اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: بزم یاراں کا ایک ہنگامی سفر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! اسعداللہ بن سہیل احمداعظمی نئے سفر کی لذتوں سے جسم و جاں کو سر کرو سفر میں ہوں گی برکتیں سفر کرو سفر کرو [مہتاب حیدر نقوی]

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday 31 August 2020

بزم یاراں کا ایک ہنگامی سفر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! اسعداللہ بن سہیل احمداعظمی نئے سفر کی لذتوں سے جسم و جاں کو سر کرو سفر میں ہوں گی برکتیں سفر کرو سفر کرو [مہتاب حیدر نقوی]


 بزم یاراں کا ایک ہنگامی سفر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!


                            اسعداللہ بن سہیل احمداعظمی 


      نئے سفر کی لذتوں سے جسم و جاں کو سر کرو

        سفر میں ہوں گی برکتیں سفر کرو سفر کرو 

                                   [مہتاب حیدر نقوی]


لاکڈاٶن کی وجہ سے آج کل ہمارے دیار اعظم گڑھ میں ہفتے کے پانچ روز تو بازار میں خوب چہل پہل، چمک دمک رہتی ہے،زندگی  اپنے کھوٸے ہوٸے شباب کو پانے کی طرف دوڑتی نظر آتی ہے، لیکن دو روز (شنبہ یکشنبہ) کو بالکلیہ یہ سلسلہ بند رہتاہے، صرف علاج ومعالجہ یعنی ہسپتال سے متعلق افراد ان دنوں سڑکوں کی زینت بنے رہتےہیں، اور کچھ محدود وقت تک سبزی وپھل فروش بھی نظر آتے ہیں۔ لیکن وہ رمق نظر نہیں آتی جو اوردن رہتی ہے۔ 


22/اگست بروز سنیچر کوصبح ہی سے مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائمیر کے تعلیم یافتگان کا واٹس ایپ  گروپ(ابناٸے قدیم مدرسہ بیت العلوم) میں پیغامات کا ایک خلاف توقع سلسلہ شروع ہوا، چونکہ تمام ہی حضرات فارغ ہونے کے ساتھ اپنے گھروں میں محصور تھے، مفتی عبیدالرحمن شیروانی، مفتی کلیم شیروانی، مولوی مستقیم شیروانی،  نے ایک ہنگامی سفر کا اعلان کیا۔ وقت کی ترتیب بنتی بگڑتی رہی۔

 تقریباً ایک بجے مولوی مستقیم صاحب کی کال  اور مفتی عبیدالرحمن صاحب کا میسج موصول ہوا کہ اسطرح کا سفر ہونا طے پایاہے اپنا ارادہ ظاہر فرمائیں، میں نے اپنی خوش نصیبی سمجھتے ہوئے رفیق سفر بننے کی حامی بھرلی۔ 


 مدرسہ بیت العلوم:

مشرقی یوپی کا قدیم دینی ادارہ ہے، آج سے ترانوے 93/ سال پہلے 4/ربیع الاول 1349هج بروز دوشنبہ کو  حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوریؒ نے اپنے پیرو مرشد حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی سرپرستی میں قاٸم فرمایا، مدرسہ میں شعبہ پراٸمری سے لے کر تخصص فی الحدیث تک کی تعلیم کا نظم ہے۔  بانیء مدرسہ کے اخلاص وللہیت کی برکت سے اس کے فیض یافتگان ہند وبیرون ہند کے چپے چپے پر دینی خدمات انجام دے رہے ہیں، محسن الامت مولانا شاہ مفتی عبداللہ صاحب پھولپویؒ کی بے لوث خدمات کی وجہ سے مدرسہ تعمیری وتعلیمی دونوں لحاظ سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

فی الحال مفتی صاحب علیہ الرحمہ کے صاحبزادے اور بانیء مدرسہ کے پرپوتے(مفتی احمداللہ صاحب پھولپوری مدظلہ) اس کے روح رواں ہیں۔


 الغرض 1بجکر 39منٹ پر یہ تینوں حضرات شیرواں کی گلیوں سے نکل کر قصبہ سرائمیر میں واقع ایک جدید مسجد میں ظہرکی نمازادا کرنے کے بعد متصلا  ڈاکٹر شمیم صاحب کے یہاں ایک مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، وہیں سے اس قافلہ میں چارچاند لگانے کے لئے مفتی موسی محمودآباد بھی ساتھ ہوئے۔ موسی صاحب کو دیکھ کر یہ شعر ذہن میں آیا۔

             

