اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: رمضان کی آمد آمد!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday 19 May 2018

رمضان کی آمد آمد!

تحریر: شیخ سلمان بن فهد العودۃ حفظہ اللہ

ترجمہ: وصی اللہ قاسمی سدھارتھ نگری
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
رحمتوں اور برکتوں بھرے مبارک ماہ رمضان المبارک کی آمد میں چند لمحات اور باقی ہیں، اس مبارک ماہ کی آمد پر اس کے استقبال میں لوگ دو الگ الگ طرح کی کیفیتوں کے حامل نظر آتے ہیں :
پہلے وہ لوگ جو اس مہینے کی وجہ سے خوش ہوتے ہیں اور اس کی آمد کے موقع پر چند وجوہات کی بنا پر شاداں وفرحاں ہوتے ہیں.
*پہلی وجہ:* خوش ہونے والے لوگ اپنی طبیعتوں کو روزے کا عادی بنائے رکھتے ہیں اور اس کی مشقتوں کے جھیلنے کے لیے تیار کیے رکھتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ احادیث مبارکہ میں بکثرت مختلف دنوں کے روزوں کا استحباب وارد ہوا ہے مثلاً : دوشنبہ، جمعرات، ایامِ بیض، یومِ عرفہ، یومِ عاشوراء اور شعبان وغیرہ مختلف طرح کے وہ مستحب روزے جنہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی خاطر اس لیے مشروع کیا ہے کہ لوگ روزے کے عادی ہوجائیں اور زیادہ سے زیادہ تقوی حاصل کرسکیں.
معاشرہ میں اِن نفلی روزوں کا امرِ واقعی کی شکل میں ایک نمایاں اثر بھی نظر آتا ہے؛ کیونکہ جو شخص نفلی روزے یا کم از کم ایامِ بیض کے روزے رکھتا ہو آپ اسے دیکھیں گے کہ رمضان کے روزے اس پر بھاری نہیں پڑتے؛ بلکہ روزہ اس کی فطرت بن جاتا ہے اس میں مشقت اور تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، ہاں! جو شخص نفلی روزے بالکل نہیں رکھتا تو رمضان اس پر گراں اور بھاری بوجھ بن جاتا ہے.
نفلی روزوں کے سلسلے میں اسلاف ایک شاندار نمونے کے حامل تھے، اس بابت اُن سے عجیب و غریب واقعات منقول ہیں. بطور نمونہ ایک دو واقعات درج ذیل ہیں :
(١) گذشتہ زمانے میں ایک قوم کے پاس ایک باندی تھی، انہوں نے وہ باندی ایک آدمی سے فروخت کردی ؛ چنانچہ جب رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو باندی کیا دیکھتی ہے کہ اس کا آقا رمضان کے استقبال کے لیے قسم قسم کے کھانے پینے کی چیزیں مہیا کررہا ہے جیسا کہ آج کے زمانے میں اکثر لوگوں کا یہی حال ہے، خیر! جب باندی نے یہ سب کچھ دیکھا تو بولی " آپ لوگ یہ کیا اور کس لیے کررہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ رمضان کے استقبال کے لیے یہ سب کچھ ہورہا ہے، باندی نے پوچھا کہ کیا آپ لوگ صرف رمضان ہی میں روزے رکھتے ہیں؟ بخدا میں تو ایسی قوم کے پاس سے آئی ہوں جن کے یہاں پورا سال رمضان کے مانند ہوتا ہے، میری تمہارے یہاں کوئی ضرورت نہیں، مجھے انہیں لوگوں کے پاس لوٹا دو جہاں سے مجھ لائے ہو، الغرض! اس طرح وہ باندی پہلی جگہ واپس چلی گئی.
(٢) حسن بن صالح ایک انتہائی زاہد عبادت گزار متقی اور پرہیز گار بزرگ گزرے ہیں، وہ، ان کے بھائی اور ان کی والدہ ایک ایک تہائی کرکے رات کا تہائی حصہ شب بیداری اور عبادت میں گزاردیتے تھے، جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ اور ان کے بھائی دونوں لوگوں نے پوری رات کو دو آدھے آدھے حصوں میں تقسیم کرلیا، آدھی رات وہ عبادت کرتے اور آدھی رات ان کے بھائی، پھر جب ان کے بھائی بھی انتقال کر گئے تو اب وہ تنہا پوری رات عبادت کرنے لگے، حسن بن صالح کے پاس ایک باندی بھی تھی، کسی نے وہ باندی ان سے خرید لی، جب وہ اپنے نئے آقا کے پاس پہنچی اور آدھی رات گزر گئی تو اٹھ کر گھر میں آواز لگانے لگی *لوگو!  