اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: ہیرا چور سے کھیرا چور تک!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday 28 February 2018

ہیرا چور سے کھیرا چور تک!

تحریر: فہد نذیر عباس متعلم کے ایم سی اردو عربی فارسی یونیورسٹی  لکھنو
Email: fahadabbas980@gmail.com
ــــــــــــــــــــــــــــــ
آج کل سیاسی گلیاروں میں پہر ایک ہیرا چور اور کچھ کہیرا چور پہ بحث و مباحثہ ہو رہی ہے وزیر اعظم سے مشابہت رکھنے والا نام "نیرو مودی" نامی شخص اپنے انمول کارنامہ کی وجہ سے اخبارات کی دنیا میں گردش کر رہا ہے، اس سے پہلے کنگ فشر ایئر لائن کے مالک آنجناب وجے مالیا عوام الناس کے مجلسوں کی گرماہٹ کا ذریعہ بنے رہے، للت مودی بھی کچھ دنوں تک ٹیلی ویژن کی بریکنگ نیوز بنے رہے، امت شاہ کے بیٹے جے شاہ کی کمپنی نے بھی بڑی ہی کم مدت میں کامیابی کا سفر طے کرنے کی وجہ سے  سرخیاں بٹورا، آدرش، ٹو جی اسپیکٹرم، آگسٹا ویسٹ لینڈ جیسے اور بھی بڑے بڑے گھوٹالوں نے بھی خوب نام کمائے، لیکن یہ سب سرد خانہ میں چلے گئے، کوئی ٹھوس اقدامات نہیں ہوئے، اور مکار سیاسی حضرات کے وعدے صرف ایک سراب اور جملے ثابت ہوئے اور ہمیں غالب کی  یہ شاعری یاد آگئی:
تیرے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا                                                                 کہیں نہ کہیں یہ بات درست ہے کہ یہ سب چوکیدار کے ٹھیک ناک کے نیچے ان ہی کے اشاروں پر ہو رہا ہے، این ڈی اے حکومت کو گیارہ ہزار تین سو تیس کروڑ لے کر بھاگ جانے والے بھگوڑے کی خبر تھی، چونکہ پی۔ ایم۔ او کو اس کی خبر دی گئی تھی لیکن کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا، دوسرے لفظوں میں ملک کے نگہبانوں نے وجے مالیا کی طرح، للت مودی کی طرح نیرو مودی کو بھی ملک سے بھاگ جانے کا پورا پورا موقع فراہم کیا، یہ تو کچھ بڑے بڑے گھوٹالے ہیں جس پر ایکشن بھلے نہ لئے جائیں، لیکن اخبارات کی سرخیاں بن جاتے ہیں اور کچھ ڈبیٹ اسٹوڈیو کی نذر ہو جاتے ہیں لیکن بے شمار چھوٹی کمپنیاں اور درجنوں بڑی کمپنیاں کروڑوں اربوں روپئے ڈکار لیتی ہیں، این۔ پی۔ اے کے نام پر ملک کو چونا لگانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں، کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی، 448 چھوٹی کمپنیاں کروڑ روپئے ڈکار چکی ہیں، ابھی 19/جنوری 2018 کو بھوپال کے ایک تاجر نے پی این بی بینک کو 80 کروڑ کی چپت لگا دی، 30/مارچ 2016 کو اندور کے ستائیس تاجروں کو ول فل ڈیفالٹر بتاکر چھوڑ دیا گیا جن پر دوسو سترہ کروڑ کا قرضہ تھا، پی این بی بینک کو مئی 2016 میں پانچ ہزار تین سو ستر کروڑ کا نقصان