            کس کی آمد ہے یہ کیسی چمن آراٸی ہے

            ہر طرف پھول مہکتے ہیں، بہار آٸی ہے


 مفتی موسیٰ صاحب:

خوش مزاج، خوش نہار، خوش نظر، مہمان نواز، اور لاجواب صلاحیت کے مالک ہیں، حفظ کی تکمیل مدرسہ دارالابرار جوماں پھولپور میں کی، فارسی تا عربی پنجم  کی تعلیم مدرسہ بیت العلوم میں حاصل کرنے کے بعد دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا اور وہیں سے سندفضیلت حاصل کی، اس کے بعد دیوبند کے "اشرف للغة والدعوة" میں یک سالہ عربی ادب کورس کیا، پھر اسکے بعد مشہور دینی درسگاہ ریاض العلوم گورینی جونپور سے افتا کیا، فی الحال اپنی ہی قائم کردہ  کاسمیٹک کی دوکان(شمیم مارکیٹ کوٹلہ بازار) میں دن ورات تگ ودو کررہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انھیں دن دونی رات چوگنی ترقیات سے مالا مال فرمائے۔۔۔۔۔۔آمین


دیگر حضرات کاتعارف میرےایک مضمون {احباب کے ہمراہ چندگھنٹے کا ایک خوشگوار سفر} میں گزرچکا ہے۔


خیر 2بجکر 11منٹ پر کھریواں موڑ سے ہمارا یہ پانچ نفری قافلہ تین موٹر سائکلوں کے ذریعہ برق رفتاری سے چھتے پور کی جانب محو سفر ہوا، راستے کےدونوں طرف قسمہاقسم کے درخت، ہرے بهرے پودے ، چھوٹی بڑی عمارتیں، دل کو موہ لے رہی تھیں، چندہی منٹ میں ہم مغلن سکرور پہونچے مگر یہاں پر پولیس کا ایک دستہ سڑک پر لاٹھی پیٹتے ہوٸے نظرآیا، دو تین منٹ رک کر غور وخوض اور باہم مشورہ کرنے کے بعد ایک دوسرے راستے کا انتخاب کیا گیا، کچھ ہی پل میں ہم  مین راستے پر آپہونچے، راستہ چلتے ہی  مدرسہ اسلامیہ علوم القرآن کا دیدار بھی ہوا، اور دل نے کہا کہ اس پرشکوہ عمارت سےکبهی قرآن و حدیث کی آوازیں  گونجا کرتی تھیں، لیکن آج بالکل سنسان ہے ،صبح کی دلکشی شام کی رعنائی کھوگئی ہے یہ سب 'کرونا' کی وجہ سے ہے اللہ کرے جلد ہی یہ وبا ختم ہو۔۔اور پھر یہ چمن آباد ہو۔۔


ابھی اسی سوچ میں ڈوبا تھا کہ چھتے پور کی بازار نظر کے سامنے تھی۔ پھر کچھ لمحےکے بعد گاٶں میں داخل ہوتے ہی پہلی ملاقات (حافظ محمد ندیم صاحب استاذ شعبہ حفظ مدرسہ بیت العلوم) سے ہوئی علیک سلیک کے بعد آنے وجہ دریافت کی جس کا جواب رفیق سفر مولوی مستقیم صاحب نےاپنے انداز میں دیا، اور مولانا آس محمد صاحب کے دولت کدہ کی جانب گاڑی کا رخ کیا، مولانا ہمارے منتظر تھے، پہونچتے ہی انتہائی گرم جوشی سے سلام ومصافحہ کیا، اور مہمان گاہ میں بیٹھایا، بات نکلتی رہی ہنسی مذاق کا دورچلتا رہا ایک دوسرے کی  باتوں سے محظوظ ہوتے رہے،  لطافتوں سے بھرپور مجلس جمی ہوئی تهی کہ اتنے میں مولانا کے والد محترم تشریف لاٸے جوکہ (جامعہ اسلامیہ علوم القرآن کریاواں میں ایک عرصہ سے تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں)  تمام ہی حضرات سے مصافحہ کیا اور بڑی خوشی کا اظہار کیا، اسکے کچھ دیر بعد مولانا آس محمد صاحب کے برادر صغیر مفتی ابوذر قاسمی صاحب حاضر ہوئے اور سلام و مصافحہ سے فارغ ہوئے چند وقفے بعد دسترخوان سجایا گیا جسمیں طرح طرح کی چیزیں تھیں، اخیر میں شاندار وخشکی کو دور کرنیوالی چاٸے نے تو کمال ہی کردیا۔ 


