اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: قطب الدین ایبک برصغیر کا پہلا مسلمان بادشاہ قطب مینار اسی کی تعمیر کردہ عمارتوں میں سے ایک ہے!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Tuesday 25 April 2017

قطب الدین ایبک برصغیر کا پہلا مسلمان بادشاہ قطب مینار اسی کی تعمیر کردہ عمارتوں میں سے ایک ہے!


تحریر: محمد یوسف اعظمی
مقیم حال جدہ سعودی عرب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
برصغیر پر مسلمانوں کے حملے اور آمد تو محمد بن قاسم کے ساتھ ہی شروع ہو گئے تھے لیکن شہاب الدین غوری وہ پہلا شخص تھا جس نے یہ ضرورت محسوس کی کہ برصغیر میں ایک مستقل حکومت قائم کی جائے، اسی نیت سے اس نے جب برصغیر کا علاقہ فتح کیا تو اپنے غلام قطب الدین ایبک کو آزاد کیا اور اسے برصغیر کا بادشاہ مقرر کیا، یوں ایبک تاریخ میں برصغیر کا پہلا مسلمان بادشاہ بن کر ابھرا، اگرچہ ایبک صرف چار سال ہی بادشاہ رہ پایا لیکن اس نے برصغیر کی تاریخ پر ایسے گہرے نقوش چھوڑے جنہیں گزرتا وقت بھی دھندلا نہیں پایا، دہلی کا قطب مینار اور قروۃ الاسلام مسجد آج بھی اس کی یاد دلاتی ہیں، اپنی سخاوت کی بدولت لکھ داتا کہلانے والا یہ بادشاہ لاہور میں پولو کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گر کر جاں بحق ہو گیا اور اسے لاہور میں ہی دفن کیا گیا، آج بھی اس کا مزار انار کلی میں ایبک روڈ پر موجود ہے، جس کے ساتھ کبھی تو ایک شاندار باغ ہوا کرتا تھا لیکن اب وہاں صرف دکانیں اور شاپنگ مالز ہی دکھائی دیتے ہیں، مقبرے کا چھوٹا سا حصہ ابھی باقی بچا ہوا ہے.
ایبک کے مزار کی حالت اور اس سے زیادہ ہماری اپنی تاریخ سے بے اعتنائی اور بے حسی کو حفیظ جالندھری نے ایک شاہنامہ اسلام کی ایک شاہکار نظم میں یوں قلمبند کیا ہے۔
انہی افکار میں بیٹھا تھا میں اک دن
جھکائے سردر آرام گاہِ شاہِ قطب الدین ایبک پر
وہ قطب الدین وہ مرد مجاہد جس کی ہیبت سے
یہ دنیا از سر نو جاگ اُٹھی تھی خوابِ غفلت سے
اکھاڑیں ہند سے جس نے ستمگاری کی بنیادیں
رکھیں ہر دل میں انسانی رواداری کی بنیادیں
وہ جس کی جراتِ بیباک سے سفاک ڈرتے تھے
وہ جس کے بازوؤں کی دھاک سے افلاک ڈرتے تھے
وہ قطب الدین جس کے دامنِ تسخیر کا سایا
قُلوبِ راجگانِ ہند کو دامن میں لے آیا
لکھی ہے ذرے ذرے کی جبیں پر داستاں‌ جس کی
ہے سُرخی داستانِ فاتحِ ہندوستاں جس کی
وہ جس کی ذات پر لفظِ غلامی ناز کرتا تھا
ترقی کا تخیل عرش تک پرواز کرتا تھا
لئے بیٹھی ہے دہلی قلب میں‌ نقشِ نگیں جس کا
لقب تاریخ‌ میں‌ ہے تاجدارِ اولیں جس کا
یہاں لاہور میں سوتا ہے اک گمنام کُوچے میں‌
پڑی ہے یاد گارِ دولتِ اسلام کوچے میں
نجس ، ناپاک کوچہ جس میں‌ کوئی بھی نہیں‌ جاتا
وہاں سویا ہوا ہے مسندِ دہلی کا لَکھ داتا
یہ تربت ماتمی ہے اُن حجازی شہسواروں کی
مسلمانوں نے مٹی بیچ لی جن کے مزاروں‌ کی
یہاں تک ابرِ باراں کی رسائی ہو نہیں سکتی
گھٹا روتی ہوئی آتی ہے لیکن رو نہیں سکتی
نہ پڑھتا ہے یہاں پر فاتحہ کوئی نہ روتا ہے
کسے معلوم ہے اس چھت کے نیچے کون سوتا ہے
میں‌ اکثر شہر کے پر شور ہنگاموں‌ سے اُکتا کر
سکوں‌ کی جستجو میں‌ بیٹھ جاتا ہوں یہاں‌ آ کر
یہاں میں حال کو ماضی کے دریا میں‌ ڈبوتا ہوں
تصور کے طفیل اک اور ہی دنیا میں ہوتا ہوں
تخیل مجھ کو لے جاتا ہے اک پر ہول میداں میں
جہاں باہم بپا ہوتی ہے جنگ انبوہِ انساں میں
نظر آتے ہیں‌ مجھکو سرخرو چہرے شہیدوں‌ کے
لہو کی ندیاں کھلتے ہوئے گلشن امیدوں کےعَلم کے سائے میں‌ سلطان
مجھے محسوس ہوتا ہے مجاہد مرد میں بھی ہوں‌
پرانے لشکر اسلام کا اک فرد میں بھی ہوں
مرا جی چاہتا ہے اب نہ اپنے آپ میں‌ آؤں
اسی آزاد دنیا کی فضا میں‌ جذب ہو جاؤں
سکوں‌ کی راہ میں حائل ہے جب تک گردشِ گردوں
‌قلم سے کام لینے کا ارادہ ملتوی کر دوں‌