اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: آج کے ڈیجیٹل گھروں میں موبائل کا کردار!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Sunday 25 March 2018

آج کے ڈیجیٹل گھروں میں موبائل کا کردار!

تحریر : عزیز اعظمی اسرولی سرائمیر
ـــــــــــــــــــــــــ
شادی کے فورا بعد بھابھی ، بھیا کے ساتھ  دبئی چلی گئیں ایک سال بعد جب وہاں سے واپس آئیں تو گھر کو ایسی جدت بخشی ایسا نفیس بنایا کہ ہر چیز مخملی ہو گئی  ٹیبل سے لیکر سوفے تک بیڈ سے لیکر الماری تک سب کچھ ریشمی گلاف سے ملبوس ہوگیا ۔ بھیا اور بھابھی کی وجہ سے گھر ہی روشن نہیں بلکہ پورا گھر روشن خیال ہو گیا – ابا کی زندگی میں ہمارے پاس نہ اتنا پیسہ تھا اور نہ ہی ہم اتنے روشن خیال ،  لیکن جب سے بھیا دبئی گئے اللہ نے انکی کمائی میں اتنی برکت دی کہ ہماری طرز زندگی بدل گئی ، ہماری سوچ بدل گئی، اب تو ابو بھی دوسروں کے ابا کی طرح تنگ نظر نہیں رہے ایسے روشن خیال اور جدت پسند ہوئے کہ  بچوں سے بڑوں تک سب کے ہاتھوں میں موبائل  ، ٹیبلیٹ ، ہر کمرے میں ٹی  وی  ، تھری جی ، فورجی ، وائی فائی  سے ڈاٹا تک ، سب کچھ موجود کسی چیز کی نہ تو کوئی کمی اور نہ ہی کسی چیز پر کوئی پابندی  ، ہم اپنی دنیا میں مشغول ، ابا اپنی محفلوں میں مشغول ، شان وشوکت ، نمود و نمائش کے اس ماحول سے ابا اتنا متاثر ہوئے کہ اب گھر کے باہر چار پائی کی جگہ کرسیاں لگنے لگیں ، صبح  ہندی ، اردو کا اخبار آنے لگا ، سیاسی اور سماجی تبصرے ہونے لگے ، شان و شوکت ، آرائش و زیبائش کے اس نئے ماحول اور نئے چلن  سے پورا گھر خوش تھا لیکن اماں خوش نہیں تھیں ، اماں زمانے کے مطابق آرائش و زیبائش ، صفائی و ستھرائی کے حق میں تو تھیں لیکن اس قدر روشن خیالی کہ پورے گھر پر مغربیت طاری ہو جائے، گھر کی بہو ،  بیٹیاں روزہ ، نماز ، تلاوت چھوڑ کر واٹس  اپ ، فیس بک  پر اپنوں اور غیروں کا فوٹو دیکھیں ، کسی گروپ کا حصہ بن کر اپنے جذبات کا اظہار کریں اسکے حق میں نہیں تھیں ، گھر کے دوسرے فرد کی طرح میرے پاس بھی موبائل تھا لیکن امی کی سختی اورانکی پابندی مجھے بہت کم  انٹر نیٹ چلانے کی اجازت دیتی ، اماں ہر پل میرا خیال رکھتیں اور کوشش کرتیں کہ میں موبائل اتنا ہی استعمال کرو ں جتنی ضرورت ہو ، اماں کی تربیت انکی تعلیمات نے مجھے اتنا با شعور بنایا ، مذہبی تعلیمات نے اسقدرپابند بنایا کہ موبائل ہوتے ہوئے  بھی میں ہمیشہ لغویات اور فضول چیزوں سے دور رہتی میری اسی خوبی کی وجہ سے اماں مجھ  پراعتماد کرتیں اورہمیشہ کہتیں کہ "میری بیٹی تو میرا غرور ہے"  میرا مان ہے میرا سمان ہے میں اپنی بیٹی کی شرافت اور سادگی پر فخر کرتی ہوں ، میرے بارے میں اماں کی یہ فخریہ باتیں انکی خود اعتمادی میرے پیروں کی بیڑی اور ہاتھوں کی زنجیر تھی جو مجھے ہر غلط راستے کی طرف لے جانے سے روکتی ، اماں کی تربیت  اور انکے بھروسے نے مجھے اسقدر ذمہ دار بنایا کہ قدم کو گھر کی چوکھٹ سے باہر نکالنا تو دور دروازے اور کھڑکیوں سے جھاکنے کی بھی ہمت نہیں تھی –
