اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: ارے! کس دیوانےنے کہا تھا کہ یہ دل والوں کی دلّی ہے!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Friday 30 August 2019

ارے! کس دیوانےنے کہا تھا کہ یہ دل والوں کی دلّی ہے!

احتشام الحق ، مظاھری ، کبیر نگری
_______________
ہندوستان کی پوری تاریخ ہندوستانی مسلمانوں کی قربانیوں انکی خدمات و احسانات سے  بھری پڑی ھے ہندوستان کا خواہ وہ دور ھو جب مسلمان اس سر زمین کے حکمران تھے ،یا وہ دور ہو جب یہ ملک انگریزوں کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ھوا تھا ،تاریخ گواہ ھے کہ ہر دور میں مسلمانوں نے ہندوستان کے بجھتے چراغ کو روشن کیا ھے، ڈوبتی کشتی کو ساحل تک پہنچایا، لیکن آج جب ہم تصویر کے دوسرے رخ پر نظر ڈالتے ھیں تو ہمیں اپنی آنکھوں پر خواب دیکھنے کا گماں ہوتا ھے، اپنے آنسوں پر ضبط کا یارا نھیں رہتا ، اپنی ہچکیوں سے ہنگامہ برپا ہوجا تا ھے، اپنی آہیں حدِّ ضبط سے باہر ھوجاتی ہیں، اور اپنے ذہن و فکر کا توازن باقی رکھنا دشوار ہوتا ھے ،
 کیونکہ ،،جس ملک کو ہمارے اکابرین نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے آزاد کرایاتھا۔ اس ملک میں ہر آئے دن مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں۔ کبھی مسلمانوں کی شہریت چھیننے کے ذریعہ تو کبھی شریعت میں مداخلت کے ذریعہ، کبھی فرضی مقدمات کے ذریعہ تو کبھی ماب لنچنگ کے ذریعہ۔ ان تمام ظلم و تشدد سے مسلمانوں کے عزم و حوصلہ کو مسمار کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ لیکن یاد رکھو مسلمان ظلم سہنا بھی جانتا ہے اور ظلم کا جواب دینا بھی ،

ماب لنچنگ ہجومی دہشت گردی ہے۔کسی نہتے پر ظلم و ستم کرتے ہوئے اسے مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دینا یہ نامرددانگی کی دلیل ہے۔
جیساکہ  ، آج  دلی کے پرانی دلی اشٹیشن  کی ایک بھیڑ نے بوڑھی ہاجرہ کے اکلوتے بیٹے  قاری  اویس  کو ماب لنچک میں موت کی ابدی آغوش میں سلادیا ھے ،  بچوں کے ہاتھوں میں کاسۂ گدائی تھمادیا ھے، انھیں آسمان کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ھے ، اور بیوی کو بیوگی کا لبادہ اڑھا کر سوگوار بنا دیا ھے ،
ادھر بوڑھی ہاجرہ اکلوتے بیٹے کے فون کے انتظار میں غم کی تصویر بنی بیٹھی ھے ،، اس غم کی شعاوں سے کسی سب سے بڑے المیہ کا سراغ مل رھا تھا ،، کہ اچانک گلی ، کے باہر افرا تفری کا عالم بپا ہوگیا ، کہ قاری اویس کو پرانی دلی کے ہجومی دہشت گردوں نے قتل کردیا ھے ،، بوڑھی ماں ، حواس باختہ ،سسکتی، بلکتی، چیختی، چلاتی، گلی کے باہر نکلی ، ارے،، کون سے اویس کو لوگوں نے پیٹ پیٹ کر مارڈالا ، ،، میرے بیٹے کو ،،،، اسکا تو ابھی فونبھی نھیں ایا ھے ، ابھی تو میری دوا بھی نھیں لیا ھوگا ،،،بوڑھی ماں کےلئے اس اکلوتے بیٹے  میں نہ جانے کتنے الگ الگ رنگ وبو کے لالہ وگلاب سجے تھے!
