اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: شیخ اکبر محی الدین محمد ابن العربی پر ایک نظر!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Tuesday 21 February 2017

شیخ اکبر محی الدین محمد ابن العربی پر ایک نظر!


تحریر: محمد عاصم اعظمی
ریسرچ اسکالر حجة الاسلام اکیڈمی دارالعلوم وقف ديوبند
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شیخ اکبر محی الدین محمد ابن العربی آپ شیخ اکبر کے نام سے مشہور ہیں آپ کا نام محمد ابن العربی کنیت ابوبکر اور لقب محی الدین ہے آپ تصوف اور راہ طریقت میں شیخ اکبر کے نام سے مشہور ہیں صوفیا میں کسی نے آج تک اس لقب کو کسی دوسرے کے لیے استعمال نہیں کیا شیخ اکبر محی الدین محمد ابن العربی الحاتمی الطائی الأندلسی کی پیدائش 25 جولائی بروز اتوار 1165 عیسوی مطابق 17 رمضان المبارک 560 ہجری کو اندلس کے شہر مرسیہ میں ہوئی آپ کا تعلق عرب کے مشہور قبیلے طے سے تھا آپ کے جد اعلی حاتم طائی عرب قبیلہ بنو طے کے سردار اور اپنی سخاوت کے باعث صرف عرب ممالک میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں مشہور تھے ان کی نسل سے آپ کا خاندان زہد وتقوی عزت اور دولت میں اہم مقام رکھتا تھا ابن العربی ابھی آٹھ ہی برس کے تھے کہ مرسیہ پر مؤحدون کے قبضہ کر لینے کے نتیجہ میں آپ کے خاندان کو وہاں سے ہجرت کرنا پڑا ابتدائی تعلیمی مراحل تو آپ مرسیہ اور لشبونہ(لزبن) میں طے کر چکے تھے اس کے بعد آپ اشبیلیہ آئے جہاں آپ 598 ہجری تک مقیم رہے اس عرصے کے دوران آپ حصول علم میں ہمہ تن مصروف رہے اور تمام علوم متداولہ مثلاً قرأت، تفسیر، حدیث، فقہ، صرف، نحو، ریاضی، فلسفہ، نجوم،حکمت،اور دیگر علوم عقلیہ میں کامل دسترس حاصل کی آپ نے اپنے دور کے نامور اعلی مقام اساتذہ سے اکتساب فیض کیا آپ کے مشائخ اور اساتذہ کی تعداد تقریباً 70 تک پہنچتی ہے
ابن العربی کی غیر معمولی صلاحیت اور علم کا چرچا اندلس میں پھیلنا شروع ہوا، تو مشہور فلسفی اور قرطبہ کے قاضی القضاۃ ابو الولید ابن رشد نے آپ کے والد سے کہا کہ کسی وقت اپنے بیٹے کو میرے پاس بھیجیں۔
اس ملاقات کا حال ابن العربی نے فتوحات مکیہ میں خود ان الفاظ میں بیان کیا ہے : " میں ایک روز قرطبہ میں وہاں کے قاضی ابو ولید بن رشد کے پاس گیا ۔ انہیں میری ملاقات کا شوق تھا ، اس سبب سے، جو انہوں نے میرے بارے میں سن رکھا تھا اور مجھ پر اللہ نے میری خلوت میں جو اسرار کھولے تھے ، جن کے بارے میں ان کو پتا چلا تھا ۔ وہ ان سنی ہوئی باتوں پر تعجب کا اظہار کرتے تھے ۔ میرے والد نے مجھے کسی حاجت کے سلسلے میں ان کے پاس بھیجا، اس قصد کے ساتھ کہ وہ مجھ سے ملیں ، کیونکہ وہ آپ کے دوستوں میں سے تھے۔ اور میں ابھی بچہ تھا ۔ میری مسیں ابھی نہ بھیگی تھیں۔ جب میں داخل ہوا، تو وہ محبت اور تعظیم کے لئے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور مجھ سے معانقہ کیا۔ پھر مجھ سے کہا: ہاں۔ میں نے ان سے کہا: ہاں۔ اس پر ان کو بہت خوشی ہوئی کہ میں نے ان کی بات کو سمجھ لیا تھا ۔ پھر میں جان گیا کہ وہ کیوں اس بات پر خوش ہوئے تھے ، تو میں نے ان سے کہا: نہیں۔ اس پر ان کو انقباض ہوا اور ان کا رنگ بدل گیا ۔ اور انہیں اپنے علم کے بارے میں شک پیدا ہوا۔
