اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: فن حدیث کا شناور___فکر نانوتوی سے باخبر! تحریر: انس بجنوری

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday 22 July 2020

فن حدیث کا شناور___فکر نانوتوی سے باخبر! تحریر: انس بجنوری

فن حدیث کا شناور___فکر نانوتوی سے باخبر!

تحریر: انس بجنوری

رمضان المبارک کی پچیسویں تاریخ تھی،صبح کاجانفزا وقت اپنے عروج پر تھا،طلوع آفتاب کو ابھی ڈھائی گھنٹے کا عرصہ گذرا تھا کہ ملت اسلامیہ کا ایک روشن ترین آفتاب اور آسمان علم کا نیرتاباں غروب ہوگیا۔۔۔برصغیر کے سب سے بڑے بافیض ادارے کا شیخ الحدیث راہئ ملک عدم ہوگیا۔۔۔آہ
قافلے کی موت میر کارواں کی موت ہے
ہند کی تنہا نہیں،سارے جہاں کی موت ہے

پو پھٹتے ہی لوگ طویل زندگی کی دعا مانگتے ہیں،صحتوں کے لیے گڑگڑاتے ہیں۔کسے خیال تھا کہ عین اسی وقت اس کو اٹھالیا جائے گا جس کا وجود ملت اسلامیہ کا وجود تھا۔۔اور جس کی موت عالم اسلام کی موت تھی۔۔۔۔پچھلے دس سال کے عرصے میں مسلم امہ پر کیا کچھ نہیں گزرا ۔۔کون سا غم تھا جو ملت اسلامیہ پر طاری نہیں ہوا۔۔۔کیسے کیسے سخن شناس بچھڑگئے،کیسے کیسے اکابر اٹھالیے گئے،بین الاقوامی سطح پر کیا کچھ نہیں جھیلنا پڑا۔۔حکومت نے ظلم وستم کے کتنے پہاڑ ڈھائیں۔۔۔۔کشمیر تہ و بالا ہوا،ہندو بنیوں نے ہر ابھرتی ہوئی آواز کو دبایا۔عراق میں خاک اڑی،برما تباہی کا شکار ہوا۔۔شام میں آسمان رویا،فلسطین میں زمین تھرائی،سقوط بابری پر خون کے آنسو ٹپکے اور دل چھلنی چھلنی ہوگیا۔۔۔یہ سب کچھ ہوا اور ہوتا رہا۔۔ایسے میں آپ کی ذات کا وجود گہرے زخموں کےلیے مرہم تھا ۔۔۔آہ! اس رمضان کے اخیر عشرے میں یہ سہارا بھی چھن گیا ۔۔۔مسند حدیث کا عظیم محدث ہم سے بچھڑ گیا۔۔۔بزم رشیدیت و تھانویت کا آخری چراغ بھی گل ہوگیا۔۔۔

کارواں سے دور آخر رہنما کیوں ہوگیا
مدتوں کا آشنا ناآشنا کیوں ہوگیا

میرے ان ٹوٹے پھوٹے کلمات اور بےربط جملوں سے حضرت شیخ الحدیث قدس سرہ کی شان میں قطعاً اضافہ نہیں ہو رہا۔ میں تو حضرت رئیس المحدثینؒ کے نام اور نسبت سے خود کو امر کرنا، اپنی تحریر کو دوام بخشنا اور اس فہرست میں شامل ہونا چاہتا ہوں جس میں مداح سعید شامل ہوں گے۔۔۔

ترا ثانی کہاں پیدا___فقط کہنے کی باتیں ہیں
اگر سارا زمانہ مان لے گا_____ہم نہ مانیں گے

#جامع_کمالات_شخصیت:

