اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: علم وادب کا بےمثل شہسوار اسعداللہ بن سہیل احمداعظمی

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Friday 24 July 2020

علم وادب کا بےمثل شہسوار اسعداللہ بن سہیل احمداعظمی

علم وادب کا بےمثل شہسوار
                         
          اسعداللہ بن سہیل احمداعظمی

اردو زبان کی خوش قسمتی ہے کہ ہر دور میں اس کی آبیاری کرنے والے، اس کو دل سے لگانے والے، اور اس کی زلفیں سنوارنے والے موجود رہے ہیں۔


قابل ذکر  وخوشی کی بات تو یہ ہے کہ ناسازگار حالات کے باوجود یہ سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے، منصوبہ بند مخالفتوں کے باوجود اردو کے چاہنے والے اس کی خدمت کو آج ایک ضروری فرض سمجھ کر انجام دے رہے ہیں۔ اس پس منظر میں وہ قدر مستحق تحسین قرار پاتے ہیں جو حوصلے اور ستاٸش کی تمنا کٸے بغیر اپنے فرض کو نبھارہے ہیں۔ جو قلمی جہاد سے اردو کو سرخ رو اور سربلند کرنیکی کوششوں میں مصروف ہیں۔

انہی افراد میں سے دور حاضر کے نامور ادیب مکرم ومحترم مولانا ابن الحسن عباسی صاحب بھی ہیں۔ جن کی تحریروں میں بلاکی جاذبیت اور کشش ہوتی ہے، جوانی کی ترنگ اور شباب کی جولانیاں ہر قدم پر بہاروں اور سبزہ زاروں کی صورت میں نظرآتی ہے، اسلوب تحریر کی دلکشی ورعناٸی لفظ لفظ سے پھوٹی پڑتی ہے، قاری جب محو قرأت ہوتاہے توطرز تحریر میں کہیں تکرار والجھاٶ محسوس نہیں کرتا ہے بلکہ ایک ہی دھن میں مکمل پڑھنے کی چاہت رکھتاہے۔ اور یہ کیفیت ہوجاتی ہے کہ:   
    *چاہا بھی اگر ہم نے تری بزم سے اٹھنا*
   *محسوس ہوا پاٶں میں زنجیر پڑی ہے*
                         
ہندستان کے بہترین ادب کے شناور حضرت مولانا ومفتی شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی نے  آپ(ابن الحسن عباسی) کی تحریروں میں غوطہ زنی کرکے الفاظ کے سانچوں میں ڈھال کر کچھ یوں پیش کیاہے:
       "آدمی جب ان کی تحریروں کا مطالعہ کرتاہے تو وہ کبھی خود کو شورش کی محفل میں تصورکرتاہے، کبھی عامر عثمانی کے جہاں میں، کبھی اسے وہ تحریریں آزاد کی وادیاں معلوم ہوتی ہیں، کبھی حالی وشبلی کے دبستانِ صد رنگ کی پرکیف فضا، کبھی ماہر القادری کا بانکپن محسوس کرتاہے، تو کبھی دریاآبادی کے مخصوص لہجہ واسلوب کاچمن زار دلنواز، غرض انہوں نے تمام صف اول کے ادیبوں کے امتیازی اوصاف کو اپنی تحریروں میں نچوڑ کر ایک نٸے اسلوب کی دریافت کی ہے، اور اسی انفرادیت کا نقش قاٸم کرنے میں وہ اس قدر کامیاب ہیں کہ اچھے اچھے شہرت یافتہ ادیب وانشا ٕ پرداز ان کے اسلوب پر عش عش کرتے ہیں۔۔۔۔دیکھٸے(ماہنامہ النخیل شعبان ١٤٤٠ھجری)

واضح رہے کہ اپ کا اصل نام مسعود عباسی ابن مخدوم عباسی ہے قلمی نام ابن الحسن عباسی 1972کی پیداٸش 1993میں دارالعلوم کراچی سے فراغت، فراغت کے معابعد سے 2010تک جامعہ فاروقیہ کراچی میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ 2010 از تاحال جامعہ ترات الاسلام کراچی کےشیخ الحدیث  بانی ومہتمم ہیں۔

آپ کے گہربار قلم سے اب تک ایک درجن کے قریب  تصنیفات منظر عام پر آچکی ہیں جن میں دو شرحیں بھی ہیں۔

متاع وقت کاروان علم، کرنیں، داستاں کہتے کہتے، کتابوں کی درسگاہ میں، التجاٸے مسافر، مدارس ماضی حال مستقبل، کچھ دیر غیرمقلدین کیساتھ، وفاق المدارس ساٹھ سالہ تاریخ، درس مقامات حریری، توضیح الدراسہ شرح حماسہ، کتب نما،

اول الزکر چار کتابیں بندے کے پاس موجود ہیں لہذا انھیں کا مختصر سا تعارف پیش کرنے کی جرأت کررہاہے۔