انہوں نے کہا: تم نے کشف اور فیض الٰہی میں اس امر کو کیسا پایا۔ کیا وہ وہی کچھ ہے ، جو ہمیں سوچ و بچار سے ملتا ہے ؟ میں نے کہا: ہاں اور نہ اور ہاں اور نہ کے مابین روحیں اپنے مواد سے اور گردنیں اپنے اجسام سے اڑتی ہیں۔ ان کا رنگ زرد پڑ گیا اور وہ کانپنے لگے اور بیٹھ کر لاحول ولا قوة پڑھنے لگے اور وہ اس چیز کو جان گئے جس کی جانب میں نے اشارہ کیا تھا ۔ اور یہ عین وہی مسئلہ ہے ، جس کا ذکر اس قطب امام یعنی مداوی الکلوم نے کیا تھا ۔ اور اس کے بعد انہوں نے میرے والد سے مجھ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تا کہ وہ میرے سامنے اس چیز (علوم) کو پیش کر سکیں ، جو ان کے پاس تھے یہ جاننے کے لئے کہ کیا وہ موافق ہے یا مخالف۔ کیونکہ وہ ارباب فکر اور (اصحاب )نظر و عقل میں سے تھے ۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا
تصانیف
تصانیف اور تالیفات کی کثرت کے اعتبار سے ابن العربی عالم اسلام کی ایک ایسی نابغہ روزگار شخصیت ہیں جن کی ہمسری کا دعوی نہ کسی نے آج تک کیا اور نہ ہی مستقبل میں اس کے کوئی آثار نظر آتے ہیں۔ اگرچہ ہماری اسلامی تہذیب کا یہ خاصہ رہا ہے کہ کتاب اور معلم کے درمیان ہمیشہ سے نہ ختم ہونے والا سلسلہ رہا ہے۔ بہت بڑے بڑے نام اپنی علمی تحریروں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ عثمان اسماعیل یحییٰ کے بقول شیخ اکبر ابن العربی سے 846 کتابیں اور رسائل منسوب ہیں۔ ان میں سے آدھے تقریبا 400 کے قریب آپ کی ذاتی تصنیفات ہیں جن میں کسی دوسری کتاب کا حوالہ اور جمع کیا گیا مواد بہت کم ہے، بعنی جتنا بھی لکھا خود سے لکھا یااُن سے لکھوایا گیا۔
اپنی کتاب ’’الفتوحات المکیۃ‘‘ میں اذان کے بارے میں کلام کرتے ہوئے فرمایا: ’’جان لو کہ بحمد اللہ میں نے اپنی اس کتاب میں اور باقی کتب میں غیر مشروع امر کی تقریر نہیں کی اور اپنی تمام کتابوں میں قرآن و سنت سے باہر نہیں نکلا‘‘
ایک اور جگہ (366باب فتوحات) میں فرماتے ہیں: ’’میں جو کچھ اپنی کتابوں میں لکھتا ہوں وہ فکر اور روایت سے نہیں وہ تو القاء ہے جو میرے دل میں الہام کیا جاتا ہے‘‘
ابن العربی پر جو علم بھی الہام ہوا، آپ نے اس کو ویسے کا ویسے اپنی کتب میں لکھ دیا۔ یہ علم ذوق اور تجلی الٰہی سے ہی ہے اور ایسے الہام کا نتیجہ ہے جو املاء کروایا جاتا ہے۔ اسی لئے شیخ اکبر کے علوم زیادہ تر خلقت کیلئے نئے نئے سے ہیں۔ان میں وہ معارف ہیں جن کی طرف پہلے سے حائل شدہ پردے نہیں اٹھے۔ اپنے انہی علوم پر عوام کے انکار کی وجہ بھی شیخ اکبر کو پتہ تھی۔ اسی وجہ سے تو پہلے ہی کہہ دیا: ’’جو لوگ ان علوم کاانکار کرتے ہیں وہ صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ارباب علم کے پاس یہ علوم اجنبی اور غیر متعارف طریقوں سے آئے ہیں اور وہ کشف کے طریقے ہیں۔ جبکہ لوگوں نے صرف فکری راستوں سے آنے والے علوم کا ہی اقرار کیا ہے‘‘ اب جبکہ علوم دو راستوں پر تقسیم ہو گئے تو اگلی بحث یہ ہے کہ ان دونوں راستوں میں سے حق پر کون سا راستہ ہے ۔ کیا فکری علوم راہ راست پر ہیں یا کشفی علوم۔ حضور ﷺکی مشہور حدیث ہے :’’کل باطن یخالف الظاہر فھو باطل‘‘ یعنی ہر وہ باطن جو ظاہر کا مخالف ہے وہ باطل ہے۔ ابن العربی بھی اسی اصول کو لے کر چلتے ہیں۔ فتوحات کے 246باب میں فرماتے ہیں:’’میزان شرع کو اپنے ہاتھ سے چھوڑنے سے بچ بلکہ شرع کے ہر حکم پر جلدی کر‘‘ فرماتے ہیں: ’’ہمارے نزدیک کشف کو نص پر مقدم کرنا نہیں ہے کیونکہ اہل کشف کو بھی اشتباہ ہو جاتا ہے جبکہ صحیح کشف ہمیشہ ظاہر شریعت کے موافق ہی ہوتا ہے جس نے کشف کو نص پر مقدم کیا وہ اہل اللہ سے خارج ہو گیا اور نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہو گیا‘‘ علوم کشف ہوں یا علوم فکر دونوں ہی شرع کے تابع ہیں اور متبوع کبھی تابع سے آگے نہیں نکل سکتا۔ اسی طرح میزان ، شریعت ہے نہ کہ اہل عقل کی عقل اور نہ اہل کشف کا کشف، جو اس بات کو سمجھ گیا وہ اہل اللہ کہنے کا حقدار ہے۔
تعداد کتب و رسائل ابن العربی
ابن العربی کی علمی کثرت کا اندازہ لگانے میں سب سے بڑا مسئلہ ان کی کتب کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا ہے۔ بہت پہلے سے ہی علماء نے اس پر کام شروع کر دیا بلکہ شیخ اکبر نے خود ایک کتاب ’’فہرست المولفات‘‘ کے نام سے لکھی جس میں250 کتب اور رسائل کا ذکر کیا۔ تاہم بعد میں 632ھ میں دمشق کے ایوبی سلطان (سلطان ملک اشرف المظفر) کو دی گئی ایک علمی سند اور اجازت میں اپنی 290کتب اور رسائل کا تذکرہ کیا۔ بعد میں محققین نے شیخ کی وفات کے بعد اُن کی چھوڑی گئی علمی میراث کو ضبط احاطہ میں لانے کی کوشش کی۔ جن میں سے کچھ نام اور اُن کا کام درج ذیل ہے:
مولانا عبدالرحمن جامی نے انکی تصانیف کی تعداد500بتائی ہے۔
محمد رجب حلمی نے (قاہرہ1326ھ) میں تعداد284گنوائی۔
اسماعیل پاشا بغدادی نے475کتابوں اور رسائل کے نام لکھے۔
کورکیس عواد نے چھان بین کرکے527کتابوں تک دسترس پائی ہے۔
ڈاکٹر محسن جہانگیری نے اپنی کتاب ’’محی الدین ابن العربی، حیات و آثار‘‘ میں 511کتابوں کو شامل کیا ہے۔
عثمان یحیی نے اپنی کتاب: مؤلفات ابن العربی تاریخہا و تصنیفہا جو کہ فرانسیسی زبان میں لکھی گئی ہے، میں846 کتب اور رسائل کے نام گنوائے ہیں اور ہر کتاب اور رسالے کو ایک نمبر دیا ہے۔
مذہب اور مسلک