کاروان حق کے روح رواں،اسلامی علوم کے بحربیکراں،فکرولی اللہی کے بے مثال شارح و باکمال ترجماں، فکر نانوتوی اور منہج گنگوہی کے امین و پاسباں.......چمنستان قاسمیت کے شیریں سخن باغباں رئیس المحدثین حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری قدس سرہ ایک باکمال شخصیت کا نام تھا،آپ جامع کمالات تھے،برصغیر کے افق پر فروزاں اہل السنہ کے دونوں کلیدی مرکز(دارالعلوم و مظاہرعلوم) سے آپ کا خمیر اٹھاتھا،
آپ نے جلیل القدر شیخ الحدیث حضرت شیخ زکریا۔علوم انوری کے محافظ حضرت فخرالمحدثین،امام المعقولات والمنقولات حضرت بلیاوی،حکیم الاسلام حضرت قاری طیب،فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی،مناظر اسلام حضرت مولانا منظور نعمانی،مفکر اسلام حضرت علی میاں رحمہم اللہ جیسی متعددعبقری شخصیات کا جلوہء جہاں آرا دیکھا تھا۔۔۔

آپ وقت کے بخاری و مسلم،ابن حجر و علامہ عینی،ابن الہمام و ابن تیمیہ۔ رازی و غزالی اور رومی و سعدی کے شاگرد تھے۔۔۔۔جس نورانی ماحول میں آپ نے تربیتی مراحل طے کیے وہ جنید و شبلی کی آماجگاہ اور وقت کے قاسم و رشید کی درسگاہ تھی،یہی وجہ تھی کہ آپ ایک جامع الکمالات شخصیت بن کر ابھرے اور اہل علم کے سرتاج بن کر چمک اٹھے۔۔۔۔آپ کی شخصیت معمولی نہیں؛بل کہ غیر معمولی تھی،آپ متون کے حافظ تھے،سہل نگار مصنف اور زود نویس قلم کار تھے، تدریس و تصنیف کا مجمع البحرین تھے،آپ کی فرقت نے ہر شخص کو سکتہ میں ڈال دیا ہے،برصغیر کی علمی مجالس ایک عظیم سرپرست سے محروم ہوگئیں۔۔آہ
کاروان حق کا میرکارواں خاموش ہے!

#فن_حدیث_کا_بحر_بیکراں:

یوں تو آپ کو تفسیر و لغت،فقہ و ادب،نحو و صرف اور منطق و فلسفہ میں گہرا درک حاصل تھا؛مگر خصوصا فن حدیث پر آپ ید طولی رکھتے تھے،تمام اسلامی علوم میں سب سے زیادہ وابستگی اسی فن سے تھی۔حضرت فخرالمحدثین کے خصوصی فیض یافتہ تھے،جس کی بناپر آپ محدثانہ شان عبقریت کے حامل تھے۔۔حدیث کی "امہات الکتب" کا عرق ریزی سے دیر رات تک مطالعہ کرتے اور نوادرات نوٹ کرتے جاتے۔۔روایت سے زیادہ درایت پر نظر تھی۔۔۔۔آپ کی محدثانہ عظمت کے لیے کیا یہی کم تھا کہ آپ دارالعلوم دیوبند جیسی عظیم علمی درس گاہ کے شیخ الحدیث تھے؛لیکن اس سے بڑھ کر یہ کہ آپ کے تصنیفی کارناموں سے بھی کامل ترین محدثانہ ذوق کا پتہ چلتا ہے۔"تحفہ القاری" اور____"تحفہ الالمعی" آپ کے بیش قیمت دروس کا مجموعہ ہے،اول الذکر بخاری اور ثانی ترمذی کے دروس پر مشتمل ایک قابل استناد لٹریچر ہے۔۔دونوں کتابیں کئی جلدوں پر مشتمل ہیں۔۔ جن سے آپ کے محدثانہ افکار سامنے آتے ہیں۔۔۔اپنے اکابرین کے افادات کا سامنا ہوتا ہے۔ہر ہر سطر سے آپ کی فن حدیث میں مہارت کا پتہ چلتا ہے۔۔۔بخاری اور ترمذی کی ان شروحات میں آپ کی اخاذ طبیعت سے نکلے ہوئے قابل قدر ملفوظات پر نظر پڑتی ہے۔۔۔۔۔وہ صحیح معنوں میں رئیس المحدثین تھے،فن حدیث سے محبت آپ کے دل کی گہرائی میں اتری ہوئی تھی۔۔۔کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی نورانی شخصیت اور آپ کے پاکیزہ اقوال و افعال سے گہری شیفتگی تھی۔۔ انھیں محدثین کے جتھہ سے حقیقی وارفتگی اور حدیث کی مصنفات سے دلی وابستگی تھی۔۔۔۔

