اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: آنکھوں دیکھا حال، گاؤں کرہی، ضلع سنت کبیر نگر، یوپی،

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday 30 April 2018

آنکھوں دیکھا حال، گاؤں کرہی، ضلع سنت کبیر نگر، یوپی،

محمد شمیم  دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس وقت گاؤں کا ماحول خوشگوار ہے ، علمی تاریخی گاؤں کی کوکھ سے محبت اخوت اپنائیت بتدریج لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو رہی ہے، نوجوانوں میں دینی جذبہ دیکھ کر دلی مسرت ہوئی.
سچ یہی ہے کہ اللہ کی خوشنودی کے حصول کے لیے غریبوں کی امداد انکی دیکھ ریکھ بیواؤں یتیموں کی خبر گیری، ان کے دکھ درد میں شریک ہونا، ان کے  پیرہن و خورد و نوش کا انتظام کرنا، یہ  سچے عاشقِ نبی کے امتی کا شیوہ ہے، احادیث میں تواتر سے پایا جاتا ہے کہ ﯾﺘﺎﻣﯽٰ ﻣﺴﺎﮐﯿﻦ اور ﺑﯿﻮﮔﺎﻥ ﭘﺮ ﺷﻔﻘﺖ ﻭ ﺭﺣﻤﺖ  ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم  حد درجہ فرمایا کرتے تھے، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﯾﺘﯿﻢ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﮔﯿﺮﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﺎ ﺩﺭﺟﮧ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻧﮕﺸﺖِ شہادت اور درمیانی انگلیﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﮐﭽﮫ ﮐﺸﺎﺩﮔﯽ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ” ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﺘﯿﻢ ﮐﺎ متکفل یعنی رکھوالا ﺧﻮﺍﮦ ﯾﺘﯿﻢ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺭﺷﺘﮧ ﺩﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﻮ ﯾﺎ ﺍَﺟﻨﺒﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﻮ ﺑﮩﺸﺖ ﻣﯿﮟ ﯾﻮﮞ ﮨﻮﻧﮕﮯ “ ‏( ﻣﺸﮑﻮﺓ ﺑﺤﻮﺍﻟﮧ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺑﺎﺏ ﺍﻟﺸﻔﻘﺔ ﻭﺍﻟﺮﺣﻤﺔ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﺨﻠﻖ ‏)
کرہی تاریخی گاؤں ہے یہ گاؤں کرہی مدرسہ کے نام اس علاقے میں مشہور ہے تاریخی گاؤں اس لیے ہے کہ اس مدرسہ کے بانی حضرت مولانا سید جعفر علی نقوی رحمۃ اللہ علیہ، میر منشی،مجاہدِ بالا کوٹ، میر کارواں، حضرت مولانا سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ بالا کوٹ کی جنگ جو سن 1831 میں ہوئی، اس جنگ میں شرکت کیلئے جب آپ گاؤں مجھوا، ضلع بستی، یوپی، سے تشریف لے گئے تو سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھارہ توپوں کو داغ کر آپ کا استقبال کیا، اور اٹھارہ توپوں سے آپ کو سلامی دی گئی، مولانا جعفر نقوی صاحب آپ کے بہت معتمد اور خاص تھے، حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کے بعد جو باقی ماندہ لوگ تھے انہوں نے حکومت سے ٹکرانے کا ارادہ ترک کر دیا، اور آپسی مشورے سے منصوبہ بندی کی گئی، کہ دینی تعلیمی بیداری مسلمانوں کی نئی نسلوں میں پیدا کرنے کے لیے مدارس کا قیام عمل میں لایا جائے، حضرت کو یہ ترائی کا پورا علاقہ ملا تھا، حضرت نے تشنگانِ علومِ نبوت کی پیاس بجھانے کے لئے ایک مدرسہ کرہی گاؤں، دوسرا نیپال کی سرحد پر، تیسرا بہار میں شروع کیا، حضرت نے سن 1832  کرہی میں مدرسہ عربیہ جعفریہ ھدایت العلوم  کی بنیاد رکھی، حضرت مولانا جعفر نقوی صاحب رحمہ اللہ جید عالم دین اور سید خانوادے سے تعلق رکھنے والے تھے، ان کے اخلاص کی برکتوں سے آج بھی کرہی کا مدرسہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے ہزاروں حفاظ کرام اور ششم تک عالم کاکورس کرکے مزید دارالعلوم دیوبند، مظاہر العلوم سہارنپور، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے فضیلت حاصل کرکے ہندوستان کے متفرق مقامات پر اپنے علم سے لوگوں کو سیراب کر رہے ہیں -
