اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: استاد الاساتذہ حافط محمد عرفان صاحب بمہوری نے 53 سالہ تدریسی خدمات کو کہا الوداع!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday 24 July 2017

استاد الاساتذہ حافط محمد عرفان صاحب بمہوری نے 53 سالہ تدریسی خدمات کو کہا الوداع!




ازقلم: محمد طیب قاسمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بلاشبہ کچھ شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جنکی زندگیاں ملت کی بھی خواہی کیلئے وقف ہوتی ہیں انکا وجود قدرت کیطرف سےخاص فیضان ہوتا ہے جن کے احسانات اور خدمات کا اعتراف زمانہ کرتا ہے، انہیں میں سے ایک شخصیت استاذ الاساتذہ حافظ محمد عرفان صاحب دامت برکاتہم کی ہے، یقیناً فانی دنیا کی اس خود غرض زندگی میں حضرت کی ہستی ایک نادر الوجود ہستی ہے۔
سنہ١٩٦٦ء میں اپنے عم محترم مولانا محمد انیس صاحب کی سر پرستی میں مدرسۃ الاسلام بمہور میں ایک ستارہ طلوع ہوتا ہے اور زائد از نصف صدی بڑی شان سے وہ ستارہ قرآنی انوار کی ضیا پاشیاں کرتا رہا اور نسلاً بعد نسل لوگوں کے قلوب کو دولت قرآن سے مزین کرتا رہا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے "خيركم من تعلم القرأن وعلمه" ترجمہ: تم میں بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے.
 بلاشبہ حافظ صاحب اللہ تعالی کے نزدیک بہترین شخص ہیں جن کو اللہ تعالی نے قرآن کی دولت سکھانے کیلئے چنا تھا۔
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قرآن کے ایک حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں اور اس طرح تریپن ۵۳ سالوں تک (سنہ قمریہ)روزانہ سیکڑوں بچوں کو پڑھانے اور سننے کے نتیجے میں کتنی نیکیاں آپ کے نامہ اعمال درج ہوتی رہیں ہیں انسانی عقل اسکا ادراک نہیں کرسکتی مزید یہ کہ تقریباً ٤٢سال رمضان مبارک میں مسلسل تراویح پڑھاتے رہے۔
ہمیں فخر ہے کہ ہم نے اس نورانی پیکرسے اکتساب فیض کیا ہے اور آپ کے مربیانہ انداز تدریس سے بہرہ ور ہوئے ہیں۔
آپ نے اپنے درس و تدریس کے پیشے سے ہمیشہ انصاف کیا کہ ۵۳ سالہ تدریسی زندگی میں کبھی بھی آپ پر اپنے پیشے سے نا انصافی اور نہ ہی کسی طرح کی مالی بے ضابطگی کا الزام لگا اور نہ معاشرتی اور سماجی زندگی میں کوئی دھبہ لگ سکا۔
بہت سے مواقع ایسے آئے جب خاندانی رقابتیں الیکشن یا مسلکی اور محلہ جاتی دشمنیوں کا عفریت لوگوں کے سروں پر سوار تھا مگر آفریں ہے آپ کی ذات پر کہ گاؤں میں رہتے ہوئے بھی ایسے مواقع پر اپنے آپ کو صاف بچا لے گئے۔
جس زمانے میں آپ کو اللہ نے حفظ قرآن کی دولت سے نوازا تھا اسوقت اچھے حافظ قرآن خال خال ہی ملتے تھےاور بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے آپ اگر چاہتے کسی بڑے شہر کا انتخاب کرکے پیسہ بھی کما سکتے تھے، مگر آپ نے گاؤں اور گاؤں کے بچوں پر محنت کو ترجیح دی بلا شبہ اس قربانی کیلئے آپ مبارکباد کے مستحق ہیں پیسہ کو کبھی آپ نے خدمت پر ترجیح نہیں دی چنانچہ ۱۹٦٦ء میں40 روپیہ مشاہرہ پر آپ کا تقرر عمل میں آتا ہے اور آج ٢٠١٧ء کے اس ہوش ربا گرانی کے دور میں آپ کا آخری مشاہرہ صرف آٹھ ہزار ہوتا ہے.
