اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: استاذ ہی لکھتے ہیں نئی صبح کی تحریر!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Friday 23 February 2018

استاذ ہی لکھتے ہیں نئی صبح کی تحریر!

تحریر: فہد نذیر عباس ایم اے عربی
 متعلم: کے ایم سی اردو عربی فارسی یونیورسٹی لکھنؤ
ـــــــــــــــــــــــــــ
 اگر علم کی اہمیت اور اس کی افادیت پر غور کیا جائے تو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دور حاضر میں جدید دور کی بنیاد ہی علم پر ہے، باشعور اور پڑھی لکھی قومیں عروج کے منازل طے کرتی ہیں، سائنس  اور ٹیکنالوجی کی ساری ترقی کے پیچھے کس کا کلیدی رول کار فرما ہے، ظاہر ہے کلیدی رول اساتذہ کا ہی ہوتا ہے، ایک معمولی سے نوخیز بچے سے لے کر ایک کامیاب انسان تک پورا سفر اساتذہ کا ہی مرہون منّت ہے، كسی بھی انسان كے حقیقی والدین اس کو آسمان سے زمین پر لے کر آتے ہیں لیکن اساتذہ اس کی روحانی اور اخلاقی تربیت کے نتیجے میں اسے زمین کی پستیوں سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتے ہیں، طالب علم کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچانے میں اساتذہ کا بہت ہی نمایاں کردار نظر آتا ہے، کسی بھی انسان کی کامیابی کے پیچھے اچھے استاد کی بہترین تربیت کارفرما ہوتی ہے، خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں اچھے استاد میسر آجاتے ہیں اور انہیں خوش نصیب لوگوں میں میرا بھی نام کہیں نہ کہیں شامل ہے، خدا نے مجھے بھی ایسے متعدد اساتذہ سے نوازا جن کے علم و کمالات سے میں مستفید ہوتا رہا لیکن سب سے زیادہ جن کی زیر کی دور اندیشی دیدہ وری دانشوری معاملہ فہمی اور علم و کمالات سے متاثر ہوا اور مستفید ہوا وہ ڈاکٹر پروفیسر مسعود عالم فلاحی ہیں ۔                                                                     کیا آپ کو کبھی کسی ایسے پروفیسر سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے جو اپنے طلبہ میں جوہر پیدا کرنے کے لئے رات دن ایک کر دیں، ہمارا کل سنوارنے کیلئے اپنا آج قربان کریں، طلبہ میں علمی و تحقیقی روح پھونکنے کے لئے ہر لمحہ سرگرداں رہے، طلبہ کے لئے ہر سال جدت سے بھر پور نصاب تعلیم ڈیزائن کرنے کی فکر میں لگا رہے، طلبہ کی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی چیزوں میں بھی خیال رکھے یہاں تک کہ آپ کو ایگزام شیڈول بھی بتائے اور رزلٹ چیک کرنے یو آر ایل بھی بھیجے، آپ کی کامیابی پر آپ سے زیادہ خوشی کا اظہار کرے، اگر فیس نہ ہو تو آپ کی فیس بھی ادا کرے، کیا ایسا پروفیسر آپ نے دیکھا ہے کہ جس کے چیمبر میں طلبہ کی آمد و رفت کا سلسلہ بلا روک ٹوک جاری  ہو اور دست شفقت ہر طلبہ پر بلا تفریق جاری وساری ہو، ہاں مجھے فخر ہے کہ خدا نے مجھے ان تمام خصوصیات کے حامل پروفیسر مسعود عالم فلاحی سے نوازا ہے جس پر میں خدا کا جتنا شکریہ ادا کروں کم ہے ۔