اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: کیا ہم خدا کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتے ہیں، انظر الاسلام بن شبیر احمد

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday 30 October 2019

کیا ہم خدا کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتے ہیں، انظر الاسلام بن شبیر احمد

*کیا ہم خدا کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتے ہیں*

*(ذٰلک لمن خاف مقامی وخاف وعید)*

✍انظرالاسلام بن شبیراحمد

 *اس وقت ملک بھر میں گومگو کی کیفیت ہے، ہر پل ہر شخص مستقبل کو لے کر پریشان ہے، مگر بطور خاص یہ کیفیت ان لوگوں کی ہے جن کو لاخوف علیہم ولا ہم یحزنون کی صفت سے متصف ہونا تھا، جن کے لیے أنتم الأعلون کی بشارت تھی، جن کو  وأن الارض یرثہا عبادی الصالحون کا مزدۂ جانفزا سنایا گیا تھا، وہی دراصل اس کیفیت میں مبتلا ہیں، ان کی حالت یہ ہے کہ وہ ہر صبح کو سوچتے ہیں کہ جانے شام تک کیا ہوگا اور ہر شام کو سوتے وقت سوچتے ہیں کہ صبح اٹھتے ہی جانے کون سی خبر سننے کو ملے گی۔*
 ملک کے حکمراں طبقہ نے جو رخ اختیار کیا ہے اس سے یہ بالکل صاف ہوگیا ہے کہ اگر وہ اپنے عزائم کو نافذ کرنے میں مکمل کامیاب ہوگیا تو سب سے زیادہ پریشانیاں اس ملک کے مسلمانوں کو جھیلنی ہوں گی (لا قدر اللہ) اگرچہ دوسروں کو بھی جھیلنی پڑیں گی مگر ابھی بظاہر نہیں، البتہ اگر حکمراں طبقہ کو یہ کامیابی نہ ملی تو پھر ملک کو بڑے فسادات کی آگ میں جھونکا جائے گا اور اس کی زد میں بھی ہم ہی آئیں گے، وزیر داخلہ نے کلکتہ کے ایک اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بہت صاف طور پر کہا کہ ہم پورے ملک میں NRC نافذ کریں گے مگر اس سے پہلے CAB یعنی (Citizenship Amendment Bill) لائیں گے، اس بل کے تحت ہم تمام ہندوئوں، بودھ، جین، عیسائی وغیرہ کو جن کے پاس شہریت کا ایک بھی دستاویزی ثبوت نہیں ہے انھیں شہریت دے دیں گے، اس لیے کسی بھی ہندو اور ان سے جڑی ہوئی دیگر اقلیتوں کو ڈرنے کی اور دستاویز بنوانے کے لیے لائن لگانے کی ضرورت نہیں ہے، وزیر داخلہ کا یہ بیان دستور کی دفعہ ۱۴-۱۵ کے خلاف تھا، مگر وہ یہیں پر رکے نہیں کل میں نے ایک چینل پر ان کا انٹرویو سنا، انھوں نے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے بہت زور دے کر تین چار بار یہی بات کہی اور ایک بار بھی ’’مسلمان‘‘ کا لفظ منہ سے نہیں نکلا اور قابل رحم الیکٹرانک میڈیا کے اینکر نے ایک بار بھی اس بابت سوال نہ کیا کہ آپ مسلمانوں کا نام کیوں نہیں لے رہے ہیں، اس ویڈیو کو سننے کے بعد اور اس سے پہلے کے تمام بیانات کی روشنی میں میرے تاثرات یہ ہیں کہ NRC کے ذریعہ بی جے پی کے کچھ مقاصد ہیں، *ایک مقصد* تو بنگال کی کامیاب ترین حکومت اور آہتی لیڈر ممتا بنرجی کو ہٹا کر بنگال پر بھی قبضہ کرنا ہے، وزیر داخلہ نے صاف کہا کہ ہم تو CAB لا کر وہ کام کرنے جا رہے ہیں جو آزادی کے بعد سے اب تک نہیں ہوا، جن کو اب تک شہریت نہیں ملی ان کو ہم شہریت