یہ وہی تاریخی گاؤں ہے جہاں کے دو نوجوان خفیہ طور پر اپنی امداد اللہ کی رضا کے لیےان خستہ حال بیواؤں یتیموں کے گھر پہنچاتے ہیں، جن کے یہاں خورد و نوش کی سخت قلت ہے، جن کا دنیا میں سب سے بڑا سہارا سمجھے جانے والے رفیقِ حیات داغِ مفارقت دے گئے، اپنی زوجہ و فرزندوں کو شدید صدمہ میں اِس خاردار دنیا کے حوالے کر گئے، ان غم زدہ بیواؤں یتیموں کے گھروں میں چولہا جل جائے ان کے یہاں کھانے کا انتظام ہو جائے ان کے بچے بھوکے پیٹ نہ سوئیں،یہ نوجوان اللہ کے نیک بندے محبت الہی میں اپنا پیسہ چھپا کر انہیں پہونچواتے ہیں -
چند روز قبل بعد نماز مغرب میرے والد محترم کچھ رقم امی کو لاکر دئیے، آج دوبارہ لاکر دئیے، تو میں نے امی جان سے معلوم کیا یہ کیسا روپیہ ہے؟ امی نے دو خوش نصیب نوجوانوں کا نام بتایا ایک فضل الرحمن چاچا کے فرزند اسعد بھائی، دوسرے محبوب احمد عرف کوئل بھیا کے صاحبزادے جمن بھائی، امی نے کہا کہ یہ دونوں مستقل رقم دیتے رہتے ہیں،ہمارے انصاری محلے کی دوبیوہ عورتیں ہیں، ان تک اس روپے کو پہنچا دیتی ہوں، میں نے کہا امی جان یہ نوجوان کتنے خوش نصیب ہیں جو جنت میں اپنا محل بنا رہے ہیں، پیسہ بظاہر تو یہ ان بیوہ عورتوں کو دے رہے ہیں، لیکن یہ ان کا پیسہ اللہ کے بینک میں جمع ہو رہا ہے، حقیقت میں یہ تو اللہ کو قرضہ دے رہے ہیں، اور جب آخرت میں اللہ ان کو اس امداد کا اجر دے گا تو ان نوجوان کو اتنی خوشی ہوگی جس کا تصور نہیں کر سکتے  ،مجھے ان نوجوانوں پر رشک آتا ہے کہ صرف اللہ واسطے اس جوانی کی عمر میں  وہ نیکی بھلائی کا وہ کام انجام دے رہے ہیں، جو بڑی عمر کے لوگوں کو بھی کم توفیق ہوتی ہے، اور یہ حضرات ریا شہرت نام نمود کے لیے نہیں دے رہے ہیں، بلکہ پوشیدہ طور پر اپنی رقم کو پہنچا رہے ہیں، تو اللہ کی رحیم و کریم ذات سے قوی امید ہے کہ ان کی امداد خدا کے دربار میں مقبول ہو رہی ہے،ان کا راز فاش اس لیے کر رہا ہوں کہ مزید اور حضرات کے دلوں میں امنگ پیدا ہو وہ بھی اس طرح کے کارِ خیر میں حصہ لینے والے بنیں، دل آزاری ہو تو پیشگی معذرت خواہ ہوں،
انسان متعدد بار پوشیدہ طور پر معصیت میں مبتلا ہوتا رہتا ہے تو اللہ اس کے گناہ اس طرح سے ظاہر کرتے ہیں کہ لوگ اس کا نام لیتے ہیں تو اس پر لعن طعن کرتے ہیں، اس کے برعکس کوئی شخص بار بار خفیہ طریقے پر نیکی کرے اللہ کے نام پر صدقہ خیرات کرے اللہ اس کو بھی ظاہر کر دیتے ہیں، اور لوگوں کو دکھا دیتے ہیں کہ مجھ سے محبت کرنے والے میرے عشاق بندے ایسے ہوتے ہیں جو میری محبت میں میرے نام پر اپنا قیمتی روپیہ خرچ کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ لوگ ایسے سخی فیاض کریم النفس حضرات سے محبت کرتے ہیں، کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
             ـــــــــعــــــــ
سخاوت نے ان کو دھنی کر دیا ہے
غریبوں کی سچی دعا لے گئے وہ

احباب اس خامہ فرسائی کا اصل مقصد یہ ہے کہ یہ ہمارے دونوں بھائی جو غریب پروری کا کام کر رہے ہیں، یہ ہم سب کے لیے نمونہ پیش کئے ہیں، اپنے عمل سے انہوں نے یہ پیغام دیا ہے کہ آپ کے گاؤں میں آپ کے پاس پڑوس میں کوئی بیوہ غریب . مفلوک الحال عورت ہو اس کے لیے اپنی آمدنی میں سے چند پیسہ دے دیا کریں، آپ کی خیرات سے کسی بیوہ یتیم مسکین کے دو وقت کھانے کا انتظام ہو جائے گا تو ان کی دعائیں دنیاوی زندگی میں آپ کے رنج و غم آفت و بلا کو ٹال دیں گی، اخروی زندگی میں بھی اللہ رب العزت ہر ایک روپیہ کے عوض میں جنت کی عظیم ترین نعمتوں سے سرفراز فرمائیں گے.