ایک دستور ہے کہ ہم اساتذہ کو اپنی کامیابی بتاتے ہیں پھر وہ ہمیں کامیابی کی مبارکباد دیتے ہیں لیکن قربان جاؤں اپنے استاد پروفیسر مسعود عالم فلاحی پر کہ جنہیں ہمیں اپنی کامیابی بتانی نہیں پڑتی ہیں بلکہ انہیں پتہ چل جاتا ہے کیونکہ وہ گاہے بگاہے معلوم کرتے رہتے ہیں  ہماری کامیابی کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور ہماری کامیابی پر مبارکباد پیش کرتے ہیں قبل اس کے کہ ہم اپنی کامیابی کا ذکر کریں اور اس طرح خوش ہوتے ہیں جیسے کہ کسی والدین کو اپنی اولاد کی کامیابی پر خوشی ہوتی ہے، اس بات کا مشاہدہ مجھے ہر بار ہوا لیکن دوبار بہت قریب سے  ہوا، ایک بار جب میرے دو قریبی دوست محمد عامر اور محمد دلشاد جو دارالعلوم ندوۃ العلماء میں میرے کلاس میٹ تھے، ان کو جامعہ ملیہ یونیورسٹیی میں بین الاقوامی پیمانےپر منعقد کیے  گئے عربی مقابلے میں اول انعام سے نوازا گیا تھا اور بھاری انعامی رقوم سے بھی نوازا گیا  تھا، دوسری بار جب پوری یونیورسٹی میں صرف راقم طراز کا ہی نیٹ ایگزام کوالیفائی ہوا تھا  ۔                                                                    K .M .C .U .A. F. University ایک نئی یونیورسٹی ہے جہاں ابھی وسائل بھی کم ہیں، اساتذہ بھی کم ہے، انفراسٹرکچر بھی اطمینان بخش نہیں ہے  یہاں کے طلباء میں ابھی اتنی شعور و آگہی بھی نہیں ہے لیکن ہم اپنے اساتذہ کی بدولت خوب شعور وآگہی رکھتے ہیں  یہی وجہ ہیکہ کے۔ ایم۔ سی۔ یونیورسٹی  کے متعدد فیکلٹی کے طلباء نے یو جی سی نیٹ ایگزام دیا لیکن سوائے عربی ڈپارٹمنٹ کے کسی بھی طالب علم کا یو جی سی نیٹ ایگزام کوالیفائی نہ ہو سکا چونکہ ہمارے اساتذہ نے جی جان لگا کر درس و تدریس کا فریصہ انجام دیا تھا، میرے استاد  پروفیسر مسعود عالم فلاحی کی ہی ذہن سازی، میرے مشفق دوست حاتم طائی کی طرح دلدار تمام علوم و فنون پر گھری اور تحقیقی نگاہ رکھنے والے ہر فن مولی حسنین اختر فلاحی کے درس و تدریس  اور مذاکرہ عوام الناس پر ہو رہے ظلم  کے خلاف  آواز بلند کرنے والے، ہمدردیوں کی آڑ میں جفاؤں کے زخم کھائے ہوئے انسانوں کو انصاف دلانے والے اور سماج میں دم توڑتی ہوئی انسانی اقدار کو بحال کرنے کیلئے ہمیشہ کمر بستہ رہنے والے میرے کلاس میٹ آبشار الدین کی بجا تنقید کی وجہ سے ہی مجھے یہ فخر حاصل  ہے کہ  میں کے۔ ایم۔ سی ۔یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہتے ہوئے پہلا طالب علم ہوں جس نے  یو جی سی نیٹ ایگزام کوالیفائی کیا ۔                                                      ایک بار پھر میں صمیم قلب سےشکر گذار ہوں اپنے تمام اساتذہ  کا بالخصوص پروفیسر مسعود عالم فلاحی کا جو ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں انہوں نے ہم طلباء میں علمی وعملی جوش پیدا کیا ہے، ہم میں علم و ادب کا شوق ابھارا ہے، اپنی تحریروں کے ذریعہ ہمیں گہرے علمی شعور سے آشنا کیا ہے، ہماری صلاحیت اور ضرورت کے اعتبار سے ہم میں روشنی اور حرارت عطا کی ہے، آپ کی صلاحیتوں کدوکاوشوں قربانی وخدمات اور عرق ریزی کی ہی بدولت کے ۔ایم ۔سی۔ یونیورسٹی میں  لٹریچر فیکلٹی کے تمام شعبوں میں سب سے نمایاں پھلتا پھولتا اور دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا ہوا کوئی شعبہ ہے تو وہ عربی شعبہ ہے ،چنانچہ  محمد دلشاد محمد عامر کا جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں منعقدہ بین الاقوامی تقریری مقابلہ میں اول انعام کیلئے نامزد ہونا، عربی زبان وادب پر بے پناہ قدرت رکھنے والے ایک میرے کلاس میٹ اقرار حسین کا کے۔ ایم۔ سی ۔ یونیورسٹی کا گولڈ میڈلسٹ ہونا اور دوسرے کلاس کے اعتبار سے میرے جونیئر لیکن عربی زبان و ادب کے اعتبار سے سینئر شریف النفس بدر عالم کا بیک وقت چار چار میڈل کیلئے نامزد ہونا اور پوری یونیورسٹی میں صرف عربی ڈپارٹمنٹ کے  ہی طالب علم کا نیٹ ایگزام کوالیفائی ہونا عربی ڈپارٹمنٹ کے اچیومنٹ پر شاہد عدل ہے، ہمارے استاذ پروفیسر مسعود عالم فلاحی مدرسہ الفلاح کے تراشے ہوئے کوہ نور ہیں ان کا اچیومنٹ ہمارا غرور ہے، وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہے، انہوں نے اپنی جودت طبع سے قلمی چہروں کو نئی شناخت دی ہے، انہوں نے بے شمار علمی تحقیقی مقالے لکھے ہیں، موضوع کا احاطہ کرنے میں آپ کے قلم کو ید طولی حاصل ہے، ہند اور بیرون ہند کے کئی رسائل و جرائد میں آپ کے مضامین شائع ہوتے ہیں، انہوں نے اپنے علم و کمالات سے کے۔ ایم ۔سی۔ یونیورسٹی کے کلاہ افتخار میں قیمتی نگینوں کا اضافہ کیا ہے، انہوں  نے عربی زبان و ادب کی قندیل روشن کی ہے جو متعدد طلباء  کو نور سے منور کر رہی ہے، عربی زبان و ادب میں ان کا مقام ہم عصروں میں ممتاز ہے، ان کی کتاب ہندوستان میں ذات پات اور مسلمان ذات پات اور بھید بھاؤ کے موضوع پر اولیت کا مقام رکھتی ہے جو ان کی حقیقت آگہی اور تحقیقی نگاہ پر دال ہے اور متعدد ریسرچ اسکالر نے اس کتاب سے اقتباسات اور حوالے بہی نقل کئے ہیں ۔میں کیا کیا بیان کروں ،کتنا بیان کروں میری زبان قاصر ہے ،سچ تو یہ ہیکہ                                                                                        سفینہ چاہئے اس بحر بے کراں کیلئے                                                                                                                                                                    میں بحیثیت طالب علم کے ۔ایم۔سی۔ یونیورسٹی کے تمام اساتذہ  کے علم وکمالات کی قدر کرتا ہوں اور ان کو سلام عقیدت پیش کرتا ہوں، ا سا تذہ کی عزت و توقیر کیلئے ویسے تو عالمی سطح پر ہر ملک میں کوئی نہ کوئی دن مقرر ہے لیکن مسلم ہونے کے ناطے اور ایک  طالب علم کی حیثیت سے ہر دن اساتذہ کی عزت واحترام کا دن ہوتا ہے جس میں کسی طرح کی خوشنودی اور خوشامد مقصود نہیں ہوتی، حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرمایا کرتے تھے کہ جس نے مجھے ایک لفظ بھی پڑھایا وہ میرا آقا بن گیا، آخر میں میں بصد خلوص ادب و احترام یہ شعر اپنے استاذ  کو نذر کرتا ہوں:
                 ــــــــــعـــــــــ
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
کی صنعت ہے روح انسانی