دیں گے، اب ممتا جی بتائیں کیا وہ اس کی مخالفت کریں گی کہ بنگالی ہندوئوں، بدھوں وغیرہ کو شہریت نہ ملے، اس طرح انھوں نے دو طرفہ ممتاجی کو گھیر لیا، وہ اگر مخالفت کرتی ہیں تو ہندو مخالف اور مسلم نوازی کا الزام اپنے سر لیں اور نقصان اٹھائیں، اگر موافقت کرتی ہیں تو ان کا سیاسی موقف Political Stand کمزور پڑتا ہے اور وہ مسلم مخالف بھی قرار پاتی ہیں، اس ایک بیان سے وزیر داخلہ نے ممتا کی سیاست کو فرقہ واریت کے جال میں گھیر دیا ہے۔
 بی جے پی کا *دوسرا مقصد* NRC کے ذریعہ آئندہ ایک طویل مدت کے لیے ہندوئوں کا اعتماد حاصل کرنا ہے، کہ دیکھو ہم اس ملک کو رفتہ رفتہ گھس پیٹھیوں سے پاک کر رہے ہیں، بالفاظ دیگر مسلمانوں کو یہاں سے نکالنے کی پوری کوشش کر کے ہندو راشٹر کے قیام کی کوشش کر رہے ہیں، اس کے لیے وہ مختلف شہروں میں آباد جھونپڑیوں میں رہنے والے، کوڑا چننے والے، رکشہ چلانے والے لوگوں کو ٹارگیٹ کرے گی اور ان کے ساتھ کچھ ڈاڑھی ٹوپی والوں کو بھی شامل کرے گی اور انھیں حراستی مراکز میں رکھے گی، نہیں کہا جا سکتا کہ اپنے اس سیاسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے وہ کتنے لاکھ یا کروڑ دو کروڑ پر اکتفا کرے گی، مگر یہ کرکے وہ آئندہ دو تین دہائیوں کے لیے ہندوئوں کا اعتماد حاصل کرلے گی۔
 *تیسرا مقصد* NRC کا بی جے پی کو اپنا مسلم مخالف چہرا ہندوئوں کے سامنے واضح کرنا ہے، لیکن عالمی سطح پر شبیہ گندی نہ ہو اس کے لیے وہ مسلمانوں کو استعمال بھی کرے گی، اور ایسے تمام لوگوں کو استعمال کرے گی جنھیں پھنسانے اور سماج کے سامنے بدنام کرنے کے ذرائع وہ ڈھونڈ لکالنے میں کامیاب ہوگی، اس طرح وہ دوطرفہ کھیل کھیلنے میں کامیاب رہے گی۔
 NRC پر اس قدر تند و تیز بیان بازی کا مقصد حکومت کی ناکام پالیسیوں پر پردہ ڈالنا ہے، ملک اس وقت بدترین مالی بحران (Financial Crisis) سے گذر رہا ہے، مہنگائی، بے روزگاری اور ُرکی ہوئی تنخواہیں یا تاخیر سے تقسیم ہونے والی تنخواہیں یہ بتاتی ہیں کہ غیر علانیہ مالی بحران سے بھارت سے دوچار ہے، بلکہ بعض لوگوں کے مطابق (Financial Emergency)لاگو ہوچکی ہے، رِزرْو بینک کا خزانہ حکومت خالی کرچکی ہے، سونا گروی رکھ چکی ہے، رزرو بینک کے بی جے پی نواز گورنر تک استعفیٰ دینے پر مجبور ہوئے ہیں، NRC کے پردہ میں کسی دن آپ FRDI کے نافذ ہونے کا اعلان سنیں گے، کیونکہ حکومت کے پاس اس کے علاوہ اب کوئی چارہ نہیں کہ وہ پبلک کا بینکوں میں جمع پیسہ استعمال کرے، اس کی جانب پیش قدمی جاری ہے اور بعض بینکوں پر کار روائیوں سے واضح اشارے مل چکے ہیں، اس قانون کا مطلب ہے کہ بینک میں جمع ااپ کی رقم کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کو آن لائن خرید فروخت پر مجبور کر دیا جائے، یا تھوڑی بہت رقم نکالنے پر محدود کردیا جائے یا آپ کی رقم شیئر میں تبدیل کردی جائے، یعنی خلاصہ یہ کہ آپ کے پاس پیسہ ہوتے ہوئے بھی آپ بغیر پیسے کے ہوجائیں، یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ایک رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک کے بینکوں میں غالباً 1.5 ملین روپیہ ان مسلمانوں کے سود کا جمع ہے جنھوں نے اسے انٹرسٹ سمجھ کر نکالا نہیں، ان بے چاروں کو کون سمجھائے کہ یہ پیسہ تمہارے خلاف استعمال ہو اس سے بہتر ہے کہ اسے نکال کر فقراء و مساکین اور ضرورت مندوں کو بغیر کسی ثواب کی نیت کے دے دیا جائے، یا فقہاء کی صراحتیں معلوم کر کے اور دیگر امور میں خرچ کر دیا جائے، مسئلہ کشمیر پر بھی حکومت بری طرح پھنسی ہوئی ہے، کشمیر اپنی تاریخ کے بدترین انسانی بحران سے گذر رہا ہے، خدا معلوم کہ آئندہ وہاں کیا ہونے والا ہے، اسی درمیان رام مندر کی تعمیر بھی ہونی ہے اور اس پر فیصلہ آنا ہے، رام مندر کی تعمیر ایک بڑے سیاسی سہارے کو ختم کردے گی، اس سے پہلے کسی دوسرےایسے سیاسی سہارے کی ضرورت تھی جو سوتے جاگتے بھوت کی طرح سر پر سوار رہے، یہ سب وہ مقاصد ہیں جو این آر سی کے ذریعہ پورے کیے جا رہے ہیں یا پورے کیے جائیں گے، بی جے پی رام مندر کی تعمیر کا وعدہ اسی مدت کار میں پورا کرے گی، اور ایفائے عہد کا انعام پائے گی، پھر این آر سی کے سہارے بھی اصل مسائل سے بھٹکا کر آئندہ گرما گرم سیاسی ماحول قائم رکھے گی۔
 این آر سی کتنی آسان ہے اور کتنی مشکل، اس کا اندازہ کرنے کے لیے یہ سمجھیے کہ آسام میں اس عمل کے پورا ہونے میں چار سال لگے اور ۱۶؍ سو کروڑ روپیہ خرچ ہوا اور آج بھی بات وہیں کی وہیں اٹکی ہے، جب مسلمانوں سے زیادہ ہندو غیر ہندوستانی قرار پائے تو اب CAB بل کا سہارا لیا جائے گا، جو لوگ فہرست میں نہ آسکے ان کے پاس پہلا موقع یہ ہے کہ وہ ٹربیونل کے سامنے اپنی شہریت ثابت کریں، پھر بات نہ بنے تو وہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک جاسکتے ہیں، اس پورے عمل (Process) میں تین چار سال تو مزید لگیں گے، البتہ ان پریشان حال لوگوں کے ساتھ ہر شخص تعمیری کاموں سے ہٹ کر NRC کے بارے میں سوچنے میں مصروف رہے گا، مجھے پورا یقین ہے کہ بی جے پی اس عمل کو کرے گی مگر بہت طول دے گی، ابھی نہیں کرے گی، البتہ یہ عمل وہ غیر علانیہ اور غیر قانونی طور پر انجام دے گی اور سیاسی فضا ہموار کرتی رہے گی، جیسے کہ یوپی حکومت نے پولیس کپتانوں کو حکم نامہ جاری کردیا ہے اور بعض اضلاع کی جھونپڑ پٹی بستیوں میں دہشت پھیلانے کا کام شروع بھی ہوگیا ہے، شہریت کے بنیادی دستور میں یعنی بنیادی ڈھانچہ کو بی جے پی تمام تر اکثریت کے باوجود نہیں تبدیل کرسکتی، یہ تبھی ممکن ہے جب وہ آئین ہند کو ہی کالعدم قرار دے دے اور منوسمرتی کا قانون نافذ کردے جس کے متعلق اس کے لوگ اظہار خیال کرتے رہتے ہیں، ساتھ ہی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ کام پورے ملک میں کرنا اس قدر آسان بھی نہیں ہے، مگر جب کسی چیز کو سیاسی مسئلہ Political Issue بنا لیا جائے تو پریشان کرنے کے لیے وہ بہت آسان بھی ہو جاتا ہے خواہ نتیجہ صفر ہی نکلے، افسوس کی بات یہ ہے کہ بی جے پی اس کو Issue بنانے میں کامیاب ہوگئی، کیونکہ اس کو روز اول سے مسلمانوں نے اپنا مسئلہ بنا لیا تا آنکہ وزیر داخلہ نے واضح کردیا کہ یہ واقعی  مسلمانوں کا ہی مسئلہ ہے، اور اب بی