ابن العربی شروع میں مالکی مذہب پر کار بند تھے مگر منازل سلوک طے کرنے کے بعد آپ ایک ایسے مجتہد کے رتبے پر فائز ہو چکے تھے کہ تمام علوم گویا آپ کے سامنے عیاں ہیں۔ جس میں سے چاہتے ہیں ، لے لیتے ہیں۔ آپ نے تصوف میں گویا سلف صالحین کے مسلک کو اپنانے کی کوشش کی اور اپنے عقائد کی بنیاد شرع کے میزان پر رکھی۔ اپنے ایک رسالے میں اہل سنت کے لفظ سے اشارہ کرتے ہیں گویا وہ اپنے آپ کو اس حدیث کے تابع سمجھتے تھے۔ جس میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ اسلام میں بھی73فرقے ہوں گے۔ اور اُن میں سے صرف ایک راہ حق پر ہو گا اور یہ لوگ اس طریق پر ہوں گے جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں۔
اسفار شیخ اکبر
شیخ اکبر نے اپنی زندگی کے پہلے 36 سال مغرب میں اور دوسرے36 سال مشرق کی سیاحت اور اسفار میں گزارے۔ ابن العربی نے پہلی بار اندلس کی سر زمین سے باہر کا سفر کیا ۔ آپ نے تونس میں ابوالقاسم بن قسی ۔جومغرب (مراکش) میں المراودون کے خلاف اٹھنے والے صوفیوں کے بانی قرار دیئے جاتے ہیں ۔اسی سفر کے دوران آپ کی ملاقات ابو محمد عبد العزیز بن ابو بکر القریشی المہدوی کے ساتھ ہوئی۔ اشبیلیہ سے آپ سب سے پہلے مورور گئے۔ جہاں آپ کی ملاقات مشہور صوفی عبداللہ بن استاد موروری سے ہوئی۔ اُن کی فرمائش پر اپنی کتاب ’’التدبیرات الالھیۃ فی اصلاح المملکۃ الانسانیۃ ‘‘ تحریر کی
586ھ ہی میں قرطبہ گئے جہاں ملاقاتوں کے علاوہ گزشتہ امتوں کے تمام اقطابوں کو عالم برزخ میں دیکھا اور اُن کے اسماء سے آگاہ ہوئے۔ اسی سال الہامات کی شکل میں کتاب تدبیرات الہیہ کی ابتدا ہوئی۔
589ھ میں سبتہ گئے۔
590ھ میں حاکم شہر کے بلانے پر تیونس گئے اور وہیں ابو القاسم ابن قسی کی کتاب ’’خلع النعلین‘‘ پڑھی اور اس کی شرح لکھی۔ اسی دوران تین مرتبہ آپ کی حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقاتوں کا بھی پتہ چلتا ہے۔
591ھ میں فاس کا سفر کیا جہاں آپ نے علم جفر کے حساب سے موحدین کے لشکر کی نصاری کی فوج پر فتح کی بشارت دی۔
592ھ میں دوبارہ اشبیلیہ لوٹے اس سال انہیں عبدالرحمن بن علی القسطلانی نے خرقہ عطا کیا۔
593ھ میں دوبارہ فاس آئے اور مقام تجلی پر فائز ہوئے۔ فاس میں انہیں بہت سے راز عطا کئے گئے۔
594ھ میں دوبارہ واپس مرسیہ کی طرف روانہ ہوئے اور غرناطہ میں بھی قیام کیا۔ وہیں ابن رشد کی تجہیز و تکفین و تدفین میں بھی حصہ لیا۔
595ھ میں مرسیہ پہنچے اور کتاب مواقع النجوم الہام کے نتیجے کے طور پر تصنیف کی۔
597ھ میں مراکش گئے ۔ خواب میں عرش الہی کی تجلی دیکھی، دیکھا نور ہی نور ہے اس کے نیچے ایک خزانہ ہے اور دیکھا خوبصورت پرندے اڑ رہے ہیں ان میں سے ایک پرندے نے ابن العربی کو سلام کیا اور کہا کہ شہر فاس جائیں۔ وہاں محمد حصار سے ملاقات کریں اور مشرق کے علاقوں کی جانب سفر کریں۔ فوراً بیدار ہو کر فاس کی راہ لی اور محمد حصار کے ساتھ مشرق کا سفر شروع کیا۔ مصر پہنچے تھے کہ محمد حصار کا انتقال ہو گیا۔
598ھ میں مشرق کا سفر کرنے کی بجائے دوبارہ تیونس میں سکونت اختیار کر لی ۔ وہاں صوفی ابو محمد عبدالعزیز کی فرمائش پر کتاب انشاء الدوائر تالیف کی۔ اسی سال بیت المقدس کی زیارت کی اور پھر مکہ المکرمہ پہنچے۔ وہاں پر صالحین ، مشائخ، عابد ین اور زاہدوں سے مصابحت رکھی۔