نہ جانے خوابوں کے کتنے محل اس میں تعمیر تھے!
امیدوں اور ارمانوں کی کتنی وسیع دنیا آبادتھی!
نہ جانے عشق ومحبت کے کتنے چشمے پھوٹنے تھے!
نہ جانے کتنی چٹکتی کلیوں کا ٹھکانہ بننا اور کتنے چہچہاتے پرندوں کے آشیانے بسنے تھے!
اور نہ جانے کیا کیا؟اور کیسے کیسے ؟!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
بوڑھی ہاجرہ کو  اپنی اس جنت کو دیکھ کر جو تسکین ملتی تھی سچ ہے کہ ہم اسے لفظوں کے پیرایہ بیان میں ادا نہیں کرسکتے،
 کہا گیا کہ دلی کے  چاندنی چوک میں  اس جنت کو آگ لگ گئی،نہیں غلط سمجھا گیا !!  آگ لگائی گئی،اور دم زدن میں بوڑھی ہاجرہ کی جنت اجڑ گئی،ہزار خوابوں اور ارمانوں کے سارے محل چکنا چور ہوگئے،امیدوں کی  پوری دنیا ویران ہوگئی_____________________
آج ایک بڑا ہجوم بوڑھی ہاجرہ کے گھر ہے،اس کےپاس اعزہ ,واقارب, اور رشتہ دار، جمع ہیں،محلہ بھر کی خواتین ان کےلئے سامان تسلی فراہم کرنے کی ناکام کوشش کررہی ہیں،ان سب کے باوجودوہ تنہا ھے،

ماضی کے دریچوں میں بہت دور تک نہ چاہ کر بھی اور بےساختہ اڑی جارہی ھے،جہاں بوڑھی ماں ہاجرہ کے سامنے ایک کھلی کتاب ہے_______________ وہ کہ رھی ھے !چلو اے دنیا والو چھوڑ دو مجھے!اب مجھے اسی کتاب میں ڈوب جانے دو
_______دنیا والو اب بس مجھے وہیں رہنے دو!
اور پھر تمہاری اس دنیا میں میرے حصہ کا بچا ہی کیا ہے؟
سوائے رنج والم کے اور سوائے ڈستی ہوئی قید تنہائی کے!!!!!
ارے کس ظالم نے ابھی دلی کانام لیا؟
یہ نام ہی میرے زخم کریدنے کو کافی ہے،یہ نام سن کر ہی میرے جوش جنوں کو پر لگ جاتے ہیں، اور میں ایک آواز دیتی ہوں کہ:
جانے کس دیوانے نے "دل والوں کی دلی"کہا تھا،میراتودل کرتاہے اس جملے کی ایک تختی بناکر اسی کی قبر میں لے جاکر دفن کردوں،، اور اسے خبر کردوں کہ اب دل والوں کی دلّی نہیں ہے،گھروں کے چراغ غل کرنے والوں کی دلی ہے،ماؤں سے ان کے لخت جگر چھیننے والوں کی دلی ہے،دوشیزاؤں کی عزت تار تار کرنے والوں کی دلی ہے،محلوں اور بنگلوں میں رہنے والے جانوروں کی دلی ہے،لگزری گاڑیوں میں دندناتے پھرتے ڈیجیٹل بھیڑیوں کی دلی ہے،اس دلی نے نہ جانے کتنی نربھیاؤں کی عزتوں کے بٹے لگائے؟ نہ جانے کتنے نجیبوں کو ہضم کرکے ایسا پانی پیا کہ ڈکار تک نہ لی؟یہ تو صرف وہ بَس والی "نربھیا"،وہ جے این یو کا "نجیب" اور اس طرح کے دوچار اور واقعات تو کسی غلطی سے چرچے میں آگئے ورنہ آج کی دلی میں ہر روز ایک بڑی تعداد اپنی زندگی سے ہاتھ دھورہی ہے۔