جےپی کی پوری سیاست NRC کے شور پر چل رہی ہے ۔
 میں روز اول سے لکھتا رہا ہوں کہ محض دفاعی پالیسیاں قوموں کو زندہ رکھنے کی ضمانت نہیں دیتیں، جمہوریت میں جب ہر بات پر سر تسلیم خم کی پالیسی اپنا لی جائے تو جمہوریت ڈکٹیٹرشپ میں تبدیل ہوجاتی ہے، اس NRC  یا  FRDI وغیرہ جیسے قانون کو نیشنلزم وہ بھی جھوٹے اور فریبی نیشنلزم کی علامت Symbol of Nationalism نہیں بننے دینا چاہیے، اس پر الجھن کا شکار ہونے، ڈرنے اور جھکنے و دفاع کرنے کے بجائے بائیکاٹ و احتجاج کی پالیسی اپنانی چاہیے، وزیر داخلہ کے بیان پر میزورم اور ناگالینڈ جیسی ریاستوں میں سخت احتجاج ہوا جہاں مسلمان نہ کے برابر ہیں، ضرورت تھی کہ ان سے رابطہ کیا جاتا اور ایسے لوگوں کو ساتھ ملا کر ملک گیر احتجاج کی تیاری کی جاتی، ایسا نہیں کہ اس ملک میں انصاف بالکل مر چکا اور انصاف پسند بالکل ناپید ہوچکے، ابھی ۴۹؍ دانشوروں نے وزیر اعظم کے نام کھلا خط لکھا تو ان کے خلاف ملک سے غداری کا مقدمہ درج ہوگیا، لیکن بات یہیں تھمی نہیں پھر ان کی حمایت میں سینکڑوں دانشور و فنکار و اداکار آگئے، جبکہ ہمارے درمیان بہت سے لوگوں کو اس کی خبر تک نہ ہوگی، یہی دراصل اس وقت کرنے کا کام ہے، اس وقت ڈرنے، جھکنے اور دبنے کے بجائے قانونی اور دستوری لڑائی لڑنے کی ضرورت ہے، جس طرح سے لوگ سجدہ ریز ہو رہے ہیں اور *فریبی دیش بھکتی* کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں، خدا معلوم کیوں ملا رہے ہیں، وجہ جو بھی ہو مگر یہ انتہائی خطرناک عمل ہے، اس کی تقلید کے بجائے کھڑے ہونے اور مورچہ سنبھالنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ایک بار اگر حوصلے پست ہوگئے، قوم میں خوف سرایت کرگیا اور ہمتیں ٹوٹ گئیں تو یقین جائیے آئندہ کئی نسلیں غلام بن کر رہیں گی، *بلکہ خوف کی وجہ سے (خدا نہ کرے) ارتداد کی وہ لہر چلے گی جس کے متعلق سوچ کر بھی روح کانپ جاتی ہے،* اس لیے ضرورت ہے کہ اس وقت ایسے لوگوں سے رابطے کیے جائیں، ان کے ساتھ مستقبل کا طاقتور پروگرام بنایا جائے اور جب تک دستور ہند زندہ و سلامت ہے تب تک اس کی بقا کے لیے جبر و استبداد کا مقابلہ کیا جائے۔
 خوب یاد رکھیے کہ *دعا و اذکار اور وظائف کی اپنی تاثیر مسلّم ہے، مگر قانون الٰہی میں دعائوں کی قبولیت کا انحصار عمل اور جدوجہد پر ہے، قرآن مجید اور سیرت نبوی یہی سبق سکھاتی ہے، نصرت الٰہی کی بشارتیں ہیں مگر کن لوگوں کے لیے؟ جو اہل ایمان ہیں اور عمل صالح کے خوگر ہیں* والعصر إن الانسان لفی خسر إلا الذین اٰمنوا وعملوا الصٰلحات، تائید غیبی ان کے لیے ہے جو اللہ کے سامنے جوابدہی کے احساس سے کانپتے ہوں، جو خدا کی وعیدوں سے ڈر کر عمل صالح پر آمادہ ہوتے ہوں اور منکرات سے بچتے ہوں ان کے لیے خدا کی نصرت تیار ہے، *مگر ہماری اور ہمارے عوام و خواص کی بے پروا زندگی دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ ہمیں بھی خدا کے