اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: مسلمانوں کے جان، مال و آبرو کی حفاظت ہر مسلمان پر فرض ہے: نظرعالم قومی صدر آل انڈیا بیداری کارواں

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday 24 July 2019

مسلمانوں کے جان، مال و آبرو کی حفاظت ہر مسلمان پر فرض ہے: نظرعالم قومی صدر آل انڈیا بیداری کارواں

محمد سالم آزاد
_____________
مدھوبنی(آئی این اے نیوز24/جولائی2019) یہ کیسا ملک ہے جہاں سبھی اندھے ہی اندھے ہیں۔ مذہبی اعتبار سے کچھ رسموں کو چھوڑ دیں تو سبھی ایک جماعت ہیں، کیا ہندو، کیا مسلم، کیا عیسائی، کیا سکھ، کیا بودھ، کیا دیگر مذاہب۔ سبھوں میں ایک چیز عام ہے جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی قوم نہیں کرسکتی اوروہ ہے ”بددماغی“ ہندو اور بودھ کے ماننے والے ’اہنسا‘ پر یقین رکھتے ہیں مگر ملک کی صورت حال کچھ اور بیاں کرتی ہے، عیسائی سبھوں کو آلِ خدا مانتے ہیں پر دنیا کی تاریخ کچھ الگ ہی کہتی ہے۔ مسلمان خاص طور پر مسلمانانِ ہندکہتے ہیں، ہم ملک کے آئین کو مانتے ہیں۔پھر بھی گائے، بیل، بھینس کھاتے ہیں، حد تو تب ہوتی ہے جب یہ لوگ قربانی بھی اِن جانوروں کی کرجاتے ہیں۔ علماء کی زبان ہند میں یہ ہے کہ ”مسلمان آئین ہند پر بھروسہ کرتے ہیں، انہیں مانتے ہیں اور ’حب الوطنی‘ چوں کہ ہمارا مذہب ہی تعلیم دیتا ہے اس لئے ہم میں حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔“
ہم اپنے ناقص علم کے باوجود یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ علمائے ہند درست فرماتے ہیں، وہ عمل کے لحاظ سے جیسے بھی ہوں تقریر اور تحریر میں غلط بیانی کر ہی نہیں سکتے۔ تو پھر آخر ایسا کیا ہے؟ کیوں ہے؟ کے ان علماء کی زبانیں بے اثر ہیں۔ انہوں نے اپنی اہمیت کھودی ہے۔ اس کی وجہ ہم بتاتے ہیں وہ یہ ہے کہ انہوں نے مصلحت پسندی سے کام لینا شروع کردیا ہے۔ یہ بولتے تو ہیں مگر کھل کر نہیں بولتے، یہ لکھتے تو ہیں مگر جھول کے ساتھ۔ علماء یہ کیوں نہیں کہتے کہ ہند کا آئین اگر ہمیں گائے، بیل، بھینس کھانے کی اجازت نہیں دیتا تو ہم انہیں نہ کھائیں۔ قربانی ان جانوروں کی نہ کریں، متبادل ہے اس کا، مسلمانان ہند متبادل کی طرف توجہ مرکوز کریں۔ چھوڑ دیں ان جانوروں کو، اسے چھوڑنے سے کون سا ایمان پر حرف آجائے گا۔ پر علماء ایسا نہیں کہتے، نہیں لکھتے، فتویٰ بھی نہیں دیتے۔ انہیں ثانیہ مرزا اسکرٹ میں تو دکھ جاتی ہے مگر معصوم روز ان جانوروں کی وجہ سے چوک چوراہوں پر مار دئیے جارہے ہیں وہ نہیں دکھائی پڑتے۔ کیوں نہیں دکھائی پڑتے تو اس کا جواب شاید صرف اور صرف یہ ہے کہ اگر علماء انہیں دیکھنے لگیں تو شاید ان کی دُکانداری بند ہوجائے گی۔کئی صدیوں پہلے شیخ شرف الدین یحییٰ منیریؒ نے کہا تھا کہ اب علمائے حق ختم ہوچکے ہیں ان کی جگہ علمائے دنیا نے لے لی ہے۔ حیف صد حیف کہ ہم اب بھی نہیں بدلے۔
آل انڈیا مسلم بیداری کارواں کے منچ سے میں مسلمانانِ ہند کو احمدفرازؔ کی زبان میں یہ کہنا چاہوں گا:
وہ جو قاتل تھے وہ عیسیٰ نفسی بیچتے ہیں
وہ جو مجرم ہیں انہیں اہل عدالت دیکھوں
وہ جو بے ظرف تھے اب صاحب میخانہ ہوئے
اب بمشکل کوئی دستار سلامت دیکھوں
گردنیں ٹوٹی ہوئیں، سر ہیں خمیدہ جن کے
ان کو سرگشتہ پندار امامت دیکھوں
جانے کب دشنہ کو پیوست رگِ جاں کردیں
ہر گھڑی میں جنہیں مصروفِ عبادت دیکھوں
آپ علماء پر بھروسہ کیجئے، یقین کیجئے، دعائیں لیجئے، مگر ایمان مت لائیے۔تحقیق کا دروازہ ہمیشہ کھول کر رکھئے۔ آپ نے کون سا ان جانوروں کو پال رکھا ہے جو مجبوری ہے، کھانے، بیچنے اور قربانی کرنے کی۔ آپ چھوڑ دیجئے ان جانوروں کو،خدا کے لئے، خوف کھائیے خدا سے، آپ کی وجہ سے بے قصور نوجوان، بوڑھے، بچے مسلمانوں کی جان جارہی ہے، آپ اپنے دماغ پر زور دیجئے اور سوچئے کہ کل خدا کے حضور آپ کو پیش ہونا ہے، کیا جواب دیں گے، جب یہ سوال ہوگا کہ آپ نے اپنے مسلمان بھائیوں کے جان و مال اور آبرو کی کتنی حفاظت کی؟ ہم علماء سے بھی کہنا چاہیں گے کچھ پل کے لئے خدا کے ہوجائیے اور ہر منبرومحراب سے یہ حکم فرمادیجئے کہ ان جانووروں کو کھانا، خریدنا، بیچنا، قربانی کرنا اس ملک میں قطعی درست نہیں ہے۔ شاید یہی ہمارے کردہ گناہوں کا معصوموں کو ماب لنچنگ میں قتل کروانے کا کفارہ ہوگا۔