-مکہ میں قیام کے دوران شیخ مکین الدین کی بیٹی نظام نعمت جو تقوی، پارسائی، اخلاق اور حسن ظاہری میں اپنی مثال آپ تھی۔ شیخ اکبر ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ترجمان الاشواق کی صورت میں اپنے جذبات کو الفاظ اور شاعری کا سہارا دیا۔ مکہ میں آپ نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رکھا۔
599ھ میں مکہ میں ہی خاتم الولایۃ کے منصب پر فائز ہونے کا خواب دیکھا۔ مکہ میں اپنے قیام کے دوران آپ نے فتوحات مکیہ لکھنے کا آغاز کیا۔ اس کے علاوہ رسالہ حلیۃالابدال اورآپ نے اندلس کے صوفیا کے تذکروں پر مشتمل اپنی کتاب روح القدس (اصلاح نفس کا آئینہ حق) لکھی۔
601ھ میں مشرقی ممالک کے 12سالہ طویل سفر پر روانہ ہوئے۔ بغداد گئے جہاں شیخ عبد القادر جیلانی کے رفقاء سے ملاقاتیں کیں۔ اس کے بعد موصل گئے وہاں "تنزلات الموصلیۃ" نامی کتاب لکھی۔ اس کے علاوہ کتاب جلال و جمال بھی تصنیف کی۔ اس کے بعدبدر حبشی اور مجد الدین اسحاق بن محمد رومی کے ہمراہ ملطیہ پہنچے۔ پھر سلطان کیکاؤس اوّل کی دعوت پر قونیہ کا سفر کیا۔ قونیہ میں ’’رسالۃ الانوار‘‘ نامی کتاب لکھی۔
602ھ میں دوبارہ ملطیہ لوٹے اور پھر بیت المقدس کا سفر کیا جہاں سے وہ ہبرون گے اور وہاں حضرت ابراہیم کے روضہ مبارک پر ’’کتاب الیقین‘‘ لکھی۔ اس کے بعد قاہرہ روانہ ہوئے۔ قاہرہ میں ایک اور مرید ابن سودکین نے شاندار خدمات  انجام دیں۔ حلب میں انکا گھر آئیندہ40برس تک ابن العربی کی تصانیف کی تدریس کے لئے مخصوص رہا۔
608ھ میں دوبارہ بغداد کاسفر کیا۔ اسی دوران بغداد میں معروف صوفی صاحب عوارف المعارف شہاب الدین ابو حفص عمر سہروردی سے ملاقات کی جو خلیفہ الناصر کے ذاتی استاد بھی تھے۔
611ھ میں دوبارہ مکہ گئے اور قیام مکہ کے دوران اپنی شاعری کا دیوان ترجمان الاشواق ترتیب دیا۔ جس کی وجہ سے انہیں سخت تنقید اور تہمتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ اپنے دوست بدرحبشی اور مرید اسماعیل بن سودکین کے کہنے پر ترجمان الاشواق کی شرح ذخائر الاعلاق کے نام سے لکھی۔
613ھ میں دوبارہ ملطیہ اور قونیہ کا سفر کیا جس میں جلال الدین رومی کے والد بہاؤالدین سے ملاقات ہوئی۔ مولانا رومی اس وقت 8,9 برس کے تھے اور والد کے ساتھ تھے۔
618ھ کا سال آپ کے لئے غم کا سال ثابت ہوا آپ کے نہایت قریبی دوست مجد الدین اسحاق وفات پا گئے جن کا بیٹا صدرالدین اس وقت صرف 7,8برس کا تھا۔ آپ نے اس کی پرورش کی اور بیوہ سے نکاح بھی کیا۔ اسی سال ایک اور ساتھی بدرحبشی بھی وفات پا گئے۔
620ھ میں آخر کار تمام دنیا کا سفر کرنے کے بعد اور گراں قدر کتب تصنیف کرنے کے بعد 60برس کی عمر میں دمشق میں اقامت پذیر ہوئے اور آخر عمر تک اسی شہر میں رہے۔ دمشق میں آپ کا اعزاز و اکرام علماء اور سلاطین کی طرز پر ہوا۔ دمشق کے عمال اورحکام میں سے ملک مظفر بھی ان کا مرید ہوا اور شیخ اکبر نے انہیں روایت حدیث اور اپنی تصانیف کی اجازت لکھ کر دی۔