سامنے کھڑے ہونے کا احساس ہے، ہم بھی حساب و کتاب سے ڈرتے ہیں، اب تو صورت حال یہ ہے کہ ہم گھٹیا خواہشات اور گندی سیاست، حسد، کینہ، غیبت، سازشیں رچنا، تنقیص و تذلیل، کذب بیانی، کذب کو نقل کرنا، دروغ گوئی، ایک دوسرے کو زک پہنچانے اور نیچا دکھانے کو گناہ سمجھتے ہی نہیں، کبھی آپس کے تنازعات کو حل کرنے کی مخلصانہ اور سنجیدہ کوششیں کرتے ہی نہیں، بلکہ سچ یہ ہے کہ ہماری داخلی اور ملی صورت حال کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ ملک کی صورت حال اس قدر دگرگوں ہے، کفر ہماری تذلیل کے لیے واقعی تیار کھڑا ہے، ظلم کی تلوار حقیقت میں لٹک رہی ہے، مگر ہمارے بے جا مباحثے، بے وقت کی شہنشائیاں اور آپسی اختلافات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اس ملک میں ہمارا مستقبل بالکل محفوظ ہے اور گویا ہمیں خارجی کوئی خطرہ لاحق ہی نہیں ہے، یہ وہ صورت حال جسے دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہمارے دلوں سے خدا کے سامنے کھڑے ہونے اور اس کے سامنے جوابدہی کے احساس سے ہم بالکل عاری ہوچکے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ اگر غیروں کو ہمارے انتشار کا صحیح طور پر علم ہوجائے اور پورے طور پر یہ معلوم ہوجائے کہ ایک ایک فرد ہم میں کا دوسرے کے خون کا کس قدر پیاسا ہے اور دوسرے کی تذلیل و تحقیر سے کس قدر خوش ہوتا ہے تو انھیں ہماری تباہی کے لیے زیادہ سامان ہی نہ کرنا پڑے، یہ بھی سچ ہے کہ ان کو ہماری داخلی حالت کا خوب علم ہے تبھی تو وہ دھمکیوں سے کام چلا رہے ہیں اور *’’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘ کا بلند بانگ دعویٰ کرنے والے دھمکیوں سے گھبراتے، ٹوٹتے اور بکھرتے نظر آ رہے ہیں، *حضرت مولانا علی میاںؒ نے فرمایا تھا کہ کسی ملک میں مسلمانوں کی حفاظت کا ذریعہ یہ ہے کہ وہ دین کے لیے جدوجہد کریں اور دین کو اتنا طاقتور بنائیں کہ پھر اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت اپنی طرف سے فرمائے، پھر ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، یہ وہی بات ہے جس کو قرآن نے کہا ہے إن تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم مگر واقعہ یہ ہے کہ آج ہم خود ہی دین کی بنیادیں کھودنے پر لگے ہیں، اس کی دیواریں اٹھانے کے بجائے ڈھانے پر آمادہ ہیں، دین کے پردے میں بے دینی ہے، خود غرضی ہے، تن آسانی و فتنہ سامانی ہے، دین کے نام پر انتشار ہے تو پھر نصرتِ الٰہی کے بجائے عذاب الٰہی کیوں نہ مقدر بنے۔*
            *ملت کو اس وقت اس ملک میں جو صورت حال در پیش ہے وہ تقریباً وہی ہے جو تمام نبیوں اور رسولوں کی تحریکی و دعوتی زندگی میں پیش آئی ہے، وقال الذین کفروا لرسلہم لنخرنکم من ارضنا أو لتعودن فی ملتنا ’’اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ یا تو ہم تمہیں اپنی سرزمین سے نکال دیں گے یا پھر تم کو ہماری ملت میں واپس آنا پڑے گا‘‘،* آج اس ملک میں امت محمدیہ کے افراد سے یہی بات کہی جا رہی ہے کہ یا تو ملک سے