اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: *عارف باللہ حضرت مولانا قاری صدیق احمد صاحب باندوی ؒ کے سوانحی نقوش اور خدمات* ✍🏻از قلم: عبدالرحمن چمپارنی *شخصیات نمبر کی چھٹی قسط*/6

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Friday 24 July 2020

*عارف باللہ حضرت مولانا قاری صدیق احمد صاحب باندوی ؒ کے سوانحی نقوش اور خدمات* ✍🏻از قلم: عبدالرحمن چمپارنی *شخصیات نمبر کی چھٹی قسط*/6

*عارف باللہ حضرت مولانا قاری  صدیق احمد صاحب باندوی ؒ کے سوانحی نقوش اور خدمات*
✍🏻از قلم: عبدالرحمن چمپارنی
*شخصیات نمبر کی چھٹی قسط*/6
  آپ  ؒ کانام : آپ ؒ کانام سید صدیق احمد تھا ، اور آپ ؒ  کے والد محترم کا نام سید احمد تھا
آپ ؒ کی  ولادت : آپ ؒ  بہ روز  جمعہ ۱۱؍ شوال المکرم ۱۹۲۳ ء اپنے گاؤ ں ہتھورا ضلع باندہ ضلع اتر پردیش میں  پیدا ہوئے ،
آپ کا نسب: آپ  ؒ  کا نسب قاضی محمد داؤد تک جاپہنچتا ہے ،
آپ ؒ کی تعلیم وتربیت : آپ ؒ نے گاؤ ں ہی میں اپنے دادا قاری عبد الرحمن صاحب تلمیذ قاری عبد الرحمن صاحب پانی پتی ؒ سے ابتدائی تعلیم  مکمل کی اور کلام پاک حفظ کیا ، داد کی وفات کے بعد حفظ قرآن کی تکمیل اپنے ماموں سید امین الدین صاحب سے کی ، اور انھی کی فا رسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں ، پھر آپ ؒ کانپور آگئے ، اور یہاں کئی ایک اساتذہ سے عربی وفارسی مبادیات کی تعلیم پائی ، پھر یہاں سے پانی پت چلے گئے اور وہاں شرح جامی تک کے درجے کی مختلف علوم  و فنون پرھیں ، اور قراء ت سبعہ کی تعلیم بھی آپ ؒ نے یہیں حاصل کی ،
اعلی تعلیم کے لئے آپ ؒ نے شوال ۱۳۵۸ ھ مطابق ۱۳۳۹ ء میں ایشا ء کی عظیم دینی دانش گاہ  مظاہر علوم سہارن پور میں دا خلہ لیا ، یہ بات قابل ذکرہے کہ
اسی سال آپ ؒنے درمیان سال میں مظاہرعلوم  سے آکر ۵؍ جمادی الاولی ۱۳۶۲ ھ کو مدرسہ شاہی میں داخلہ لیا ، اور اسی سال مشکوۃ شریف اور ہدایہ آخرین وغیرہ پڑھیں ، مدرسہ شاہی کے رجسٹر نمبرات امتحان تک آخری  نمبرات شعبان ۱۳۶۲ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس امتحان میں آپ ؒنے  مشکوۃ شریف میں کل ۵۰ میں سے ۵۱ اور ہدایہ آخرین میں ۵۰  نمبرات حاصل کیے ، اس زمانہ میں ۵۰ ؍ نمبر ہی تک تھا ، جب کہ ہمارہ زمانہ میں ۱۰۰؍ نمبر کا مدارس ومکاتب اور یونیورسٹیوں میں ہے ۔ آیندہ سال مظاہر علوم میں پھر دورہ ٔ حدیث شریف میں داخل ہوئے لیکن سہ ماہی امتحان دے کر مدرسہ عالیہ فتح پور ی مسجد میں دہلی آگئے ، اور یہیں دورہ حدیث کی تکمیل کی ۔
آپ ؒ کے دورہ حدیث کے اساتذہ کرام : اس وقت فتح پوری  میں دودہ حدیث کے استا د حدیث علامہ محمد ابراہیم بلیاوی ت تھے ، مظاہر علوم میں آپ ؒ نے بخاری جلد اورل اور ابو داؤد شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب کاندھلوی ؒ سے پڑھا ، اور بخاری  جلد ثانی مولانا عبد اللطیف صاحب ، مسلم شریف مولانا منظور احمد صاحب سے ، ترمذی ، شمائل ترمذی اور طحاوی شریف مولانا عبد الرحمن صاحب کامل پوری ؒ سے ، نسائی مولانا اسعد اللہ صاحب سے پڑھی ،
