اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: مشہور شاعر اور گیت نگار اجمل سلطانپوری 94 برس کی عمر میں انتقال

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday 29 January 2020

مشہور شاعر اور گیت نگار اجمل سلطانپوری 94 برس کی عمر میں انتقال

مشہور شاعر اور گیت نگار  اجمل سلطانپوری 94 برس کی عمر میں انتقال

30 /جنوری 2020
 ڈاکٹر اشہد کریم الفت نے انہیں اکھنڈ بھارت کو تلاش کرتا شاعر قرار دیا ان کے مطابق شاعری میں وطن پرستی کا جذبہ بھی ایک عظیم جذبہ ہے۔

مسلماں اور ہندو کی جان
کہاں ہے میرا ہندوستان
مَیں اُس کو ڈھونڈ رہا ہوں
اجمل سلطان پوری

حب الوطنی کا موضوع اپنی سرحدوں میں ضرور سمٹا ہوا ہے مگر تحفظ وطن کے  لکشمن ریکھا میں انسانیت اور تہذیب کے فروغ کی خاطر یہ موضوع بے شمار معاشرتی و سماجی زندگی کی وسعت لئے ہوے ہے عہد جدید کی شاعری میں تقسیم ہند کا المیہ اور پورے ہندوستان کا وجود جس طرح اجمل سلطان پوری کی شاعری میں ملتا ہے دیگر شعراء کرام کے یہاں یہ جذبہ کچھ کم نظر آتا  ہے۔ ان کی حب الوطنی کی تڑپ اور کسک کابیان بہت  پر اثر ہے۔ اجمل سلطان پوری اس وقت زندگی کے صد سالہ سفر کے قریب ہیں ،رخش عمر پہ سوار 9 دہائیوں کا دریا عبور کر چکے ہیں _ان کی شاعری یقیناّ  زندگی کے طویل تجربوں سے گزر کر مشاہدے و مجاہدے کا نچوڑ ہے۔ انھوں نے تقسیم وطن کے کرب کو جس شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے وہ منٹو کے ،ٹوبہ ٹیک سنگھ کے برعکس بیانیہ میں سیدھے سنجیدگی کے ساتھ اپنے گیتوں میں ڈھالا ہے۔ لیکن معنوی سطح پر دونوں کا درد ایک ہی  ہے۔ بچپن کے اسکول اور کچی سڑکوں کی اڑتی ہوئی دھول میں جو ناسٹلجیا کا کرب ہے وہ بنگلہ دیش اور پاکستان تک ڈھاک کے تین پات میں تبدیل ہو کر ایک مذہبی جنون کی حنابند  شفقی دیوار ہو جاتی ہے۔ جہاں شاعر کی جذباتی تڑپ محبت کی ٹوٹتی قدروں اور زندگی کی روایت پر ایک سیاہ سوالیہ نشان کھینچ دیتی ہے۔ جو، اکھنڈ بھارت کی  خیالی تصویر میں گنگاجمنی کے خواب کو شکستہ ہوتے دیکھ رہی ہے، یہ تہذیبی مرثیہ بہت ہی درد انگیز ہے۔ اجمل سلطان پوری کی شعری کائنات گہرے فلسفیانہ مزاج سے دور ہی سہی لیکن ان کی محبت کی فضا میں نظیر اور دیگر صوفی شعراء کی وہ روایت شامل  ہے جس کی لہریں صدیوں سے پہاڑی سنگیت بن کر دیہاتی لہرا پوربی تان میں سنائ دیتی ہیں۔ یہ تہذیب گنگا اور جمنا کے تقدس کی امین ہے اور جس کی فضا صرف محبت کی تصویر بناتی ہے جہاں ایک اکھنڈ بھارت کا وجود پورے کے پورا ہندوستان لئے ملتا ہے۔                                         
             
جبکہ اسلم چشتی نے ان کے متعلق اپنے مضمون "اجمل سلطان پوری" کی گیت رنگ شاعری، میں لکھا ہے۔