میں موبائل تو کم ہی استعمال کرتی لیکن پھر بھی یہ میری عفت اورماں ، باپ کی عزت کے بیچ ایک شیطان کی طرح موجود تھا ، میری ساری شرافت اور سوج بوجھ کے بیچ ایک فتنہ کی طرح میری تکیئے کے نیچے رہتا اورایک دن وہ فتنہ رنگ ٹون کی شکل میں میری زندگی میں آیا کسی سھیلی کا فون ہوگا یہ سوچ کر فون ریسیو کر لیا لڑکے کی آواز سنتے ہی فون کاٹ تو دیا - لیکن اسی دن سے کال اور میسیج کا ایسا سلسلہ بندھا کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیا ، اسکا فون تو کبھی ریسیو نہیں کی لیکن اسکے میسیجز پڑھتی رہی ، کبھی وہ اپنے بارے میں بتاتا کبھی میرے بارے میں پوچھتا ، کبھی پل بھر کی سنی ہوئی میری آواز کی تعریف کرتا ، تو کبھی میری پاک دامنی  کی مثال دیتا ، ، اپنی اماں سے ہر بات شئر کرنے والی اس بھروسے مند بیٹی نے ہر بات تو شئر کی  لیکن موبائل چھن جانے کی ڈر سے اس بات کو شئر نہیں کیا ، اسکے بار بار کے میسیج نے آخرمجھے اس بات پرآمادہ کر ہی لیا کہ صرف اتنا پوچھ  لوں کی تم کون ہو اور مجھے کیوں تنگ کر رہے ہو ، لیکن جب ذہن میں اماں کا خیال آتا کہ میری بیٹی تو میرا غرور ہے میرا مان اور سمان ہے تو سہم جاتی میسیج کو ڈیلیٹ کرتی پھر اپنے آپکو سمجھاتی کی اما کے بھروسے کو نہیں توڑونگی لیکن شیطانی چال ، انسانی دماغ پھر یہ کہتا کہ کیا ہوا اگر اک میسج کردوں میسج ہی تو ہے کون سی آفت آجائے گی  -لیکن پھر ابا ، بھیا کا خیال آتا انکی عزت ، شہرت اور خاندانی وقار کا خیال آتا تو دہل جاتی سارا میسج ڈیلیٹ کرتی  لیکن تھوڑی دیر بعد پھر لکھتی اور پھر مٹاتی اسی کشمکش میں کئی دن بیت گئے لیکن ایک دن شیطان غالب ہوا اپنے آپکو تسلی دیتے ہوئے ایک میسج ٹائپ کیا اور اسکوبھیج دیا اور اسی رات میں نے اپنی تباہی کا آغاز کرکے موبائل آف کیا اور سو گئی ۔
صبح اسکا میسج دیکھا پھر جواب دیا اور اسکے سوال و جواب میں اس طرح  الجھی کہ اپنا شریفانہ وقار ، ماں ، باپ ،  کی عزت ،عظمت ،  خاندانی وقار سب کچھ بھول گئی اب بات صرف میسج تک ہی نہیں رہی بلکہ اب تو چوری چپکے اسے فون بھی کرنے لگی اماں کے ساتھ بیٹھنے کے بجائے موبائل کے ساتھ بیٹھنے لگی ، رات کو سونے کے بجائے جاگنے لگی ، چین سے رہنے کے بجائے بے چین رہنے لگی ، میرا پاگل پن اور دیوانگی اس قدر بڑھی  کی رات کی تاریکی میں کبھی  چوکھٹ سے باہر نہ نکلنے والا یہ قدم ایک دن ، دن کے اجالے میں دہلیز پار کر گیا ،  میرے بارے میں اماں کو پتہ چلا تو صدمے سے بے ہوش ہوگئیں ، بھیا ، ابا کے کان میں خبر پہونچی تو انکے پیروں کے نیچے سے زمیں نکل گئی ۔ ماں اپنی ممتا سے مجبور ، باپ ، بھائی عزت و غیرت سے مجبور اسی شخص سے میرا رشتہ طے کر دیا جس کے لئے میں نے ماں باپ کی عزت کو سر بازار رکھ دیا ،  دیواروں کے کان تو نہیں ہوتے لیکن جب کسی کی عزت و غیرت داو پرہو تو دیواروں کے بھی کان نکل آتے ہیں میرے آنا فانا رشتے سے غیروں میں توکوئی ہلچل نہیں ہوئی لیکن اپنوں میں طوفان مچ گیا کسی کی اچھائی کہاں نظر آتی ہے اگر برائی سامنے کھڑی ہو،  معزز معاشرے نے میری اس غلطی پر پردہ ڈالنے کے بجائے بڑی فراخ دلی سے دل کھول کر چوک چوراہوں پر چائے کی چسکیوں میں میرے والدین ، گھر اور خاندان کا مضوع بحث بنایا گیا ، اپنا گریبان دیکھے بغیر جس حد تک ہو سکا لوگوں نے بدنام کیا ، ماں ، باپ کی عزت بیٹیوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے  لیکن میں بدنصیب ، شیطانی چال کا شکار انکی عزت و عظمت کو بیچ کراپنی بدنامی اٹھائے،  رسوائی لپیٹے ، نظریں جھکائے اس گھر سے وداع ہو گئی –
اللہ کچھ لوگوں کی دنیا سنوارتا ہے تو کچھ  لوگوں کی آخرت لیکن میں ایسی بدنصیب رہی کہ جسکی نہ تو دنیا سنورسکی نہ ہی آخرت ، رسوائی اور بدنامی کا بوجھ  لئے ماں پاب  کے گھر سے نکنے کے بعد نہ سسرال میں عزت مل سکی نہ سماج میں جس شخص کے لئے میں نے گھر چھوڑ دیا ، ماں ، باپ ، بھائی بہین چھوڑ دیئے وہ شخص اس قدر بے وفا اور بے مروت نکلا کسی اور کے پیچھے  آج وہ مجھے چھوڑ گیا ۔