سلو ک و معرفت : آپ ؒ نے مظاہر علوم کے ایام طالب علمی  میں ، ہمیشہ حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب کے ساتھ رہا کرتے تھے ، ، آپ ؒ ان کے علم وفضل اور صلاح و تقوی کے دل دادہ تھے ، تزکیہ و احسان اور سلوک وطریقت کے منازل ان ہی کی نگرانی میں طے کیے اور طور طریقے انھی سے سیکھے ، انھوں نے ۱۳۷۶ ھ میں آپ کوخلافت و اجازت کے خلعت سے بھی سرفراز فرمایا ،حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب کے وصال کے بعد ، وقت کے نامور علماء و مشایخ سے سلسلہ ٔ زیارت و استفادہ مشورہ جاری رکھا ، جن میں حضرت تھانوی ؒ کے خلفاء مولانا شاہ وصی ا للہ الہ آبادی ؒ ، مولانا شاہ عبد الغنی پھول پوری ، ؒ مولانا شاہ ابرار الحق ہردوئی ؒ ، اور شیح الحدیث مولانا محمد زکریا ، مولانا مفتی محمو دحسن گنگوہی ، مولانا محمد احمد پرتاب گڈھی  ، اور مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی ؒ سر فہر ست ہیں ،
آپ ؒ کی خدمات
آپ ؒ نے فراغت بعد تدریسی ، تصنفی ، اور تاسیس مدارس کی خدمات انجام دی ہیں ،
تدریسی زندگی : فراغت کے بعد تدریسی زندگی کا سلسلہ شروع ہوا ، چندماہ گونڈہ مدرسے فرقانیہ ،اور چند سال فتح پور مدرسہ اسلامیہ میں تدریسی فرائض  انجام دیے ، اس طرح تین سال گزر گئے ، اسی زمانے میں علاقے میں فتنہ ٔ  ارتداد اٹھ کھڑا ہو ا، آپ ؒ نے اس فتنے کا قلع قمع کیا ، اسی زمانہ میں گاؤں آئے اسی جذبہ و حوصلہ سے پہلے تو مکاتب قایم کیے ، پھر اصل مراکز مدارس قائم کیے ، سرپرست اور نگراں رہیں ، آپ نے جو مدرسہ قائم کیا ہے ، وہ جامعہ عربیہ ہتھورا باندہ  ہے ۔
آپ ؒکی تصنیفی خدمات
آپ ؒ کی متحرک زندگی ، قلمی اشتغال کا موقع نہیں دیتی تھی ، لیکن آپ ؒنے تصنیف و تالیف کاصاف ستھرا  ذوق پایا تھا ، بے پناہ مشغولیتوں کے باوجود ، جو قلمی سرمایہ آپ ؒ کی یا دگار رہے ، وہ اس بات کا شاہد عدل ہے ، ذیل میں تصنیفات صدیق ؒ ملاحظہ فرمائیں ،
۱۔ تسہیل التجوید، ۲ ۔ احکام میت ،۳۔ آداب المعلمین والمتعلمین ، ۴۔ تسہیل المنطق ۵۔ حق نما ، ۶۔ فضائل نکاح ، ۷۔ تسہیل الصرف ۸۔  اسعاد الفہوم شرح سلم العلوم ۸۔ تسہیل النحو ، ۹۔ فضائل علم ۱۰۔ قواعد فا رسی ، ۱۱۔ سیرت نبوی پر سنن کی ترتیب سے واقعات کا بیان ، ۱۲۔ نماز کے موضوع پر ایک عمدہ کتابچہ ، ۱۴۔ منظوم مجموعہ ٔ کلام ۱۵۔ تسہیل السامی شرح ‘‘ شرح جامی ’’
عہدے اور مناصب : آپ ؒ   بہت سارے مدارس اور مکاتب کے رکن شوری تھے ، ان میں سر فہر ست یہ ہیں  : ۔ دالعلوم دیوبند ، ۲۔ مظاہر العلوم سہارن پور ۳۔ دالعلوم ندوہ العلماء لکھنؤ اور ۴۔ مدرسۃ الرشاد بنکی ضلع بارہ بنکی اور دوسرے جامعات و مدارس کے ذمہ دار اور مشیر تھے ۔
آپ ؒ کی وفات : حزن و ملال اور نم دیدہ آنکھو ں سے سلام ہو ، اس عظیم ہستی پر جو دنیا سے ۲۸ ؍ اگست ۱۹۹۷ ء کو دنیا کو الوداع کہہ گیا ،
دیکھئے : مرجع سابق (ص؍ ۴۹۰ ۔ ۴۹۸