ہوا تھا، آج نیرو مودی اس کی دوگنی قیمت کا گھوٹالہ کر کے چمپت ہو لئے، آٹھ مرتبہ غلط طریقے سے ایل او یو جاری کرایا، دوسرے بینکوں کا بھی حال کچھ اطمینان بخش نہیں ہیں، جعلسازی کے معاملہ میں پی این بی سر فہرست ہے، گذشتہ پانچ مالی سال میں جعلسازی کے 389 کیس سامنے آئے ہیں جو 65.62 ارب روپئے کے ہیں، اسکے بعد بینک آف بڑودہ کا نمبر آتا ہے، اس کے بھی 389 کیس سامنے آئے ہیں، اس بینک کا 44.73 ارب کی رقم قرض کے دھوکہ دہی میں ڈوب گئی، تیسرے نمبر پر بینک آف انڈیا ہے ،اس کے 231 کیس سامنے آئے ہیں جس میں 40.5 ارب کی رقم بٹہ کھاتہ یعنی این پی اے میں چلی گئی، اسی طرح اس بینک کو سترہ سال میں پہلی بار چار سو سولہ کروڑ کا نقصان ہوا، حیران کن امر ہے کہ امبانیوں، اڈوانیوں ،مالیاؤں اور مودیوں جیسے دھنا سیٹھوں کے آٹھ لاکھ کروڑ جیسی خطیر رقم معاف کر دی جاتی ہیں جبکہ کسانوں کو دی جانی والی رقم  ایک لاکھ ساٹھ ہزار کروڑ روپیہ معاف نہیں کیا جا رہا ہے، سوٹ بوٹ کی اس سرکار میں رواں سال جنوری میں مہاراشٹر کے 104 کسان نے قرضہ سے تنگ آکر خودکشی کر لی، یوپی میں محمود آباد کے ایک کسان گیان چند کا دلدوز واقعہ بھی ذرا سنیں، اس کسان نے ٹریکٹر خریدنے کیلئے فائنانس کمپنی سے قرض لیا، تمام قسطیں ادا کردی، صرف 90 ہزار روپے دینے باقی رہ گئے تہے ،لہذا کمپنی کے عملہ ٹریکٹر چھین کر لے جانے لگے، بیچارہ کسان اسے برداشت نہ کر سکا لیکن مزاحمت کرنے پر ٹریکٹر سے گیان چند کو ہی کچل دیا گیا، جسنونت سنگھ کی بھی خود کشی کی خبر منظر عام پر آئی تھی، ابھی کچھ دنوں پہلے بندیل کھنڈ کے ایک کسان رام راج خود کشی کرنے جارہے تھے لیکن پولیس نے اسے بچالیا، کاش ان کسانوں میں سے کسی نے نیرو مودی فراڈ مینجمنٹ کورس کیا ہوتا تو وہ بھی نیرو مودی کی طرح ڈاؤس چلا جاتا، کالا کوٹ زیب تن کر کرکے وزیراعظم کے پیچھے کھڑا ہو جاتا، فوٹو کھیچوا لیتا اور پورے ملک کو چونا لگا کر چمپت ہو لیتا، اگر اسی صورتحال کو بدل کر دیکھے کہ اگر نیرو مودی کسان ہوتا تو اس کے بدن کے میل تک کی نیلامی ہو جاتی، ہم شکریہ ادا کرتے ہیں ضمیر فروش ہیرا چور نیرو مودی کا کہ انہوں نے ارنب گوسوامی اور سدھیر چودھری جیسے دیگر تنخواہ دار صحافیوں کو بھی نمک حرامی پر مجبور کیا اور بذات خود میڈیا مودی دور کے سب سے بڑے معاشی اسکینڈل کا شاہکار بن گیا، نیرو مودی نے اس خام خیالی کو بھی غلط ثابت کردیا کہ نریندر مودی پہلے وزیراعظم ہیں جن کے دور میں کوئی معاشی اسکینڈل نہیں ہوا، جبکہ یہ مٹھی بھر افراد کی طرف سے پہیلائی ہوئی پیڈ نیوز اور آی ٹی سیل کی مرہون منت ہے، ٰکچھ وزرائے اعظم کی ایمانداری و دیانتداری کی تو قسمیں تک کھائی جاسکتی ہیں اور وہ ہیں