اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: جہیز شریعت اسلامیہ کی نظر میں!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Tuesday 25 July 2017

جہیز شریعت اسلامیہ کی نظر میں!


تحریر: قاری محمد مامون الرشید صاحب استاد شعبہ تحفیظ القرآن مدرسہ طیب المدارس پریہار ضلع سیتامڑھی بہار
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ بات چڑھتے ہوئے سورج کی طرح عیاں ہے، کہ اسلامی معاشرے میں چندایسے رسومات بدرائج ہیں جو دل سوز ہی نہیں بلکہ انسانیت سوز ہے، ان میں سے ایک "جہیز "بھی ہے، جہیز لغت میں اسباب زندگی کو کہا جاتا ہے اور عرف عام میں اس سامان کو کہتے ہیں جو لڑکی کو میکہ سے ملتا ہے خواہ لڑکا یا اسکے گھر والوں کی فرمائش کی وجہ سے یا از خود لڑکی والے دیتے ہیں.
یہی وجہ ہے کہ اسکے بغیر موجودہ زمانے میں شادی کا تصور ناممکن ہوتا جارہا ہے اور ان تمام اشیاء کے دینےکا مقصد صرف نام و نمود ہے اسی وجہ سے جہیز کے سارےسامان مجمع عام پیش کئے جاتے ہیں، اور ایک ایک سامان کھول کھول کر دیکھا جاتا ہے اور فہرست پڑھ کر سنائی جاتی ہے جو محض ریاکاری اور حصول شہرت پر مبنی ہے، جبکہ اسلام میں دکھلاوا اور ریاکاری بالکل حرام اور دوزخ رساں ہے،لیکن اس رسم جاں تلف نے ہمارے معاشرے کو بالکل کھوکھلا کردیا ہے کہ جہیز نہ دینے پر دلہن کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے،بلکہ بعض دفعہ خواہشات کے مطابق جہیز نہ ملنے پر سسرال والے بہو کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں جو آئے دن اخبار و جرائد کی سرخیوں کی زینت بن رہی ہیں، لیکن ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے ان ناعاقبت اندیش مسلمانوں پر جو جہیز کو جائز قرار دینے کے لئے کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز دیا تھا، ان کے اس باطل استدلال کا سردست  دو جواب دیتے ہیں.
 اول: ہم آپکی بات کوتسلیم نہیں کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز دیا تھا
دوم: جو کچھ آپ صلعم نے دیا تھا وہ سب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پیسے سے خریدے ہوئے تھے.
لہذا اس کو جہیز کا نام دیکر اپنے آپ کو ضلالت و گمراہی میں نہ ڈالیئے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو ھدیہ لیتے دیتے ہیں تو یہ درست ہے لیکن اس وقت جب کہ نیت میں خلوص ہو اور کم ملنے پر کوئی شکوہ شکایت نہ ہو، مگر آج کس کی نیت درست ہوتی ہے.
دوسری بات یہ کہ اگر ہدیہ ہی دینا ہے تو پوری زندگی دینے کے لیے ہوتی ہے، اکثر دیکھا گیا ہے کہ شادی کے بعد یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم دے لیکر فارغ ہوگئے ہیں، اور شادی کے بعد ضرورت کے پیش آنے کے باوجو ہدیہ نہ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ نکاح میں دی جانے والی چیز کا نام ہدیہ رکھنا محض ایک حیلہ ہے، اور اس طرح کا حیلہ شرعا ناجائز ہے، البتہ بقدر ضرورت لڑکی والے اپنی وسعت کے مطابق دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں.
حاصل یہ کہ شادی بیاہ کے موقع سے مروج طریقہ کی شریعت اسلامیہ میں کوئی حقیقت نہیں ہے، اسلئے ایسے نازک وقت میں ضروری ہے کہ دانشوران قوم و ملت اس رسم بد سے پہلے خود کو محفوظ رکھیں اور پھر دوسروں کو بھی بچائیں.