  بلاشبہ اللہ کی طرف سے کھلی برکت کا نزول ہی ہے کہ اس قلیل آمدنی میں بھی بچوں کی کفالت اور تعلیمی اخراجات پورے ہوتے تھے۔  
   مگر افسوس صد افسوس جس ہستی نے اپنی زندگی کے ۵۳ بیش قیمتی سال قوم و ملت کے لئے وقف کردئیے ہوں اور ہڈیوں کا گودا تک نچوڑ کر قوم کو دے دیا ہو اور جس نے ہماری تین نسلوں کو افضل کتاب کی دولت سے مالا مال کیا ہو ہمارے قلوب کو آیات قرانیہ کی لا زوال نعمت سے فروزاں کیا ہو مگر ہم ایسے محسن مطاع ومخدوم کی قدردانی کا حق ادا نہ کر سکے ہم آپ کو کوئی الوداعیہ بھی نہ دے سکے نہ کوئی تقریب نہ اہتمام نہ کوئی تام جھام شاید ہم زندہ قوم نہیں ہیں زندہ قومیں وہ ہوتی ہیں جو ایسی شخصیات کو سروں اور پلکوں پر بٹھاتی ہیں اور جنکے سر اپنے محسنین کے احسانات کے بار سے جھکے رہتے ہیں۔
یقیناً ہم بہت ناشکرے ہیں مگر رب دو جہاں تو بہت قدر شناس ہے یقیناً وہ دن ہمارے لئے رشک کا دن ہوگا جب اللہ رب العزت صدیقین شہداء اور صالحین کے ساتھ فرشتوں کی محفلوں میں آپ کی عزت افزائی کرے گا تب آنکھیں چکا چوند ہو جائیں گی.
جب قرآن کا ایک ایک حرف ایک ایک حرکت ایک ایک نقطہ آپ کی سفارش کریں گے اور جب ہزاروں معصوم بچے اور بچیاں آپ کے عشق قرآن کی گواہی دیں گےاور ہزارہا شاگردوں کے جلو میں اللہ آپ کو جنت میں داخل فرما ئے گا  بیشک اللہ سے یہی امید ہے۔
    12/07/2017 کا وہ دن مدرسۃ الاسلام کیلئے بڑا غمناک رہا ہوگا جب آپ نے ۵۳ سالہ رفاقت کے خاتمے کا اعلان کیا ہوگا مدرسہ پر اداسی کے بادل رہے ہوں گے اسکے در و دیوار گریہ کناں رہے ہوں گےاور اگر ہم محسوس کرسکتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ وہ پیپل کا درخت آپ کی جدائی پر دھاڑیں مار مار کر رو رہا ہے جو ایک عرصہ تک آپ کا ہم راز رہا ہے جسکے سائے میں بیٹھ کر آپ نے آیات قرانیہ کا درس دیا ہے۔
   مگر اے مدرسۃ الاسلام کے بے جان در و دیوار اور اے حافظ صاحب کے ہمراز پیپل کے درخت سنو :- قوم کا سچا مخلص اور ہمدرد وہی ہوتا ہے جسے قوم کے نو نہالوں کے مستقبل کی فکر ہو، شاید اب ضعف و نقاہت کی وجہ سے وہ حق ادا نہ ہو سکے جو آپ سے مطلوب ہے لہذا تم سب کی جدائی تو برداشت کر سکتے ہیں مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ ان کا بڑھاپا اور کمزوری ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں رکاوٹ بنیں لہذا انھیں بادل نخواستہ اور با دیدۂ نم الوداع کہو.
     بہر حال حافظ صاحب آفریں ہے آپ کی خدمات پر آپ کے جذبۂ ایثار پر آپ کے خلوص و للہیت پر آپ کے اعتماد و توکل پر
  خوشا نصیب حافظ محمد عرفان صاحب قوم وملت کیلئے آپ کی خدمات ہماری تاریخ کے اوراق میں سنہرے حروف سے درج ہوں گی اور آپ کی قربانیاں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی   اللہ آپ کا صحت و سلامتی کے ساتھ سایہ تادیر رکھے. آمیــــن
            ــــــــــــعـــــــــــ
کہہ رہی ہیں درد میں ڈوبی فضائیں الوداع
چارسو چھائیں ہیں اشکوں کی گھٹائیں الوداع
یہ درو دیوار یہ صحن و چمن یہ رونقیں
کس طرح تیری رفاقت کو بھلائیں الوداع