اس ملک کے دوسرے وزیراعظم لال بہادر شاستری اور وی پی سنگھ ،وی پی سنگھ کے بارے میں تو یہ مشہور بات تھی کہ وہ راجہ نہیں، فقیر ہے ،اٹل بہاری واجپئی کا بھی کردار بے داغ سمجھا جاتا ہے، ہم اس لئے بھی ان کے قدر داں ہیں کہ انہوں نے عوام الناس کو بیدار کیا کہ اصل مسائل صرف بابری مسجد، رام جنم بھومی، مولانا سلمان ندوی، رانی پدماوتی و علاء الدین خلجی ،اسلامی دہشت گردی، لو جہاد اور طلاق ثلاثہ نہیں ہے بلکہ معاشی نظام ،بینکنگ سسٹم، روزگاری، عوام الناس کی گاڑھی کمائی پر ڈاکہ زنی سے تحفظ بھی ہے، دنیا کی نظروں میں ہمارا بینکنگ سسٹم بدنام ہونے کی وجہ سے بھلا کوئی غیر ملکی سرمایہ کار سرمایہ کاری کریگا، اب سمجھ میں آیا کہ بینکوں کی غیر ذمہ دارانہ کار کردگی کی وجہ سے ہی این ڈی اے حکومت اس بل کو پاس کرانے کیلئے کمر بستہ تھی جس کی رو سے فکس ڈپازٹ میں جمع کی گئی رقم میں سے صرف ایک لاکھ کی گارنٹی دی جائیگی، بقیہ قسطوں میں جمع کی جائیگی جس کی کوئی متعینہ مدت نہیں ہوگی اور عدالت میں اس کی شکایت کا بھی جواز نہیں ہوگا،  تعجب کی بات ہیکہ لوک تنتر کو لوٹ تنتر بنا دینے والے نیرو مودی جیسے لوگوں کی پشت پناہی کی جاتی ہے، حکومت کے چوکیدار خاموش رہتے ہیں، بلکہ ان کے سامنے کشکول گدائی لئے کھڑے رہتے ہیں، چند پھوٹی کوڑی کے عوض ملک کی عزت و توقیر کو گروی پہ رکھ دیتے ہیں اور پوری قوم و ملت کا سودا کر دیتے ہیں، ان نام نہاد محب وطن سے بھی ہمیں شکایت ہے جو حب الوطنی کا سر ٹیفکٹ دیتے پھرتے ہیں لیکن ملک کے معاشی نظام، سیاسی نظام اور تعلیمی نظام پر لب کشائی تک نہیں کرتے، کیا ایسے ہی ہندوستان کا خواب دیکھا تھا ہمارے مجاہدین آزادی نے اس کے لئے اکیلے سیاسی نظام قصور وار نہیں ہیں بلکہ ہم بھی برابر کے شریک ہیں کہ ہم نے ابھی تک صرف چہرے بدلے ہیں نظام نہیں بدلا، ملک کی نوشتہ تقدیر پر اگر آنکھیں نم ہو، تو ذرا بتائیں کہ ہما شما کیا کر سکتے ہیں، ملک لوٹنے والوں کو لوٹنے دیجئے، کیونکہ آپ ایماندار لوگوں کی ڈکشنری میں سیاست حرام ہے، لیکن بے ایمان لوگوں کی حکمرانی قبول کرنا، ان کے ظلم  سہنا جائز ہے اور کربلا کا واقعہ تو صرف اسٹیج پر سنانے کے لئے ہے نہ کہ عملی زندگی میں برتنے کے لئے، ہمارا کام مورچہ سنبھالنا نہیں ہے بلکہ صرف بکواس کرنا ہے، لہذا میں بھی ایک بکواس کرنا چاہوں گا کہ نیرو مودی نے پی این بی کے ساتھ جو کیا سو کیا، لیکن برا کیا کہ پرینکا چوپڑا کو اپنے ہیروں کا برانڈ ایمبسڈر بنا کر معاوضہ نہیں دیا، پرینکا چوپڑا کے اربوں مداحین ہیں، وہ کروڑوں نوجوانوں کے دلوں کی ڈھڑکن ہیں، ہمارے ملک کی حسین اور مایہ ناز اداکارہ ہیں، بزرگ کہتے ہیں کہ حسینوں کی بد دعا لینا اچھا نہیں ہوتا۔