چھتے پور کے بعد طے شدہ پروگرام کے مطابق ہماری اگلی منزل چھاٶں تھی اوریہاں گروپ ممبر مفتی آصف صاحب ہمارے منتظر تھے۔ مولانا مستقیم صاحب کے اصرار  پر مولانا آس محمد صاحب بھی رفیق سفر ہوگئے اب ہمارا یہ چھ نفری قافلہ ننداٶں کے راستے ہوکر چھاٶں کی جانب چلنے لگا، راستے میں پارہ، اساڑھا، نیگواں، کمراواں جیسے جیسے کٸی چھوٹے گاٶں پڑے، موسم بہت جان لیوا تھا ٹھنڈی ٹھنڈی ہواٶں کےمست جھونکے دل کو گد گدارہے تھے، اور راستے کے دونوں طرف چھوٹے چھوٹے تالاب ہرے بھرے کھیت آنکھوں کو سرور پہونچارہے تھے، یہی کچھ نصف گھنٹے میں ہم لوگ چھاٶں میں سرحد میں داخل ہوئے مفتی آصف صاحب رہبری کے لیے راستے میں مستعد تهے

 انہیں کے پیچهے پیچهے چل پڑے ، ٹیڑھی میڑھی گلیوں سے گزر کر ان کے دولت کدہ پر پہونچے،  وہ گلیاں نہیں تهیں بلکہ گویا لکھنؤ کی بھول بھلیا تهیں ۔


 مفتی آصف صاحب 

 نیک طبیعت، منکسرالمزاج، اور اعلیٰ قسم کی صلاحیت کے حامل ہیں عربی چہارم تک تعلیم مدرسہ بیت العلوم میں ہوٸی، اس کے بعد دورہ حدیث تک کی تعلیم دارالعلوم وقف دیوبند میں حاصل کی، پھر ایک سال مکمل دارالعلوم کے شعبہ افتا میں سماعت کی،  حاضری کی مکمل پابندی کی اور انتهک کوشش کرکے داخل شدہ طلبہ سے زیادہ تمرینات لکھیں،  دیوبند سے واپسی کے بعد  مدرسہ انوار العلوم و مدرسہ بیت العلوم میں تدریسی خدمات انجام دیں، فی الحال آن لائن خرید وفروخت کررہے ہیں۔


خیر پہونچتے ہی مفتی صاحب نے ہال میں بیٹھایا، راستے کے متعلق گفت وشنید کی، تهوڑی ہی دیر میں  دسترخوان لگا، فرائی کئے ہوئے گرما گرم انڈے، انار کے دانے اور اشرف المشروبات چائے  ودیگر لوازمات نظروں کے سامنے تھے، ہر ایک نے اپنی پسند کے اعتبار سے سیری حاصل کی، عصر کا وقت ہوچکا تھا، فورا مسجد حاضر ہوئے اور (حافظ علاٶالدین صاحب سابق استاذ مدرسہ بیت العلوم) کی امامت میں ادا کی گٸی۔

نماز کے بعد اجازت چاہ کر اگلی منزل کے لیے نکل پڑے، مولوی مستقیم صاحب کی خواہش تھی کہ اب آئیں ہیں تو مدرسہ بیت العلوم کے سابق ہونہار طالب علم مولانا ارقم ظلی صاحب کے یہاں بھی ہولیا جائے، متعدد مرتبہ فون کیا گیا لیکن رابطہ نہ  ہوسکا اسلئے ہم انتظار نہ کرکے اگلی منزل(آنوک) کی طرف   برق رفتاری سے روانہ ہوئے،  کارواں چهاوں  سے ایک غیر معروف راستے سے تهوڑی ہی دیر میں گمبھیرپور کی شاہراہ پر پہنچ گیا  وہاں سے  محمد پور پور ہوتے ہوئے ہم لہبریاں پہنچ چکے تهے اور گروپ ممبر مولانا سیف اللہ صاحب آنوک میں ہمارے   منتظرتھے۔