ترقی پسند تحریک کے شباب کے دور میں غزل مخالف لہر چل پڑی تھی، نظموں کا بول بالا تھا، اس میں کوئی شک نہیں کہ آزاد، معریٰ اور پابند نظموں نے قارئین کو بے حد مُتاثر کیا تھا۔ کچھ شاعروں کی نظموں کی شہرت اکیسویں صدی تک بھی پہونچ گئی۔ آج کے قارئین اور سامعین میں بھی ان نظموں کی اہمیت بھی ہے اور مقبولیت بھی، لیکن ان میں ایک مجروح سلطان پوری ایسے شاعر تھے جنہوں نے غزل کے دامن کو نہیں چھوڑا – غزل کے اشعار میں وہ کچھ ایسی بات کہہ جاتے کہ ان کا ایک شعر طویل ترین نظموں پر بھی بھاری ہوتا۔ جیسے

میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

مجروح سلطان پوری کی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے کلاسیکل شاعری سے منہ نہیں موڑا بلکہ شاعری کی روایات کو قائم رکھتے ہوئے، عصری موضوعات اپنی غزل میں قائم کیے اور رواں غزل کے موضوعات اور لفظیات کو اپنی غزل سے دور ہی رکھا، اور سُخن کی نئ روایت قائم کی اُس دور میں دیگر شعراء جو اس تحریک کے تحت لکھنے والوں کی مقبولیت سے مرعوب تھے اور غزل کو کم اور نظموں کو زیادہ اہمیت دے کر میدانِ ادب میں فعّال تھے۔ مجروح کی مسلسل غزل گوئی سے متاثر ہو کر انھوں نے غزل گوئی کو اپنایا اور ساتھ میں قطعات اور گیت کی طرف بھی متوجہ ہوئے۔ ان میں اجمل سلطانپوری پیش پیش رہے۔ ترنّم نے ان کا ساتھ دیا اور مُشاعروں نے انھیں شہرت کے بام پر پہنچا دیا۔ اور اجمل سلطانپوری مُشاعروں کے کامیاب شاعر تسلیم کیے گئے۔

اجمل سلطانپوری 1926 کو سلطانپور کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ مجروح کے بعد میرا خیال ہے کہ اجمل سلطانپوری ہی وہ شاعر ہیں جن کے سُخن کے چرچے مُشاعروں کے حوالے سے سارے ہندوستان میں ہوئے۔ میں چونکہ ڈبائی ضلع بُلندشہر یوپی کا ہوں اس لیے ان کی شاعری کو اپنی نو عمری سے پسند کرتا ہوں۔ میں ان کی شاعری کو گیت رنگ شاعری کہنے میں حق بجانب اس لیے ہوں کہ ان کی نظم ہو کہ غزل یا سُخن کی کوئی اور صنف موضوعات چاہے کچھ بھی ہوں گیت کا رنگ اور آہنگ ضرور ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ان کے سُخن کا کمال دیکھئے۔

اس نگری کی ریت یہی ہے یہ نگری بے پیار
یہاں کوئی میت نہیں
( جلتا سنسار)
جب سارا جگ سوئے + تو رجنی کیوں روئے
( رجنی)
راہ ہے پُر خطر
رہزنوں کا ہے ڈر
رات اندھیری ہے تنہا کہاں جاؤ گے
(اندیشے)
مجھ کو جانا ہے جانے دو روکو نہیں
تم مرا راستہ چھوڑ دو
ہو سکے تو مرے ساتھ تم بھی چلو
زندگی کو نیا موڑ دو
( تم مرا راستہ چھوڑ دو)
راہ کٹھن
ہر گام پہ مشکل
چلنا ہے دشوار
بٹوہی منزل کتنی دور
( بٹوہی)
تمہارے آنگن میں برسات لیے جب ساون آئے گا
تو مجھ کو یاد کروگے
( پردیسی)

