اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: دنیا سے ہائے!! فخرِ زمانہ چلا گیا ، از✍ احتشام الحق ، مظاہری، کبیر نگری،

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Friday 28 February 2020

دنیا سے ہائے!! فخرِ زمانہ چلا گیا ، از✍ احتشام الحق ، مظاہری، کبیر نگری،

دنیا سے ہائے!! فخرِ زمانہ چلا گیا ،


                         از✍
احتشام الحق ، مظاہری، کبیر نگری،



 میرے مشفق و مکرم ، حضرت مولانا ولی اللہ ولی قاسمی بستوی رحمۃ اللہ علیہ ، کی ہمہ گیر شخصیت ، اس گلدستۂ سب رنگ کی حیثیت رکھتی تھی ، جس میں کہیں نقشِ فا جلوہ گر تھے تو کہیں محاسن و مکارم کے گل بوٹے سجائے گئے تھے ،   کہیں سعئ پیہم او ر جہد و مسلسل کی تصویریں کندہ تھیں تو کہیں اخلاقِ کریمانہ کی عطر بیزی ہورہی تھی،  کہیں وسعت ظرفی اور عفو در گزر کی گلکاریاں تھیں ، تو کہیں حلم و بردباری کے جلوے نظر آتے تھے ،،
کہیں ہمہ گیر تعمیراتی اسکیمیں دعوت نظارہ دے رھی تھیں ، تو کہیں اصلاح و باطن اور تزکیۂ قلوب و نفوس کی تدبیریں رو بہ اثر تھیں ، کہیں ان کے اولو العزمانہ اقدامات کی چھاپ دکھائی دیتی تھی ،،،،تو کہیں ان کے مجاہدانہ ٹاپوں کی آواز بھی سنائی دیتی تھی، کہیں بے باکانہ تقریروں کی گونج سنائی دیتی تھیں ، تو کہیں انقلاب آفریں نعرۂ تکبیر کی گھن گرج بھی سنائی دیتی تھی، کہیں سیکڑوں کتابوں کے کامیاب مصنف نظر آتے تھے تو کہیں بہترین مدرس کے روپ میں بھی  تشریف فرماتھے، کہیں وہ مردم سازی کا ہمہ گیر مشن چلاتے نظر آتے تھے ، تو کہیں امراض دروں کا نسخۂ شافی بھی دیتے نظر آتے تھے ، کہیں تفسیر و حدیث کو موضوع تدریس بناتے نظر آتے تھے، تو کہیں فقہ و کلام کی عقد کشائی بھی کرتے دیکھائی دیتے تھے ، کہیں وہ صرف و نحو کی پرپیچ وادیوں کو سہل العبور بناتے دیکھے جاتے تھے ، تو کہیں منطق و فلسفہ کی تسہیل و تہذیب میں مشغول نظر آتے تھے ، کہیں سلوک و تصوف کو جدت و قدرت بخشتے دیکھائی پڑتے تھے ، تو کہیں شعرو ادب کی زلف طرح دار میں مہارتِ فن کا شانہ سجاتے دیکھائی دیتے تھے، کہیں کاروانِ اھل تحقیق و تدقیق کی سر براہی کرتے نظر آتے تھے ،تو کہیں نکتۂ سنجانِ فن کی قیادت کرتے نظر آتے تھے، کہیں وہ خونِ جگر سے اسلام کی آب پاشی کرتے دیکھے جاتے تھے ، تو کہیں قصر دین کے بام و در پر صدق و صفا کا رنگ چڑھا نے میں مصروف تھے، کہیں وہ طالبانِ علوم نبوت کی میزبانی کرنے میں مشغول تھے تو کہیں واردین و صادرین کی مزاج پرسی میں ہمہ تن متوجہ تھے، کہیں مہمانوں کے خورد نوش کا بہترین انتظام فرماتے تھے ، تو کہیں ان کے ہمہ انواع راحت رسانی کا بندو بست کرتے نظر آتے تھے ، کہیں احباب و رفقاء سے پیمانِ وفا باندھ تے تھے ، تو کہیں محفلِ دوستاں میں حدیث دل سناتے تھے ، کہیں وہ مصیبت زدوں کی فریاد رسی کرتے تھے ، تو کہیں بیواؤں اور مفلسوں کی کفالت فرماتے تھے، کہیں وہ یتیموں اور بے سہاروں کے سروں پر دست شفقت پھیرتے تھے ، تو کہیں امت کے زخموں پر مرحم فشار انگلی رکھتے تھے،  کہیں وہ استغناء عن الدنیا کا درس دیتے تھے، تو