اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: یہ کوئی دستور ہے، مفتی توقیر بدر آزاد قاسمی

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday 31 October 2019

یہ کوئی دستور ہے، مفتی توقیر بدر آزاد قاسمی

*یہ کویی دستور نہیں*

_*ت بدر آزاد*_ *

*ہم اور ہمارا سماج*:

راقم کو آج جس نکتے پر بات کرنی ہے،وہ مسلم سوسائٹی میں عورتوں کے ساتھ "حسن معاشرت"سے متعلق ہے.

واقعہ یہ ہے کہ آج ہم جس سماج سے تعلق رکھتے ہیں،وہ مسلم سماج کہلاتا ہے.ساری دنیا میں زبان و بیان کی جادوگری سے یہ سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ "اسلام عورتوں کے حقوق کا علمبردار ہے" جو کہ اپنے آپ میں ایک اٹل حقیقت اور ٹھوس ثبوت و شواہد کا حامل ہے.
اب ظاہر ہے کہ اسلام کے پیروکار "مسلمان" کہلاتے ہیں.اور سماج "مسلم سماج" کا نام و عنوان لے لیتا ہے.

*مسلم سماج اور حقوق نسواں*:

اب معاملہ یہ ہے کہ مسلم سماج میں گھل مل کر حقوق نسواں کا مشاہدہ جب کبھی کرنے کی نوبت آتی ہے تو سواے افسوس کہ کچھ اور نہیں کہا جاسکتا.
دنیا تو رہنے دیں!شادی بیاہ کے موقع پر از خود اسے محسوس کرنے کی کوشش کریں تو یہ سمجھ میں آجایگا کہ مسلم سماج میں بلا شبہ عورتیں شادی بیاہ و دیگر پروگرام و تقریب کے موقع سے مظلوم ہی ہیں.
بھلے اسلام نے انہیں ایسا نہیں ٹھہرایا ہے.

*شادی کے موقع سے ذمہ داروں کا رویہ*:

بات شادی بیاہ میں آنے والے مدعوئین کی ضیافت کو لیکر کرتے ہیں.شاید آپ قارئین بھی اس بات سے اتفاق کریں کہ مردوں کو عورتوں سے پہلے کھانا کھلانے،انہیں بیٹھنے بٹھانے میں ہم مسلم سماج والے ترتیب تقدم و تأخر کا ایسا لحاظ رکھتے ہیں کہ انھیں غور سے دیکھنے اور محسوس کرنے پر دوسرے درجے کا انسان ہی کیا جاسکتا ہے.کم ازکم ہمارا آج کا کلچر تو اِسی کا غماز ہے.یہی نہیں!غصے یا ہنسی مذاق میں آپس میں ہمارے درمیان رائج گالیاں بھی اِسی رویے کی عکاس ہیں!

*راقم کا احساس*:

راقم نے علاقے میں بہت سے مقامات پر شادیوں و دیگر پروگرام میں شرکت کی ہے.دیکھنے کو یہ ملا اور ملتا ہے کہ ولیمے یا بھوج کے وقت مَرد حضرات کو کھانا پہلے جبکہ عورتوں کو بعد میں ملتا ہے. کیی دوستوں نے بات چیت ہی میں اپنا اپنا یہ احساس بھی شییر کیا کہ خود گھر خاندان کی شادی کے موقع پر،دیکھنے کو یہ ملا کہ ہماری خواہش کے برعکس ذمہ داروں(گھر کی خواتین خود بھی ان میں شامل ہوتی ہیں)نے عورتوں کو مَردوں کو کھانا کھلانے کے بعد کھانا دیا.

چند دن پہلے ایک شناشا کی شادی کی تقریب جو ایک شادی ہال میں ہو رہی تھی،اُس میں بھی یہی صورت حال دیکھی،ہم سب مرد حضرات جب کھانا کھا کر نکل رہے تھے تب خواتین کے کھانے کا بندوبست کیا جارہا تھا،بلکہ مشورہ ہورہا تھا
"کیا اب خواتین کو بھی کھانا کھلا دیا جایا /دے دیا جایے"

ظاہر ہے ایسے موقع سے عموما بچے ماں کے ساتھ اور انکے پاس ہی ہوتے ہیں،نتیجتاً ان معصوموں کو بھی بھوکا اتنی دیر تک جھیلایا جاتا ہے.حالانکہ اسلامی و اخلاقی تعلیمات کی روشنی میں،عورتوں اور بچوں کو کھانا پہلے کھلانا چاہیے.اگر پہلے نہ کھلایا جا سکے تو کم از کم ایک ساتھ سبھی کو کھانا دینے اور کھلانے کا نظم تو بہر حال ہونا چاہیے.بطور خاص باہر سے آنے والی خواتین کو تو ضرور مرد حضرات کے کھانے کے ساتھ ہی فارغ کردیں تاکہ انکے شوہر یا محرم انکے انتظار میں نہ پکیں!راقم ایک دو موقع سے خود اسکا ستایا ہوا ہے. الغرض نظم ہو خواہ الگ سے دیگ چڑھا کر کریں یا کسی اور صورت سے اس کو بیلنس کریں!

*اس رویے کو بدلنا ہوگا*:

بہر صورت اب تعلیم اور عوامی میڈیا کا دور دورہ ہے،اس کے بل پر ہمیں اس ذہنیت کو بدلنا ہے کہ"مَرد حضرات جلدی اور اچھی طرح کھانا کھا لیں یہ کافی ہے.بعد ازاں دوسرے درجے کی انسان،یعنی عورتوں اور انکے ساتھ بچوں کو بھی کھانا دے ہی دیا جائے گا"

عورتوں سے حسن معاشرت کے متعلق قرآنی ہدایت"وعاشرواھن بالمعروف" کو وسیع پس منظر میں دیکھیے!اٹھ کھڑے ہویے اور اس رویے کو بدلنے کی تحریک چلایے!
ان شاء اللہ یہ بھی کسی اور معاشرتی اصلاح کے لیے کیے جانے والے دیگر افعال سے جد وجہد میں کم رتبے کا حامل نہ ہوگا!

*یہ مناسب عمل نہیں ہے*:

کھانا کھلانے میں کسی گروہ کو دوسرے پر مقدم کرنا، یہ نہ تو قطعی مناسب عمل ہے،نہ ہی اسلامی و اخلاقی رویے سے میل کھاتا کوی دستور!

==============*
ڈایریکٹرالمرکزالعلمی للافتاء والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا

+918789554895
+919122381549