اجمل سلطانپوری کے گیت رنگ سُخن کا اندازہ ان مکھڑوں ( ابتدائی مصرعوں) سے ہو جائے گا۔ ان میں ایک خاص وصف محسوس کیا جا سکتا ہے کہ جب قاری مصرعے پڑھتا ہے تو الفاظ کے نظم سے ایک خاص قسم کی موسیقی اُبھر آتی ہے اور پڑھتے پڑھتے گانے گُنگُنانے کو جی چاہتا ہے۔ کلام کی یہ خوبی کم کم ہی دیگر شاعروں میں ملتی ہے۔ ان کے پاس تو صد فی صد ملے گی۔ ان کی ایک گیت نُما نظم ہے ” دیپک راگ” جو مُجھے پسند ہے۔ اسے پڑھتے پڑھتے میں گُنگُنانے لگا – مُلاحظہ فرمائیں۔ ابتدائی بول۔
کلی جب چٹکی کھٹکے خار، زخم جب سلگا سسکے پیار
تڑپ کر نکلی دل سے آہ کسی سے نین ہوئے جب چار
تو میں نے گیت لکھا ہے
( دیپک راگ)
ایک اور گیت کے ابتدائی بول ہیں۔
روٹھ گیا مرا میت گیت مرے زخمی ہوگئے
میت مرا ایسا شرمیلا پردے میں شرمائے
بھولا پن معصوم نگاہیں آہٹ سے تھرائے
اکثر یوں ہی روٹھ جائے ہے کوئی بات نہ چیت
گیت میرے زخمی ہوگئے
(زخمی گیت)

اب تک اجمل سلطانپوری کے کلام کی جو مثالیں پیش کی گئی ہیں وہ شاعر کی جمالیاتی حِس اور حُسن و عشق کی موثر تصویریں ہیں جو کہ صنفِ گیت کے تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہیں اور شاعر کے حُسنِ بیان کو بھی ظاہر کرتی ہیں – لیکن اجمل سلطانپوری کی شاعری کا کینویس ان موضوعات سے بھی وسیع ہے۔ انھوں نے اپنے وطن کی مُحبّت میں بھی گیت لکھے ہیں – جیسے –
تیرا سورج مُکھی مُکھڑا ترا چند سا بدن
چومتا ہے ترے ذرّوں کو ستاروں کا گگن
ذرّہ ذرّہ ترا اپنی جگہ انمول رتن
اے مرے پیارے وطن
( مرے پیارے وطن)
مُسلم قوم کی آن بان شان اور ہمّت جرآت اور شجاعت کا اظہار اجمل سلطانپوری کی ایک نظم ” مسلمان” میں کس سلیقے سے ہُوا۔ مُلاحظہ فرمائیں۔
مسواک اُٹھا لیتا ہے جب صاحبِ ایمان
بے تیغ بھی ہو جاتا ہے سر جنگ کا میدان
دلدل پہ بھی تیرائے ہیں مومن نے سفینے
شاہانِ زمانہ کو کیا تابع فرمان
( مسلمان)

اجمل سلطانپوری کی دو مشہور اور شاہکار نظموں کا ذکر میں ضروری سمجھتا ہوں ایک ” ہندوستان” اور دوسری ” مری پیاری زباں اُردو زباں ہے” نظم ” ہندوستان” میں شاعر نے پُرانے ہندوستان کی عظَمَت کے گُن گائے ہیں،. اتحاد اور امن کے راگ الاپے ہیں – جب نئے ہندوستان میں وہ بات نظر نہیں آئی تو وہ تڑپ کر پُرانے ہندوستان کو ڈھونڈنے کا گیت گاتے ہیں مُلاحظہ فرمائیں۔ ابتدائی مصرعے۔