راستہ بالکل ہمواراور خالی تها  جسکے چلتے کچھ ہی دیر میں ہم لوگ لہبریاں پہونچ گٸے، اور یہاں پر چند منٹ سڑک کے حاشیہ پر کھڑے ہوکر سوچا گیا کہ آنوک چلاجائے یا ذائقہ دربار پر رک کر مولانا سیف للہ و مولانا ایوب صاحبان کو یہیں بلا لیا جائے ، چونکہ مولانا سیف اللہ صاحب کی طرف سے یہ قافلہ ذائقہ دربار میں رات کے کھانے پر مدعو تھا، لیکن ابھی مغرب کا وقت ہونے میں ایک گھنٹہ کا وقفہ تھا، اسلئے فیصلہ ہوا کہ آنوک ہی چلاجائے، لہبریاں سے آنوک کی دوری تقریبا سات کلومیٹر ہے، مگر راستہ بڑا ہی خراب ہے، درمیانی رفتار سے ہم لوگ پندرہ منٹ میں آنوک پہونچے، مولانا ایوب صاحب بھی یہیں موجود تھے،  دونوں ہی حضرات نے خندہ پیشانی کے ساتھ سلام ومصافحہ کیا، اور مہمان خانے میں بٹهلایا کشادہ ہال جسمیں کتابیں بڑے  سلیقے سے رکهی ہوئی تهیں اوپر چهت کی جانب انتہائی خوبصورت، دیدہ زیب و جاذب نظر جهومر معلق تها جسکی چمچماہٹ  پورے ہال میں پڑ رہی تهیں.

          دیکھے  بہت  ہم نے  بھی ، پُر کیف مناظر

       لیکن تیرے کوچے کی فضا اور ہی کچھ ہے


 مولانا سیف اللہ صاحب

خوش مزاج اور مرنجا مرنج طبیعت کے حامل ہیں، نہایت  ذکی اور ذہین، بہت باذوق، سخن فہم اور ادب درویش ہیں، مکتب کی تعلیم آنوک میں مکمل کرنے کے بعد حفظ اور فارسی تا عربی پنجم کی تعلیم  مدرسہ بیت العلوم میں حاصل کی اسکے بعد شہرہ آفاق دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا، امسال دورہ حدیث شریف میں ہیں، لیکن لاکڈاٶن کے چلتے چونکہ تمام تعلیم گاہیں و ادارے کالج و یونیورسٹیاں سب بند ہیں اسلئے موصوف بهی فی الحال گھرپر قیام پذیر ہیں

گروپ میں چٹ پٹے سوالات بہترین اشعار کے انتخاب سے سب کو محظوظ کئے رہتے ہیں۔ خودساختہ شعر بھی کہنے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں۔ آنوک مولانا کا نانیہال ہے بچپن ہی سے  اکثر نانیہال میں رہتے آئے ہیں آپکا مسکن بندی ضلع مئو ہے  ۔ 


 مولانا ایوب صاحب

یہ آنوک کے ہی  باشندے ہیں مفتی کلیم و عبیدالرحمن صاحبان کے درسی ساتهی ہیں عربی پنجم تک کی تعلیم مدرسہ بیت العلوم میں ہوٸی، بعدازاں دارالعلوم دیوبند سے سند فضیلت حاصل کی، اس کے بعد دو سالہ کورس"نیشنل انسٹی ٹیوٹ فارفیتھ لیڈر شپ" غازی آباد میں کیا، فی الحال علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ دینیات میں زیر تعلیم ہیں۔ 


ہم لوگ  ابهی چوکی پر دراز ہی ہوئے تھے کہ  اشرف المشروبات ودیگر چیزوں سے آراستہ دسترخوان سے  ضیافت کی گئی ، کافی دیر تک ایک دوسرے سے تبادلہء خیال ہوا مجلس جمی رہی کچھ ہی دیر بعد  مغرب کی اذان کی صدائیں بازگشت ہوئیں ہم لوگ جامع مسجد پہنچے اور (مولانا فرحان صاحب قاسمی) کی امامت میں نماز ادا کی ۔ بعد نماز مولانا فرحان صاحب تمام حضرات کو اپنے دولت کدہ پر لے گٸے، اور تقریبا پون گھنٹہ چائے نوشی و دیگر لوازمات میں گزرا وہاں سے فراغت کے بعد ذائقہ دربار کی طرف متوسط رفتار سے ہم لوگ چلنے لگے۔


 مولانا فرحان صاحب 

یہ رفیق سفر مولانا مستقیم صاحب کے درسی رفیق ہیں، آنوک ہی کے رہنے والے ہیں، عربی پنجم تک بیت العلوم میں پڑھے، بعدازاں دارالعلوم کی جانب رخ کیا اور وہیں سے سند فضیلت حاصل کی گاؤں ہی میں مقیم ہیں کراٹے وغیرہ میں کافی مہارت حاصل ہے۔


