اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: تین طلاق کا خاتمہ/ یا ماب لنچنگ پر قانون ضروری؟

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday 27 July 2019

تین طلاق کا خاتمہ/ یا ماب لنچنگ پر قانون ضروری؟

از : محمد عظیم فیض آبادی دارالعلوم النصرہ دیوبند
     9358163428
______________
ملک عزیز اس وقت جن بھیانک حالات سے دوچار ہے یہ کسی بھی دردمند انسان سے مخفی نہیں ماب لنچنگ (ہجومی تشدد) کا شکار ہوکر نہ جانے کتنے نوجوان دنیا سے رخصت ہو چکے ،کتنی عورتیں بیوہ اور نہ جانے کتنی مائیں بے سہارا ہوچکیں ہیں ، کتنے بچے یتیم اور بے سہارا ہوگئے کسمرسی کے شکار ہیں                                اس کی فکر کون کرے گا؟
   ان کے حقوق کی آواز کب بلند ہوگی؟
   پارلیمنٹ وراجیہ سبھا،  ان کے ممبران ، اورحکمراں جماعت ان کی باز آبادکاری ،
ان کے حقوق کی ادائیگی اوراس جرم کا ارتکاب کرنے والے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے کب قانون وضع کرے گی کچھ پتا نہیں، ابھی تو مودی جی اور حکمراں جماعت کو صرف ان طلاق شدہ مسلم خواتین کے حقوق اور ان کے آزادی کی فکر دامن گیر ہے جن کی تعداد مسلمانوں میں بہت قلیل ہے
   اسے کے مقابلے میں غیر مسلموں میں طلاق شدہ خواتین ،مودی جی کی طرح بے طلاق چھوڑی ہوئی،  اسی طرح زندہ جلانے وزدوکوب کئے جانے والی عورتوں کی تعداد بے شمار ہے معلوم نہیں مودی جی اور حکمراں جماعت کو ان کی فکر کیوں نہیں ہے؟
  ان کے حقوق کی ادائیگی اور انھیں ظلم سے نجات دلانے کے لئے پارلیمنٹ کب بیدار ہوگی ؟
   ان کو جہیز کی خاطر ودیگر طرح ظلم کاشکار بنانے والےمردوں کو تین سال جیل کی سزادلانے کے لئے کب قانون بنایا جائے گا ؟
   پتہ نہیں مودی جی کوان مسلم بیوہ عورتوں،  بے سہارا ماؤں اور بہنوں کی فکر کب ہوگی جن کے شوہر، بیٹے اوربھائی کو بھیڑنے مارڈالا ان کے حقوق اور ان کی آزادی کی فکر کیوں نہیں ہے؟
   آخر یہ بھی تو مسلم خواتین ہیں پتہ نہیں کیا وجہ ہے ان مسلم عورتوں کو طلاق دینے والے تو مجرم ہیں اور ایسے مجرم کہ ان کے لئے قانون بنانے کی سخت ضرورت ہے لیکن مسلم خواتین کے بے گناہ بیٹے کو قتل کرکے بے سہارا بنانے والے ،مسلم عورتوں کے شوہروں کو مار کر انھیں بیوہ بنانے والے ظالم درندے ،معصوم بچےبچیوں کے باپ کومارکرانھیں یتیم و بےسہارا کردینے والے حیوان نما انسان مجرم کیوں نہیں ہیں؟
  اور ان خواتین و بچوں کو ان کے حقوق دلانے کے لئے قانون بنانے کی ضرورت کیوں نہیں ہے؟
   اور پھر ان بھگوا دہشتگردوں کی پشت پناہی کرنے والے، ان کو اکسانے والے، ان مجرموں کے مقدمات کی پیروی کرنے والے ان کو ہار پہناکر ان کا استقبال کرنے والے، ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے مجرم کیوں نہیں ہیں؟  اور ان کے لئے سخت قانون کیوں نہیں؟  ان سب کو دہشتگردی کے زمرے میں کیوں شمار نہیں کیاجاتا ؟
  کیا صرف اس لئے کہ وہ آریس یس اور اس کی ذیلی تنظیموں سے وابسطہ لوگ ہیں
  کیا یہ بھگوا دہشت گردی نہیں ہے
  ہجومی تشدد، ماب لنچگ  ہندستان کے لئے ایک ناسور بنتا جارہاہےاور صوبائی ومرکزی حکومتوں ابھی تک کوئی ٹھوس قدم اٹھانے اورسخت  کارئی کرنے میں ناکام ہیں اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں اور دیگر اقلتیوں کے جان ومال، عزت وآبرو کی حفاظت کی ذمہ دارنہ ہی صوبائی حکومتیں ہیں اور نہ ہی مرکزی حکومت ،
 اس لئے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو اپنے جان مال عزت آبرو کی تدابیروحفاظت کا بندوبست اب خود کرنا پڑے گا اگریہی مطلب ہے اور حکومت کی طرف سے اسی طرح سرد مہری جاری رہی اور ملک کی دیگر اقلیتں  بھی تنگ آکر مقابلے پر آمادہ ہوگئیں تو پھر ملک ایک بھیانک جوالہ مکھی بی جائے اور ملک کا امن وامان غارت ہوجائے گا ، ملک میں ایک ایسی نفرت کی آگ پھیلے گی کہ پھر اس کی بہالی دشوار ہوجائے گی اس لئے حکومت سے درخواست ہے کہ ملک کی سالمیت اسکی گنگا جمنی تہذیب کی حفاظت کی خاطر کسی  رو رعایت کے بغیرقانون وضع کرکے اور اس طرح کے ہجومی تشدد میں درندگی کا مظاہرہ کرنے والوں پر قدغن لگائے اور اقلیتوں کو خوب ہراس نکال کر اعتماد کی فضا ہموار کرے اور ملک میں نفرتوں اور فتنہ فساد کو فروغ دے کراپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کے بجائے اتحاد ویکجہتی، امن وآشتی اور آپسی بھائی چارے کاماحول، قائم کرے جوہندوستان کی شناخت و پہچان ہے اسی یگانگت ویکجہتی اور گنگا جمنی تہذیب نے ملک کو سونے کی چڑیا بنایاتھا اور آج بھی اسی میں توقی کاراز مضمر ہے