 *"متاع وقت اور کاروان علم"* ٢٤٧ صفحات پر مشتمل یہ کتاب مصنف کو انشاء پردازی، اور سحر انگیز اسلوب میں قوت اظہار کے حوالے سے اقبال مندی وسربلندی کا تمغہ دلانے کےلئے کافی ہے جیساکہ نام ہی سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کتاب کا موضوع کیاہے؟۔لہذا اس کو بیان کرنے کی ضروت نہیں، زبان کی شگفتگی، اانداز بیان کی برجستگی وبے ساختگی کے اعتبار سے یہ کتاب ادب کاایک شاہ کار اور شہ پارہ ہے۔۔اس کی ایک مثال بھی لے لیں مصنف مفتی تقی صاحب کے متعلق کچھ یوں رقم طراز ہیں۔۔
دینی مدارس کی زندگی کے خاموش دریا میں وہ"موج تند جولاں" اب بہت کم اور بڑی مدت کے بعد اٹھتی ہے، جس سے نہنکوں کے نشیمن تہہ وبالا ہوجاتے ہیں، لیکن ان مدارس کا یہ المیہ کامیابی ہے نایابی نہیں۔ دینی مدارس  کے سادہ اور محدود ماحول میں، عقابی روح اور سینے میں شاہین کا جگر رکھنے والے، جرأت رندانہ وقوت قلندرانہ کے مالک، خود اعتمادی وخود شناسی کے جوہر سے آراستہ اور تحریر وتقریر کی غیر معمولی صلاحیت سے پیراستہ ایسے "دیدہ ور" اب بھی پیدا ہوتے رہےہیں جن کے مطالعہ کی وسعت اورعلم کی پختگی کے سامنے بڑی سے بڑی ملکی یا بیرونی دانش گاہ کے فضلا ٕ اور مغربی زبان کے ماہرین کا چراغ نہیں جلتا۔ اسکی ایک مثال استاذ محترم مولانا ومفتی تقی عثمانی صاحب ہیں۔(کتاب مذکورہ:ص/٢٤٣)

 *"کتابوں کی درسگاہ میں"* یہ کتاب ٢٢٣صفحات پر مشتمل مختلف  گل ہاٸے رنگہا رنگ موتیوں کا ایک علمی گلدستہ ہے دراصل دوران مطالعہ جو واقعات ولطاٸف دل کو بھاٸے مصنف نے اس کو قلمبند کردیا۔۔انداز بیاں سلیس ودلربا ہے۔ مثال کے طورپر کتاب مذکورہ کے صفحہ/167 پر 'صبح'کی رنگینی اور اس کے جمالیاتی کائنات کو دیکھیں،جس کی صورت گری کرتے ہوئے مصنف کا قلم کچھ یوں لفظوں سے کھیلتاہے:
    جب لیلئ  شب زلفیں سمیٹتی ہے، اندھیر کھسکتے ہیں، خاموشی رختِ سفر باندھتی ہے، ستارے دم توڑتے ہیں، شبنم پھولوں کو وضو کرانے آتی ہے، روشنی کے لمس سے زندگی کے وجود میں سرشاری دوڑتی چلی جاتی ہے، لمحوں کے چہرے پر رنگیتی تاریکیاں چھٹنے کو آتی ہیں اور پوپھوٹنے لگتی ہے، تب طیور آشیانے چھوڑجاتے ہیں، ڈالیوں بنے نشیمن خالی ہوتے چلے جاتے ہیں، دہقاں کھیت کے کنارے شانہ  ہلاتاہے، غنچے چٹکتے، گل مہکتے ہیں، صبا بکھرتی، گلستان نکھرتے ہیں، عندلیب چہکنے اور جگنوبن کر ہرذرہ بیاباں چمکنے لگتاہے۔۔۔۔۔یقیناً کاٸنات کی بزم میں طلوع سحر کا یہ پرکیف سماں قدرت کے شاہکار مناظر میں سے ہے۔ ،،

 *"کرنیں"* یہ کتاب ٣٠٢صفحات پر مشتمل مختلف مضامین کا علمی ومعلوماتی دستاویز ہے انداز بیاں منفرد وجداگانہ ہے صفحہ/٦٩ پر ایک مضمون کا آغاز کچھ یوں ہوتاہے:
  ہمارا یہ دور مسلمانوں کے لٸے موسم درد والم ہے، اس عہدِ ستم پر نہ جانے کتنے مرتیے کہے گٸے اور نہ معلوم کب تک کہے جاٸیں گے۔۔۔ ایک درد مند مسلمان کے ساز جگر چھیڑنے والے خونچکاں مناظر کی ہر سو پھیلی ویرانیوں میں جب دل کےپردوں سے نالے پھوٹتے ہیں تو لفظ وبیان اور تعبیر وزبان کا سانس ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے۔

 *"داستاں کہتے کہتے"* ١٥٩ صفحات پر مشتمل یہ کتاب بھی ملک کے مقبول اخبارات ورسائل میں لکھے گئے مختلف مضامین کا مجموعہ ہے صفحہ ٦١ پر مسلم قوم کی ترقی کے متعلق مصنف کا قلم سرچڑھ کر کچھ یوں بول رہاہے:
  ہماری ترقی کی راہ میں صرف وساٸل کی کمی رکاوٹ  نہیں بلکہ وساٸل کا صحیح استعمال اور من حیث القوم ان کے درست کی تربیت کا فقدان بھی ہماری ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ تربیت ہمیں اسلام نے فراہم کی ہے اور اس قدر اعلیٰ طریقے سے فراہم کی ہے کہ اس سے بہتر کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا، لیکن ہم نے اسلام کی وہ اعلی تربیت تیاگ دی ہے، نتیجتاً ہمارے قومی مزاج میں بگاڑ آگیا اور یہی بگڑا ہوا مزاج ترقی کے لٸے سدّ راہ ہے۔۔۔۔علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں۔۔

ان تحریروں کے پڑھنے کے بعد آپ کی شخصیت علامہ اقبال کے کہے ہوٸے اس شعر کی حقیقی مصداق لگ رہی ہے۔۔     

 *ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے*
        *بڑی مشکل سے ہوتا ہے*      *چمن میں دیدہ ورہ پیدا*

فی الحال آپ عمر کی48 ویں بہاریں دیکھ رہے ہیں دعا ہے حق جل مجدہ سے آپ کی عمروں میں خوب برکت عطافرماٸے اور آپ کے علمی، ادبی، تحقیقی، معلوماتی فیضان کو اسی طرح جاری وساری رکھے۔۔۔ *آمین*