اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: ممبئی: Not in My Name کے بینر تلے احتجاج!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday 29 June 2017

ممبئی: Not in My Name کے بینر تلے احتجاج!


رپورٹ: طلحہ حلیمی جونپوری
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
باندرہ/ممبئی(آئی این اے نیوز 29/جون 2017) کارٹر روڈ، باندرہ ممبئی میں کل شام پانچ بجے ( Mob Lynching) بھیڑ کے ذریعہ قتل کے خلاف احتجاج تھا۔ اس  شریک لوگوں کو دیکھا تو عام شہریوں کا ایک جم غفیر، تیز بارش میں بھیگ کر، اپنے سینے کے درد کا اظہار، ہاتھوں میں اٹھائے پلے کارڈز اور بینرز کے ذریعہ کر رہا تھا، نمائندہ نے ایک غیر متعارف شخص سے ایک بڑا پیپر مانگا، اس بندہ نے دیا بھی اور  کہا: آپ اُس معمر خاتون کے پاس چلے جائیں، ان کے پاس قلم ہے، وہ لکھدیں گی۔ چنانچہ میں گیا اُن سے درخواست کی اور انھوں نے (Not In My Name) لکھدیا۔ اِس کے بعد وہ خاتون ملک کے موجودہ حالات کا رونا لگیں۔ میں نے اِن کی باتیں سنی اور احتجاج میں شریک ہوگیا۔
        اِسی موقع پر مجھ سے ایک قدم آگے چند برادران وطن کھڑے تھے. اِن کے ہاتھوں میں پلے کارڈز تھے جن پر لکھا تھا ”Cow is not mother. Cow is food“ کہ گائے ماں نہیں ہے. گائے غذا ہے“. نمائندہ نے ایک سے پوچھا: آپ اس احتجاج کے بارے میں کیا کہنا چاہتے ہیں؟ اُس نے جو اب دیا: جو پلے کارڈ پر لکھا ہے وہی کافی ہے.  وہ خاموش چلا گیا۔ اتنی دیر میں ”آج تک“ چینل کی نمائندہ نے مجھ سے سوال کیا "کیا آپ کو لگتا ہے، کہ جنید کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ٹھیک ہے؟ میں نے کہا: سراسر غلط ہے، ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ آج کچھ لوگ انسانیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور امن و سکون کو چھیننا چاہتے ہیں“. اُس کو یہ جواب ملا اور دوسری طرف چل پڑی.
    تھوڑی بعد میں دوسری طرف چلا گیا. اچانک کسی نے آہستہ سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا. پیچھے گھوم کر دیکھا تو ایک پچاس سے پچپن سال پر مشتمل قدو قامت والا انسان، مجھ سے اِس بات کی اجازت مانگ رہا تھا، کہ اِس کا ایک فوٹو لے لوں، میں نے کہا بالکل لے لو، اُس نے کہا، کہ اِس کو "ٹویٹر" پر Share کردوں، میں نے کہا: اجازت ہے. پھر اُس نے کہا: میرا نام ”انوج اگروال“ ہے، اور ہم تو آپ لوگوں کے لیے آیئں ہیں، آپ کے ساتھ جو بھی ہو رہا ہے، غلط ہو ہو رہا ہے، ہمارا نام لیکر یہ لوگ کرتے ہیں، جبکہ ہمارے دھرم میں ایسا نہیں ہے“.
    ہر طرف ایک عجیب چیخ و پکار تھی، کسی طرف سے یہ آواز آرہی تھی “ابھی تو یہ انگڑائی ہے، آگے اور لڑائی ہے“ کسی طرف یہ آواز لگ رہی تھی ”مودی مودی، ہوش میں آؤ، ہوش میں آؤ، ہوش میں آؤ “ کوئی یہ نعرہ لگا رہا تھا ”آواز دو، ہم ایک ہیں “.
   سمجھ میں نہیں آرہا تھا، کہ اِن کے جذبات کو کس نے انگیز کیا، اِن کو کس نے بے چین کر دیا، اِن کے سکون کو کس نے چھین لیا، جنھوں نے کسی قاعد -اکثر کائد ہوتے ہیں- کی آواز پر لبیک نہیں کہا، ہاں صرف اِنھوں نے اپنے ضمیر کی آواز پر حاضری دی، تبھی تو موسلا دھار بارش میں بھی یہ جمے رہے اور انسانیت کے لیے آواز دیتے رہے.
سلام ہو اِن جانباز برادرانِ وطن پر، سلام ہو اِن باہمت اور پُر از حوصلہ خواتین پر، جنھوں نے انسانیت کے خلاف نفرت کی آگ کو سرد کرنے کے لیے اپنے اوقات کی پونجی خرچ کی، جو محبت و مودت، امن و شانتی، اور پُر امن بقاے باہم کے حصول کے لیے ،زبانی جمع خرچ کرنے کے بجائے، میدان میں نکل آے اور اِس بات کا عہد لیا کہ قاتل دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہونچا کر دم لیں گے.
  رب کریم اِن کے جذبات کو سلامت رکھے۔ اِنہیں مظلوموں کو، انصاف ملنے کا ذریعہ بنائے- پورے ملک اور عالم کو نفرت کی آگ میں جھلسنے سے بچائے اور ظالموں کا (اگرہدایت نہ ہو) صفحہ ہستی سے نام و نشان مٹاکر ،آنیوالوں کے لیے باعث عبرت بنائے۔ آمین