 اب ہم ذائقہ دربار پہنچ چکے تھے جو ایک وسیع دائرے میں انتہائی خوبصورت شکل میں بنا ہوا ہے ننهے پودوں و پهولوں سے آراستہ کیا ہواہے دودهیا روشنی میں کسی باہر ملک کا ہوٹل    معلوم ہوتا ہے اندر  پہونچنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں تو کھچا کھچ بھیڑ ہے، کوئی ٹیبل، کرسی خالی نظر نہیں آئی، چونکہ سنیچر اتوار دوکاندار ودیگر حضرات خالی ہونے کی وجہ سے کھانے کی پارٹی کرتے ہیں، اور پردھان پارٹی بھی نظرآٸی سامنے 2021 میں الیکشن جو ہے; ڈھابے کے مالک  ذیشان بھائی نے جب مولوی پارٹی کو دیکھا تو ایک جگہ کرسی کا بندوبست کیا اور ہم لوگ بیٹھ کر جگہ کے خالی ہونے کا انتظار کرنے لگے، تقریباً نصف گھنٹہ سے زائد انتظار کرنے کے بعد جگہ مل گٸی، وہاں پر کهانے کے لیے کئی طرح کے انتظامات ہیں کرسی ٹیبل و ہال دو چهوٹے چهوٹے ہال بنے ہیں جنکو مجلس کا نام دیا گیا ہے جہاں  فرش پر بیٹھ کر کهانے کا خوبصورت نظم کیا گیا ہے  سب لوگ اطمینان سے بیٹھ گئے، باہم مشورہ سے چکن لپیٹا، چکن رجواڑی،ملائی ٹکہ و دال فرائی کا آرڈر کردیا گیا۔


 شعری نشست

طے ہوا کہ جب تک کھانا آتاہے کیوں نہ بیت بازی کا پروگرام  کرلیاجائے، موسم کی خنکی انتہائی دل افزا تھی ہوا کے تیز جهونکے چل رہے تهے  چار چار افراد کی دوٹیم بنی ایک کی کمان برادرعزیز مفتی موسی صاحب کے ہاتھ میں اور دوسری کی رفیقم مولانا سیف اللہ صاحب کے ہاتھ سوا گھنٹے سے زائد علامہ اقبال، کلیم عاجز، احمد فراز ودیگر قصہ پارینہ بن جانے والے شعرائے کرام کے بہترین وعمدہ شعر ہرایک نے کہے، کافی انتظار کے  بعد کھانا آیا کھانا تو لذیذ وذائقہ دار ضرور تھا، لیکن وہ مزہ نہیں آیا جس کی سوچ ہم رکھتے تھے۔


کہتے ہیں نہ جب بھوک مرجاتی ہے تو چاہے کوئی بھی ڈش بندے کے سامنے رکھ دی جائے اسے اچھی نہیں لگتی، ایسا ہی واقعہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا، ذائقہ صاعقہ بن کر گرا اور ہم طعام سے فارغ ہوکر شکر خداوندی بجالائے۔

  کھانے سے فراغت کے بعد ایک مرتبہ پھر چائے کی چسکی لی گئی جس سے بدن میں طراوت و خنکی آئی مولانا سیف اللہ ومولانا ایوب صاحبان سے اجازت چاہ کر بادل نخواستہ روانہ ہوئے ابهی نکلے ہی تهے کہ راستے کے متعلق مشورہ ہوا کس راستے چلا جائے مولانا موسی صاحب ایک پتلے راستے سے محمدپور و پهریہا کی شاہراہ سے ہم لوگوں کو ملایا اور یہاں سے ہم کیف ونشاط کے ماحول میں صبا رفتاری سے منزل کی طرف چل پڑے مفتی کلیم صاحب ننداٶں موڑ سے گهر کے لئے الوداعی سلام کہہ کر روانہ ہوگئے 

الحَمْدُ ِلله شب دس بجکر ستائیس منٹ پر میں اپنے گھر پہونچا   تمام لوگ بعافیت وسلامت اپنے اپنے گھر گیارہ بجے تک پہونچ گئے  اور اس طرح ایک خوشگوار ہنگامی سفر کا اختتام ہوا۔


ان بے لوث محبت کرنے والے احباب کا ساتھ دس گھنٹے رہا، اور ہرپل، ہر لمحہ، ہر گھڑی قیمتی پرسکون مسکراہٹوں سے لبریز تھی۔

         

          تمہارے ساتھ یہ موسم فرشتوں جیساہے

             تمہارے بعد یہ موسم بہت ستائے گا

                                             [بشیربدر]


مورخہ 28/اگست بروز جمعہ

رات سات بجکر پچپن منٹ پریہ تحریر مکمل ہوئی۔