نکلنا پڑے گا اور یا پھر گھر واپسی کرنی پڑے گی، اس ملک میں وہی رہے گا جو ہندوستانی ہوگا اور ان کے بقول ہر ہندوستانی ہندو ہے، جو لوگ بھی جھک رہے ہیں اور نرم موقف اختیار کر رہے ہیں انھیں سمجھنا ہوگا کہ صرف نرم موقف اور کچھ دیش بھکتی سے بات نہیں بنے گی، وہ تو گھر واپسی سے کم پر راضی ہی نہیں ہیں، جیسے یہود و نصاریٰ کی بابت فرمایا گیا کہ ولن ترضی عنک الیہود ولاالنصاریٰ حتی تتبع ملتہم، انھیں ضد ہے کہ آپ اپنے ملی تشخص کو چھوڑ کر ان کی ملت میں داخل ہوجائیں، یہی دراصل حقیقی معرکہ ہے، حق و باطل کی کشمکش کا یہی اصل مزاج ہے، جاہلیت کو قطعاً یہ برداشت نہیں کہ مسلمانوں کی اپنی کوئی شناخت ہو، اپنی قیادت ہو، اپنی ریاست ہو، اپنا تشخص ہو اور ان کا اپنا مستقل وجود ہو، کفار نے رسولوں سے صرف اپنی دعوت کو موقوف کردینے کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ مطالبہ یہ کیا کہ وہ ہماری ملت میں ضم ہوجائیں ورنہ ہم انھیں جلا وطن کردیں گے، ظاہر ہے کہ یہ مطالبہ دین حق کے مزاج کے منافی تھا، اسلام کسی ایسے مطالبہ کو کیوں کر قبول کرسکتا ہے، اگر اسے وطن چھوڑنا پڑے تو چھوڑ دے گا، قربانی دینی پڑے تو دے گا، یہ اس مرحلہ کی آیات ہیں جبکہ دعوت اسلامی کے علمبرداروں کے اردگرد قریش مکہ نے اپنے مظالم سے اس قدر گھیرا تنگ کردیا تھا کہ ان کے سامنے ہجرت کے سوا کوئی چارہ نہ تھا، مگر ظاہر ہے کہ نہ اس وقت یہ مطالبہ قبول کیا گیا اور نہ اب کیا جاسکتا ہے، ہماری طاقت کا اصل راز اس مطالبہ کو مسترد کرنے اور پوری قوت سے مسترد کرنے میں ہے، ہماری قوت کا راز مسلمان بن کر اپنے تشخص کے ساتھ جینے میں ہے، ہماری بقاولا یخشون احدا إلا اللّٰہ کا فارمولہ اپنا کر کسی سے نہ ڈرنے اور کسی سے نہ دبنے میں ہے، جب ہم یہ کریں گے تو اسی آیت کے اگلے جملے میں موجود بشارت کے مستحق قرار پائیں گے، ضرورت ہے کہ اس بشارت اور اس کے مستحق قرار پانے کی شرط کی یاددہانی عوام و خواص سب کو کرائی جائے، ارشاد فرمایا گیا *فأوحیٰ إلیہم ربہم لنہلکن الظلمین ’’تو ان کے رب نے ان پر وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں کو ہلاک کردیں گے‘‘ ولنسکننکم الارض من بعدہم ’’اور ان کے بعد تم کو زمین میں بسائیں گے‘‘،* گویا جب بات جلاوطنی تک پہنچی تو اللہ نے اپنے رسولوں کو یہ بشارت دے دی اور رسولوں کے ذریعہ ان کے متبعین و پیروکاروں کو بشارت دے دی کہ ہم ان ظالموں کو نیست و نابود کردیں گے، ان کے وجود سے زمین پاک کردیں گے اور تم کو اس زمین میں بسائیں گے، قیادت و سیادت تم کو سونپی جائے گی، تم اس زمین کے انتظام کو سنبھالو گے، لیکن یہ عظیم بشارت مشروط کردی گئی خوفِ الٰہی اور احساس جوابدہی کے ساتھ، چونکہ رسول کے ذریعہ ان کے پیروکاروں کو بھی بشارت دینا مقصود تھا اس لیے اس آیت کے آخری فقرہ میں انھیں استقامت اور خدا کے سامنے جوابدہی کے احساس کی تنبیہ کی گئی، یوں فرمایا گیا کہ یہ عظیم الشان خوش خبری ان لوگوں کے لیے ہے جو میرے حضور پیشی اور میری وعید سے اس طرح خائف رہے