آپ کی عبقری شخصیت اس وقت ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے جس کلیدی عہدہ پر فائز تھی وہ روایتی طور پر محض "صدر مدرسی" اور فقط "شیخ الحدیث" کا منصب نہیں تھا ؛ بل کہ ایک عمومی مقتدائیت کا عہدہ تھا۔۔جس پر منجانب اللہ ایسی ہی ممتاز شخصیات فائز ہوتی رہی ہیں۔جس مسند پر کبھی شیخ الہند رح نے بیٹھ کر حدیث کا درس دیا۔۔۔محدث کشمیری نے جس مسند سے ابن حجر و ذہبی کی یاد دلائی،شیخ العرب و العجم نے جہاں سے آقائے مدنی کے ترانے سنائیں آپ کی ذات اسی مسند کی برصغیر میں تنہا وارث تھی۔۔۔اسی لیے دور دراز ریاستوں سے علماء کے قافلے آپ کے درس کی سماعت کے لیے دارالعلوم میں حاضر ہوتے،خصوصا بنگلہ دیش کے علماء کا ایک قافلہ ہر سال اسی مقصد کے لیے دارالعلوم میں پناہ گزیں ہوتا۔۔۔بلاشبہ وہ بلند پایہ محدث تھے اور برصغیر میں علماے عصر کے درمیان ایک اہم ستون سمجھے جاتے تھے۔۔۔۔وہ جب حدیث کا درس دیتے تو سچ مچ محسوس ہوتاکہ "بلبل چہک رہا ہے ریاض رسول میں"وہ صحرائی ندیوں کی طرح دھیمی رفتار سے بہتے اور مسلسل و بلا انقطاع بہتے۔گویا وہ بولتے تو موتی رولتے۔۔۔۔
جس کی خاموشی میں پنہاں لذت گفتار تھی
جس کی ہر آواز باطل کے لیے تلوار تھی۔۔۔۔

#مسلک_دارالعلوم_کا_شارح:

دارالعلوم کا ہرفرزند اس بات پر کامل یقین رکھتا ہے کہ مفتی صاحب مسلک دارالعلوم کے عاشق صادق اور اس مسلک کے سرگرم ترجمان تھے،وہ اسلاف کی روایتوں کے محافظ اور تحریک ولی اللہی کے نمایاں رکن تھے، حکیم الاسلام حضرت قاری طیب رحمہ اللہ نے جس دیوبندیت کا امتیازی انداز میں تعارف کرایا ہے،علامہ اقبال نے جس دیوبندیت کو معتدل مسلک قرار دیا ہے،آپ کے اندر اسی اعتدال کا عکس تھا؛بل کہ آپ کی شخصیت اعتدال کا کوہ گراں تھی۔۔۔۔اسی لیے وہ ہمیشہ غلو کے خلاف آواز بلند کرتے،چیخ چیخ کر نت نئی بدعات کا رد کرتے،قرآن و سنت سے سرمو انحراف نہ کرتے،دیوبندیت کی خوبیوں کا برملا نغمہ سناتے،دیوبندیت میں حوادث زمانہ کی بناپر درآنے والی خامیوں پر تنقید کرتے،دم دار انداز میں غلط کو غلط کہتے۔۔ان کے ہاں غلو کا ذرہ برابر گذر نہ تھا۔ہر چیز میں اعتدال آپ کی خصوصیت تھی۔۔۔
ہماری جماعت کی موجودہ صف میں عالم،مفتی،داعی،مفسر،محدث،مصنف،ادیب اور سحرانگیز خطیب کی کوئی کمی نہیں۔۔۔ "ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں" لیکن جس شخصیت میں یہ ساری صلاحیتیں بھرپور انداز میں،اعتدال و توازن کا عنصر باقی رہتے ہوئے مطلوبہ معیار پر موجود ہوں وہ اس وقت تنہا حضرت رئیس المحدثین کی ذات تھی۔۔۔آپ کو بین الاقوامی سطح پر ترجمان دیوبندیت ہونے کا شرف حاصل تھا...