اسی دلی نے مجھ سے میرا لخت جگر بھی چھینا ہے،ظالموں نے میرے اس لخت جگر کو جب مسلنا چاہا ہوگا،اس پر ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کئے ہوں گے،اس نے کیا کیا سوچا ہوگا؟لاچاری میں اس نے میرا نام بھی لیا ہوگا،کس دردوکرب اور بے چارگی سے مجھے اماں اماں کرکے پکارا ہوگا؟گھر بار سے دور رہنے کے غم نے اسے کس کس طرح ڈسا ہوگا؟مگر بھیڑیوں نے کچھ بھی رحم نہ کھایا____________________
بس یہی سوچ کر آنسؤوں کا ایک نہ تھمنے والا وہ سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جن کو اگر صحیح سمت اور رخ دے دیاجائے تو روئے زمین پر ایک نیا دریائے غم رواں ہوسکتا ہے،اور ان آنسؤوں کی اگر سچ میں لاج رکھ لی جائے اور ان کو کسی اور چشمے سے نہ دیکھے بغیر، صرف ایک بلکتی ماں کا،انسانیت کا آنسو سمجھا جائے تو مجھے یقین ہے کہ میرے ملک میں جو جمنا الگ اور گنگا الگ بہنے لگی ہے ان کے ملاپ کا کام بھی ان آنسؤوں سے لیاجاسکتاہے،لیکن رونا تو اسی بات کا ہے کہ میرے ان اشکوں کے سیلاب کو انصاف کی عدالت اور اس کی چوکھٹ تک پہونچنے سے پہلے ہی گندی سیاست کی بھٹیوں میں جھونک جھونک کر انہیں سلگا سلگا کر یوں خشک کردیا جائے گا کہ ان کے نشانات تک بھی باقی نہ رہیں گے،آخر اسی کا تو حصہ ہے کہ ہماری قومی میڈیا کو "راہل گاندھی"نے کیا اوڑھا کیا پہنا؟ کہاں اٹھے اور کہاں بیٹھے؟ وزیر اعظم نے کب مسکرایا اور کب ہنسا؟ کب وہ سوئے کب جاگے کب خراٹے لیا اور کیوں؟ ان سب بے بنیاد اور فرضی مدوں پر تو بحث کرنے کے لئے کئی کئی گھنٹے بھی کم پڑجاتے ہیں،لیکن میرے،اور مجھ جیسی بےشمار ملک کی ماؤں کے لئے کہ جنہوں نے اپنے لال کھوئے ہیں،انصاف کی گہار لگانے اور ان کی آواز اٹھانے کے لئے پانچ منٹ کا وقت بھی ان کے پاس نہیں ہے،خیر میرے ساتھ جو ہونا تھا وہ ہوچکا،لیکن کیا اب انصاف مجھے مل پائےگا یہ ایک الگ اور مستقل سوال ہے جس کا جواب کچھ آسان نہیں۔
لیکن پھر بھی ابھی بہت سی ایسی مائیں ہیں جن کے معصوم پرندوں کی تاک میں دلی اور ملک کے مختلف گوشوں میں پھیلے درندے ہوں گے جن کے لئے میں اپنے خون کے آنسؤوں سے یہ بات لکھ کر جملہ ختم کروں گی کہ: "میری جنت کو جس نے اجاڑا وہ کوئی ہندو یا خاص مذہب نہیں بلکہ میرے ملک کی صرف اور صرف گندی سیاست ہے"۔
اس لئے ملک کی سیدھی عوام اورمفکرین وسیاسی مبصرین سے میری بس اتنی اپیل ہے کہ ہمارے اس ملک میں سیاست جس رخ پر چل پڑی ہے وہاں سے اس کو ہٹانے کی کوئی راہ نکالی جائے ورنہ وہ دن دور نہیں جب پورے ملک میں اس سے بھی بڑے پیمانے پر جنگل راج ہوگا،انسان انسان کو ویسے ہی کھائے گا جس طرح شیر اور بھیڑئے دیگر چھوٹے جانوروں کو کھاتے ہیں۔