کہ اس کے بالمقابل انھوں نے کسی دھمکی کی پروا نہ کی، کسی سے خائف نہ ہوئے، کوئی مطالبہ قبول نہ کیا، اپنی شان، شناخت اور اپنے تشخصات کے ساتھ دین حق پر جمے رہے، وہ صرف اللہ تعالیٰ کے حضور پیشی سے ڈرے اور اللہ کی وعیدوں سے خائف رہے، *ذلک لمن خاف مقامی و خاف وعید (ابراہیم ۱۳-۱۴)* یہ بشارت ان لوگوں کے لیے ہے جن پر حالات آئیں تو وہ ان کا مقابلہ کریں، ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جائیں مگر وہ صبر کے ساتھ اپنے مشن پر جمے رہیں، آلام و مصائب جھیلتے رہیں مگر اپنے مشن کے ساتھ ڈٹے رہیں، کسی قیمت پر مخالفین کے خوف سے اپنا موقف نہ تبدیل کریں، دشمنوں کے ڈر سے خوف خدا سے غافل نہ ہوں، بلکہ ہمہ وقت اللہ کے سامنے جوابدہی کے احساس سے اپنے کام میں مصروف رہیں۔
             *ضرورت اس کی ہے کہ اپنے داخلی انتشار پر قابو پایا جائے، دوریوں کو قربت میں تبدیل کیا جائے، قریب آنے اور قریب لانے کے بہانے ڈھونڈیں جائیں، آپسی خلفشار کو نظر انداز کیا جائے، بے سود و بے مقصد فقہی موشگافیوں اور کلامی بحثوں سے صرف نظر کیا جائے، بغض و حسد، حرص و ہوس، غیبت و سازشی رویوں سے اپنی تطہیر کی جائے اور پھر ملت کے سامنے نمونۂ عمل پیش کیا جائے، اسے خوف کے بجائے حوصلہ دیا جائے، اسے کسی کے ہاتھوں مار دیے جانے کے خوف کے بجائے خوفِ الٰہی سے آشنا کیا جائے، اسے احساسِ کمتری کے بجائے خیر امت کا سبق پڑھایا جائے، اسے غلامی کا پاٹ پڑھانے کے بجائے دنیا کی امامت کا درس دیا جائے، بے جا مصلحت کے اور بزدلی کے بجائے مکہ مکرمہ کی اقدامی دعوت کا سبق عام کیا جائے، ضرورت ہے کہ حالات کا تجزیہ قرآنی تناظر میں کیا جائے، اصلاحی تحریک کا ڈھانچہ قرآنی ستونوں پر استوار کیا جائے، حالات کا مقابلہ قرآنی ہدایات و بشارتوں کی روشنی میں کیا جائے، ضرورت ہے کہ اپنی روش تبدیل کی جائے، باہمی مشاورت کو فروغ دیا جائے، دوسروں کو اخلاص کی تلقین کے بجائے خود احتسابی کی عادت ڈالی جائے اور خود اپنے قول و عمل کو اخلاص کے معیار پر پرکھا جائے، ضرورت ہے کہ ملت کے داخلی انتشار پر قابو پاکر ملک کے غیر مسلم دانشوروں سے رابطہ کیا جائے، انصاف پسند عوام کو ساتھ لیا جائے اور انھیں ملک کو درپیش مشترکہ خطرات سے آگاہ کیا جائے، ان کو ساتھ لے کر حالات کے مقابلہ کی تیاری کی جائے، *لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب ہمارے اندر سے انانیت نکلے، باہمی تعاون، دوسروں کو اور ان کے کام کو قبول کرنے کی عادت ہو، ہم دوسروں کو قریب کرنے اور قرب سے خوش ہونے کے عادی بن جائیں اور ہمیں اخلاص کے کچھ ذرات نصیب ہوجائیں،* اگر واقعی خلوص کے ساتھ کوششیں کی جائیں تو باہمی تعاون کے فقدان کا شکوہ دور ہوسکتا ہے، اتحاد کی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں، خود غرضی و مفاد پرستی بڑی حد تک ختم ہوسکتی ہے اور زوال کی کہانی مکمل ہونے سے پہلے نئے دور کا آغاز ہوسکتا ہے، اس لیے کہ وعدہ الٰہی ہے کہ اللہ مخلصین کے عمل کو ضائع نہیں کرتا إن اللہ لا یضیع اجر المحسنین۔