کہیں خود ہی درس کی عملی تفسیر بن جاتے تھے، کہیں زہد و قناعت کا نمونہ پیش فرماتے تھے تو کہیں الفخر فخری کی زندہ تصویر بن جاتے تھے، کہیں وہ سرمایۂ آخرت کہلاتے تھے،، تو کہیں گدڑیوں میں  لعل کا مصداق ثابت ہوتے تھے، کہیں جلوتوں میں مرد میدان نظر آتے تھے تو کہیں خلوتوں میں آہ و گریہ زاری میں محو ہوتے تھے، ،، کہیں اشٹیجوں پر صدر باوقار کے روپ میں جلوہ گر ہوتے تو کہیں عزلت نشینی میں جامۂ خاکساری زیب تن کئے دیکھے جاتے تھے، کہیں وہ دینی و تبلیغی اسفار میں سرگرداں رہتے تھے تو کہیں اقامت پزیر ہوکر خانہ بدوشوں کی باز آباد کاری کے پہلو رو بہ عمل لاتے تھے،،،،،، کہیں وہ فکر آخرت اور تزکیرِ قیامت کا وعظ فرماتے تھے ، تو کہیں دنیا کی بے ثباتی اور زوال کو دلوں میں راسخ فرماتے تھے، کہیں وہ سلوک و تصوف کی راہوں کو نو آموزوں کے لئے روشن درخشاں بناتے تھے ،  تو کہیں بزم عرفانی میں معرفت حق کا راز آشکار کرتے نظر آتے تھے،، کہیں معرفت کے جامِ جم چھلکاتے تھے تو کہیں میخواروں میں صہبائے مدینہ کے ساغر و مینا لٹاتے تھے، ،،، کہیں وہ درس و تدریس کو محبوب مشغلہ بناتے تھے ،،، تو کہیں تصنیف و تالیف کا قلمدان بھی سنبھالے بیٹھے رہتے تھے،،،،، کہیں وہ خدمتِ خلق میں ہمہ تن لگے ہوئے تھے ، تو کہیں ملتِ بیضاء کی عظمت کو چار چاند لگانے میں کوشاں ہو تے تھے،، کہیں وہ ایک روحانی حکیم کی روپ میں ہوتے تھے ، تو کہیں زخم خوردوں کی مسیحائی کرتے تھے،، کہیں وہ اکابر کی دل و جان سے تعظیم بجا لاتے تھے  تو کہیں  اصاغر کی از حد حوصلہ افزائی بھی فرماتے تھے،  کہیں وہ اپنے اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرتے تھے تو کہیں دوسروں کے لئے راحت و آرام کے ہر طرح سے انتظامات کرتے تھے، ،،،، کہیں مہر و الفت کا  فرش زمردیں بچھاتے تھے ،، تو کہیں وہ داد و دہش کے  لنگر لٹاتے تھے،،،، کہیں غیروں سے سوال نہ کرنے کی ترغیب بھی دلاتے تھے ، تو کہیں وہ جہل و ناخواندگی   کی تاریک ترین فضا کو علم و خواندگی کی روشنی سے معمور کرتے تھے، کہیں خرافات و بدعات کا جنازہ نکالتے تھے تو کہیں وہ رسمِ بد کو دیکھ کر تڑپ اٹھتے تھے، ،،، کہیں دینی اسلامی چرچے کی خبر سن کر مگن ہو جاتے تھے تو کہیں وہ عشقِ خدا میں فنائیت تک پہنچے ہوئے تھے اور حب نبی میں محویت کے مقام پر فائز تھے ،،،،،،

الغرض ،،، قسام ازل نے ان کی ذات میں اس قدر خصوصیات و تفردات امتیازات و کمالات اور نوادرات و شذرات ودیعت فرمائی تھی کہ جنہیں  قیدِ تحریر میں لانا ناممکن ھے ،،،،،


اس مردِ حق شناس میں تھیں خوبیاں ہزار

بے مثل،   باکمال تھا     یکتائے    روز گار 



حضرت مولانا کے انتقال سے ایسا محسوس ہوتا ھے کہ کائنات تو موجود ھے لیکن فکر و خیال کی دنیا اجڑ گئی آپ کی یاد ہمیشہ آتی رھے گی اور آپ ہمیشہ آنکھوں میں بسے رہنگے زندگی جس ذاتِ گرامی کے گرد گھوم رھی تھی وہ اب جلوہ افروز نہ رھی علم و فضل کی وہ محفل اجڑ گئی

اللہ تعالی ان کی قبر کو نور سے منور فرمائے اور صبح شام ابر ہائے رحمت انکے مرقد کو سیراب کرتا رھے            امین