اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: محمد سمیع کی وائف پر چرچا یا اسلام پر بے جا اعتراض کی کوشش: آفتاب اظہر صدیقی

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday 26 December 2016

محمد سمیع کی وائف پر چرچا یا اسلام پر بے جا اعتراض کی کوشش: آفتاب اظہر صدیقی

معروف کرکٹر محمد سمیع نے اپنی وائف کے ساتھ کھینچی گئی چند تصاویر جب فیسبک پر اپلوڈ کیں تو چند غیر معروف افراد نے ان کی اہلیہ کے ادھ کچے لباس پر نصیحتی کمینٹس کردی بس اسی کو مدعا بنا کر مودی بھکت میڈیا نے بات کا بتنگڑ اور رائی کا پہاڑ بنا دیا، اس پر ڈبیٹس کرائی گئیں، اسلامی اصول و قانونِ الٰہی سے یکسر ناواقف نیوز اینکرز نے اسلام سمجھانا شروع کردیا، چند دین فروش مسلمان بھی ان کے منھ میں منھ دے کر ان ہی کی ہانکنے لگے، میں نے "نیوز انڈیا"چینل پر ایک مودی بھکت نیوز اینکر سمیت اوستھا کو سنا تو بہت حیرانی ہوئی کہ آزادی، حقوق اور مساوات و انصاف کے نام پر کس طرح سے اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، چند لبرل قسم کے مسلمانوں کو ڈبیٹ میں لایا جاتا ہے پھر ان سے محمد سمیع کی وائف کی بے پردگی کے تعلق سے رائے لی جاتی ہے اور چند صحیح الفکر دانشوران کو ان سے بھڑا دیا جاتا ہے کہ لو تم آپس میں ہی لڑ کر اپنے مذہب کا فیصلہ کرو تاکہ عوام کو زیادہ موقع ملے اسلام پر انگلی اٹھانے کا. اس مودی بھکت میڈیا کا اصلی چہرا کچھ اور ہے یہ پس پردہ اسلام مخالف پالیسیوں پر عمل کر رہا ہے. میڈیا بتانا چاہتا ہے کہ اسلام نے عورت کو آزادی نہیں دی، اسلام نے صنف نازک کے حقوق سلب کیے ہیں، وہ دکھانا چاہتا ہے کہ اسلام کے اصول پر کوئی عورت راضی ہوکر نہیں چلنا چاہتی لیکن حقیقت اس کے بالکل برخلاف ہے، چند نام نہاد عیاشی پسند عورتوں کے کہہ دینے سے نہ تو اسلامی اصول سخت قرار دیے جا سکتے ہیں اور نہ شرعی لباس کو عورت کے لیے مجبوری کہا جاسکتا، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اسلامی اصول کے دامن میں عورت کی نجات ہے، حجاب عورت کی حفاظت کا سامان ہے، پردہ عورت کی زینت ہے اور گھریلو زندگی عورت کے لیے شاہانہ زندگی ہے. یہ صحیح ہے کہ اسلام میں کوئی زور زبردستی نہیں، کوئی شرعی زندگی گزارے تو اپنی آخرت سنوارے، کوئی مسلمان ہوکر شریعت کا پابند نہ ہو تو اپنی آخرت خراب کرے، کوئی کسی کو شریعت کے مطابق چلنے پر مجبور نہیں کرسکتا؛ لیکن مسلمان ہونے کے ناطے نصیحت تو کرسکتا ہے، ہاں! ہو سکتا ہے کہ ان کمینٹس کرنے والے فیس بک یوزر کا ناصحانہ انداز غلط ہو؛ لیکن یہ اتنی بڑی بات تو نہ تھی کہ اس پر باضابطہ تکرار شروع کردی جائے اور ٹی وی چینلوں پر ڈبیٹ کی جائے، سوچنے اور غور کرنے کا مقام ہے کہ آخر یہ مودی بھکت میڈیا کیا چاہتا ہے؟