 اعتدال اہل السنہ والجماعہ "دیوبند" کا امتیازی وصف ہے۔۔جس میں افراط ہے نہ تفریط۔۔اس اعتبار سے آپ ہند میں سرمایہء ملت کے نگہبان اور اس دور آخر میں خیرالقرون سے تواتر کے ساتھ چلتی ایمانی و عملی وراثت کے پاسبان تھے۔۔۔
آپ کو برصغیر میں اجماعی طور پر دینی سربراہ ہونے کا شرف اور ملت اسلامیہ کی ایمانی قیادت کی باگ ڈور حاصل تھی۔۔۔۔نیز آپ کی مقناطیسی شخصیت کو "تلقی بالقبول" کا مقام حاصل تھا۔۔۔۔گویا آپ شخص نہیں عظیم شخصیت تھے.....فرد نہیں انجمن تھے..

گذشتہ سال خبر موصول ہوئی تھی کہ آپ دارالعلوم دیوبند کے منہج و مسلک اور فکری جامعیت پر ایک جامع لٹریچر مرتب کر رہے ہیں،جس کے لیے سوشل میڈیا پر باضابطہ اعلان بھی شائع ہوا تھا۔۔۔اس کی تکمیل کا علم تو نہیں،اللہ کرے وہ کام پایہء تکمیل کو پہونچ گیا ہو۔۔۔۔۔اس خدمت سے بھی دارالعلوم اور مسلک دارالعلوم کے تحفظ کی فکر و کڑھن کا پتہ چلتا ہے۔۔۔۔۔آپ کے مزاج میں تصلب اور پختگی تھی،دارالعلوم دیوبند فکرولی اللہی کا امین اور اس کی اشاعت نو کے لیے ابتدا ہی سے برسر پیکار ہے،آپ کی ذات فکر ولی کا عکس تھی،آپ نے محدث دیار ہند شاہ ولی اللہ قدس سرہ کی کی کتاب"حجہ اللہ البالغہ" کی ایک ضخیم اور مبسوط شرح لکھ کر ڈھائی سو سال سے چڑھا ہوا قرض چکادیا۔۔۔

علمی مباحث ہوں،یا فرق و مذاہب یا پھر نظریات و رجحانات ان کے درمیان ایسا موازنہ اور عمدہ تجزیہ کرتے کہ بڑے بڑے تحقیقی ذوق رکھنے والے مطمئن ہوجاتے۔۔۔ باطل فرق و مذاہب کے مزاج و مذاق اور ان کے زیغ و ضلال اور طریقہء اضلال پر آپ کی نگاہ ہمہ گیر تھی۔۔۔صدق گوئی اور اظہار حق میں اپنے اکابر کا پرتو تھے،ملامت کی پرواہ کیے بغیر جس کو حق سمجھتے دوٹوک انداز میں کہہ ڈالتے۔۔۔
آپ نے جس طرح شاہ ولی اللہ کے افکار کو متعارف کرایا ٹھیک اسی طرح "افادات قاسمی" کے نام سے حضرت نانوتوی کے افکار کی تسہیل کا بھی کام کیا۔اس کے علاوہ حضرت شیخ الہند کی ایضاح الادلہ پر جامع ترین کام کیا یہ تمام وہ اوصاف ہیں جن کی بناپر آپ کو فلفسہء ولی اللہی کا امین اور افکار نانوتوی کا شارح کہاجاتا ہے۔۔۔۔

خوش قسمت ہیں وہ جنھوں نے آپ سے استفادہ کیا،علوم و فنون کے شیریں جام سے سیراب ہوئے۔۔حدثنا اور قال اللہ و قال الرسول کے نغمات سے لطف اٹھایا اور اس طرح یہ اربوں فیض یافتگان آپ کے روحانی وارث بن گئے۔۔۔۔دیگر اربوں خواہش مندوں اور حدیث کے طالب علموں کو تشنہ لب چھوڑ کر آپ موت کے آغوش میں چلے گئے۔۔۔اور عقبی کی راہ کے راہی بن گئے!!

موت کے آغوش میں ہنستی ہے جن کی زندگی
ان کو دیکھا ہے حیات جاوداں کی گود میں!