628ھ میں اسی شہر دمشق میں ایک مرتبہ انہیں ہئیت الہی کے ظاہر اور باطن کا مشاہدہ ہوا، لکھتے ہیں‘‘اس واقعے سے پہلے میں نے کبھی ایسی صورت نہ دیکھی تھی نہ کبھی ایسا گمان ہوا اور نہ دل میں خیال گزرا
چلہ کشی
لیکن جلد ہی شیخ اکبر نے دنیا سے قطع تعلق کر لیا اور قبرستانوں میں وقت گزارنا شروع کر دیا جس میں آپ سارا سارا دن مردوں کی روحوں سے براہ راست رابطے میں رہتے۔ آپ کے مرشد شیخ یوسف بن یخلف الکومی کو خبر پہنچی کہ ابن العربی اپنا وقت قبرستان میں گزارتے ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے کسی موقعہ پر کہا کہ سنا ہے ابن العربی نے زندوں کی مجلس کو چھوڑ کر مردوں کی مجلس اختیار کر لیا ہے ابن عربی نے انہیں پیغام بھیجا کہ آپ خود آکر دیکھیں کہ میں کن لوگوں کے ساتھ مجلس لگاتا ہوں۔ چنانچہ ایک روز وہ ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد قبرستان میں گئے ، جہاں پر ابن العربی حاضر ہونے والی ارواح کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے ۔ شیخ یوسف دھیرے سے آپ کے پہلو میں جا کر بیٹھے اور ابن العربی نے دیکھا کہ ان کا رنگ پھیکا پڑ گیا تھا۔ ابن العربی نے ان کی طرف مسکرا کر دیکھا ، مگر شیخ یوسف اپنے اندرونی کرب کے سبب مسکرا نہ سکے۔ جب مجلس ختم ہوئی ، تو استاد کے چہرے پر رونق لوٹ آئی اور انہوں نے شاگرد کی پیشانی کو چوما ۔ ابن العربی نے پوچھا: " استاد کون مردوں کے ساتھ مجلس لگاتا ہے ، میں یا آپ؟" شیخ یوسف نے کہا: " خدا کی قسم میں مردوں کے ساتھ مجلس کرتا ہوں ۔ اگر مجھ پر حال وارد ہو جائے تو میں سب کچھ چھوڑ دوں" ۔ اس کے بعد وہ لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ جو کوئی لوگوں سے منہ موڑنا چاہتا ہے ، اسے فلاں (مراد ابن العربی) کی طرح ہونا چاہیے، کیونکہ اس میں عالم الغیب کی استقامت کا علم ہے اور وہ مخالفت سے نپٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور وہ عالم الوفاق اور اس میں ایسا علم پایا جاتا ہے ، جس پر انسانی قوت  قدرت نہیں رکھتی"۔
سلاسل
شیخ اکبر نے اپنے رسالہ نسب الخرقہ میں اپنے پانچ مختلف سلاسل سے بیعت کا تذکرہ کیا ہے۔ جن میں دو سلسلوں میں حضرت خضر علیہ السلام، ایک واسطے سے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒکے سلسلہ قادریہ میں بیعت ہیں جبکہ ایک سلسلے میں وہ اویس قرنی کے واسطے سے حضرت علیؓ اور حضرت محمد ﷺ تک پہنچتے ہیں۔
 وفات
شیخ اکبر نے75برس کی عمر میں 22ربیع الثانی638ھ ، 9نومبر1240ء میں وفات پائی۔ انہیں شہر کے شمال مغرب میں کوہ قاسیون کے دامن میں قریہ صالحیہ کے مقام پر قاضی محی الدین الزکی کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ اللہ تعالی انہیں اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ آمین ثم آمین