرنے یا یہاں ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کا مطالبہ مسلمانوں کے ایک مقدس مقام کی توہین اور ان کے مذہبی جذبات کی پامالی کی ایک سازش ہے.
       امریکی صدر کا مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنےاور وہاں اپنا سفارت خانہ کھولنے کا عمل قابل مذمت ہے، امریکہ کی یہ کوشش پوری دنیا میں امن و امان اور قومی یکجہتی کے لیے خطرہ ہے، دنیا بھر کے مسلمان کبھی یہ برداشت نہیں کریں گے کہ بیت المقدس پناہ گزینوں کا دار الحکومت بنے.
       صدیوں سے یہاں کے مسلمان یہودی بربریت اور ظلم و ستم کا شکار ہیں لیکن آج اس مقدس سر زمین پر مسلمانوں کے خلاف امریکی و اسرائیلی جارحیت زوروں پر ہے، یہاں کے باشندے اپنے ہی ملک میں بے کسی و بے بسی کی زندگی گزار پر مجبور ہیں، انہیں اپنے ہی وطن سے بے دخل کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور اس مقدس مقام کی حرمت پامال کی جارہی ہے، جبکہ اس کی حفاظت کے لیے کتنے ہی نوجوان اپنی جانوں کی قربانی پیش کر چکے ہیں، کتنے ہی بچے اور بچیاں امریکی و اسرائیلی ظلم و تشدد کی تاب نہ لا کر ابدی نیند سو چکے ہیں، کتنے ہی خواتین اور بوڑھے امریکہ اور اسرائیل کی دہشت گرد فوجیوں کے نشانہ بن چکے ہیں، اس پاک سر زمین پر اس وقت ہر طرف بکھری ہو ئی لاشیں ہیں، زخمیوں سے اسپتال اٹے ہوئے ہیں، زخمیوں کی چیخ و پکار اور آہ و فغاں سے آسمان لرز رہا ہے اور زمین کراہ رہی ہے.
     ہائے یہ کیا ہو رہا ہے، اس مقدس سر زمین پر ظلم و بربریت کا ننگا ناچ کیوں کھیلا جا رہا ہے، کیوں بچوں پر تشدد کا بازار گرم ہے، کیوں وہاں کی عورتوں کی ناموس محفوظ نہیں ہے، کس جرم میں ان کے سہاگ کو ان سے چھینا جارہا ہے، کس گناہ کے عوض ان کی گودوں کو سونا کیا جارہا ہے، اہل فلسطین پر کی گئی اسرائیلی و امریکی دہشت گردی کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں.
       لیکن قربان جاؤں وہاں کی جانباز عوام اور جوشیلے نوجوانوں پر کہ آج بھی فلسطینی عوام اپنی ہمت اور ارادوں کو کمزور نہیں ہونے دیا، پوری جرأت و بصالت کے ساتھ صیہونی دہشت گردوں کا ڈٹ کر مقابلہ کررہے ہیں، ان ظالم و جابر حکمرانوں کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں قابل ذکر بات یہ ہے کہ نہتے فلسطینی مسلمان گولیوں کا جواب پتھر سے دے رہے ہیں اس کے باوجود کسی ملک میں اتنی ہمت نہیں کہ اس ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کرے اور امریکہ اور اسرائیل کو دہشت گرد کہے حالانکہ اس وقت عالمی دہشت گرد اگر کوئی ملک ہے تو وہ امریکہ اور اسرائیل کے سوا کوئی نہیں ہے، یہی کام اگر کوئی مسلم ملک یا کوئی فرد مسلمان کرتا ہے تو پوری دنیا اکٹھا ہوجاتی اور نہ جانے اقوام متحدہ کی کتنی ہی میٹنگ ہوچکی ہوتی مگر آج سب کو سانپ سونگھ گیا ہے.
        لیکن امریکی صدر جتنا بھی زور لگا لے وہ کبھی بھی اپنے ناپاک ارادوں اور پلید منصوبوں میں کامیاب نہیں ہو سکتا ہے، جس طرح وہ وقفہ وقفہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کا مظاہرہ کررہا ہے، عالم میں کی جانے والی امن کی کوششوں کو سبوتاژ کررہا ہے محض اپنی انا، اپنی قوم کی ترقی اور عالمی دہشت گرد نیتن یاہو کے لیے، لیکن امریکہ کے پاگل صدر کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ وہ اپنے ناپاک عزائم کو کبھی پائے تکمیل تک نہیں پہنچا سکتا.
           عالمی برادری اقوام متحدہ کو چاہیے کہ امریکی دہشت گردی اور اسرائیلی مظالم کی کھل کر مذمت کرے اور انہیں ناپاک ارادوں اور غلط منصوبوں سے باز رکھے ورنہ امریکی صدر کی مسلم دشمنی دنیا کو تباہ و برباد کردے گی.
         اسی طرح 56 مسلم ممالک اور وہاں کے حکمرانوں کو چاہیے کہ ردائے غفلت کو چاک کر کے ان عالمی دہشت گردوں کے خلاف صف آراء ہوں اور ان سے سفارتی تعلقات فی الفور ختم کریں اور یہ باور کرائیں کہ امریکہ کے اس اقدام کی وجہ سے خطے میں افراتفری اور خانہ جنگی کا خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے اور ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سفارت خانے کو منتقل کرنا یہ دراصل مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف ہے.
           اس لیے تمام مسلم ممالک کو اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر کے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے اور اسلامی فوجی اتحاد کو تشکیل دے کر اسے امت مسلمہ کے اجتماعی مفاد اور امریکی و اسرائیلی بربریت اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے استعمال کر نا لازم ہے ورنہ امریکی اور اسرائیلی دہشت گردی مزید بڑھے گی.
        وہ مسلم حکمرانو! مسجد اقصٰی تمہیں آواز دے رہی ہے، بیت المقدس کی پاک سر زمین تمہیں پکار رہی ہے کہ مجھے من کے کالے جسم کے گورے، ظالم، جابر اور دہشت گرد قوم سے نجات دلاؤ.