مسلماں اور ہندو کی جان
کہاں ہے میرا ہندوستان
مَیں اُس کو ڈھونڈ رہا ہوں

دوسری نظم ہے ”مری پیاری زباں اُردو زباں ہے” اس نظم کی خوبی یہ ہے کہ شاعر نے ہندوستاں اور اُردو زباں کو ایک دوسرے سے جوڑ کر بات کی ہے اور دونوں سے پیار کا بے پناہ اظہار کیا ہے۔ اس نظم میں ہندوستان کے جانثاروں اور حکمرانوں کا بھی ذکر ہے پیر پیغمبروں کی بھی بات ہے اور اُردو زبان کی بنیاد کو مضبوط کرنے والی عظیم علمی اور ادبی شخصیات کا تذکرہ بھی ہے۔ نظم بڑی لا جواب ہے۔ پہلے دو مصرعے مُلاحظہ فرمائیں جو اس طویل نظم کے ایک ایک بند کے بعد آتے اور نظم کا معیار بلند کرتے ہیں۔
مری پیاری زباں اُردو زباں ہے
مرا پیارا وطن ہندوستاں ہے
اب اس نظم کا آخری بند مُلاحظہ فرمائیں۔
یہیں اُردو زباں پھولی پھلی ہے
یہیں اُردو کی پُروائی چلی ہے
یہیں اجمل دکن کا اک ولی ہے
جو پہلا شاعر اُردو زباں ہے
یہ نظم آسان اور رواں زبان میں اُردو زبان اور ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی توصیف کچھ اس طرح بیان کرتی ہے کہ قاری پڑھتے ہوئے ایک سرور پاتا ہے اور اُردو زبان اور ہندوستان کے دل ہی دل میں گُن گانے اور اپنے آپ کو اُردو زبان کا پروردہ اور ہندوستانی ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے۔

اجمل سلطانپوری نے کئی موضوعات پر نظمیں لکھی ہیں۔ اُن موضوعات میں شخصیات بھی ہیں موسمیات بھی ہیں، مشاہدات بھی ہیں تجربات بھی ہیں، جذبات بھی ہیں انقلابات بھی ہیں۔ سبھی نظموں میں شاعر نے اپنے سُخن کے کمال دکھائے ہیں۔ ان کے سُخن کا ایک کمال ان کی نظم ”تاج محل” ہے جسے انھوں نے ایک الگ زاویئے سے پیش کیا ہے۔ ساحر کی مشہور ترین نظم ” تاج محل” میں ساحر نے اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہا ہے کہ مرے محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے اور اجمل سلطانپوری نے کہا ہے۔

”میرے محبوب یہیں روز ملا کر مجھ سے” یہ نظم ساحر کی نظم کی پیروڈی نہیں ہے لیکن اُسی انداز اُسی لہجے اور اُسی بحر میں لکھی گئی ہے۔ یہ نظم اس نظم کی ضد ہے بلکہ اسے اُس نظم کا جواب کہیں تو بیجا نہ ہوگا۔ ”تاج محل” پر سینکڑوں شاعروں نے نظمیں لکھی ہیں اور خوب لکھی ہیں لیکن اجمل سلطانپوری نے جس زاویئے سے اظہار کے جو گُل بوٹے سجائے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ مُلاحظہ فرمائیں ابتدائی تین مصرعے۔
تاج اوروں کے لیے قابلِ نفرت ہی سہی
ان کو اس وادئی رنگیں سے رقابت ہی سہی
میرے محبوب یہیں روز ملا کر مجھ سے
اجمل سلطانپوری کی گیت رنگ شاعری میں لفظیات کا استعمال جادو جگاتا ہے اور شاعر کے ذوق کو اُجاگر کرتا ہے۔ اظہار کا یہ طریق خالص ہندوستانی ہے۔ ہندی کے الفاظ اُردو زبان میں نگینوں کی طرح جڑے ہیں۔ جسے پڑھنے اور سُننے میں لُطف آتا ہے۔ خاص طور پر ان کے گیت اپنی ایک چمک رکھتے ہیں۔ ایسے گیت سُر تال کے ساتھ ہی اچھّے لگتے ہیں۔ آل انڈیا ریڈیو کے شعبئہ موسیقی نے ان کے کچھ گیتوں کو سُر تال کے زیورات سے سجا کر پیش کیا ہے جن کو ریڈیو کے شائقین نے پسند کیا ہے۔
اجمل سلطانپوری نے چھپنے چھپانے پر شاید کم توجہ دی ہے۔ ایک مجموعئہ کلام ” سفر ہی تو ہے” بہت پہلے شایع ہو چُکا ہے۔ دوسرا اشاعت کا منتظر ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان کی شاعری اُس شاعری کے زُمرے میں آتی ہے جو کبھی پُرانی نہیں ہوتی۔ مُجھے خوشی ہے کہ ایسی شاعری پر لکھنے کا مُجھے موقع ملا۔ مُجھے یقین ہے کہ قارئین ان کی شاعری سے مطمئن بھی ہوں گے اور لُطف بھی حاصل کریں گے۔