اٹھونماز پڑھو!...لوگو! اٹھو نماز پڑھو!*  لوگ گھبرائے ہوئے اٹھے اور پوچھنے لگے : کیا صبح صادق طلوع ہوگئی؟ باندی بولی : کیا تم لوگ صرف فرض نماز پڑھتے ہو؟ چنانچہ جب صبح ہوئی تو وہ باندی حسن بن صالح کے پاس گئی اور کہنے لگی : آپ نے تو مجھے بہت برے لوگوں کے ہاتھوں بیچا ہے، یہ لوگ صرف فرض نماز پڑھتے ہیں اور صرف فرض روزہ رکھتے ہیں، اس کے بعد کہنے لگی : آپ مجھے ان لوگوں سے واپس لے لیجیے، چنانچہ حسن بن صالح نے باندی کو ان لوگوں سے واپس لے لیا.
دوسری وجہ : ایسے لوگوں کو اس بات پر یقین ہوتا ہے کہ دنیا میں لذتوں اور خواہشوں سے دور رہنا آخرت میں ان کے حصول کا سبب ہے؛ کیونکہ رمضان میں محض اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر اور اس کی اطاعت کے جذبہ سے کھانے، پینے، جماع اور دیگر مفطرات سے باز رہنا جنت میں قسم قسم کی دائمی اور ابدی نعمتوں کے حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، چنانچہ متقی وپرہیز گار لوگ اپنے یقین کی قوت اور پختگی کی بنا پر اس بابرکت مہینے کی آمد کی وجہ سے خوش ہوتے ہیں، اس کے برخلاف ان لوگوں کی حالت ہے جو اس دنیا کی حرام لذتوں میں ہر وقت ڈوبے ہوئے رہتے ہیں، یقیناً دنیا میں ان کا ان لذتوں میں غرق رہنا آخرت میں محرومی کا سبب بنے گا. اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے : جس نے دنیا میں شراب پی لی وہ آخرت میں اس سے محروم رہے گا مگر یہ کہ توبہ کرلے. (بخاری شریف، رقم الحدیث : ٥٢٥٣) لہٰذا دنیا میں شراب پینے والے کو اس شراب سے لطف اندوزی کی سزا یہ ملے گی کہ آخرت کی شراب سے محروم ہی رہے گا اگرچہ جنت میں داخل ہوجائے؛ کیونکہ دنیا میں تو شراب اس پر حرام تھی.
ایک اور حدیث میں ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں : جس نے دنیا میں ریشم کا لباس پہن لیا وہ آخرت میں اسے نہیں پہنے گا(بخاری شریف، رقم الحدیث : ٥٤٩٥)
تیسری وجہ : رمضان المبارک کی آمد پر خوش ہونے والوں کی خوشی کی تیسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایسے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مہینہ اطاعت و فرمانبرداری اور نیکیوں میں آگے بڑھنے کا بہت اہم موسم ہے، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس مہینے میں اللہ تبارک و تعالٰی جو اجر عطا فرماتے ہیں وہ دیگر مہینوں میں نہیں عطافرماتے، پس اس ماہ کی آمد پر اگر اس طرح خوش ہوا جائے جس طرح اپنے گمشدہ محبوب کی آمد کا مشتاق شخص خوش ہوتا ہے یا اس سے بھی زیادہ تو کوئی تعجب کی بات نہیں.
ماہِ رمضان کی آمد پر اس کا استقبال کرنے والوں کی یہ پہلی قسم تھی.
*دوسری قسم* ان لوگوں کی ہوتی ہے جن پر یہ مہینہ گراں گزرتا ہے اور اس کی مشقتیں ان کے لیے بہت بھاری ہوتی ہیں؛ چنانچہ جب یہ مہینہ آتا ہے تو ایسے لوگ اس کو بے موقع کا مہمان سمجھتے ہیں، اس کی ایک ایک گھڑی اور دن رات کو شمار کرتے رہتے ہیں، صبر کا دامن چھوڑ کر اس کے جانے کا انتظار کرتے ہیں، اس مہینے کا ایک دن بھی گزرجائے تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں یہاں تک کہ جوں جوں عید کے ایام قریب آتے ہیں اس مہینے کے ختم ہونے کی وجہ سے ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا. ایسے لوگوں کی یہ کیفیت درج ذیل اسباب کی وجہ سے ہوتی ہے.
پہلی وجہ :  کھانے پینے وغیرہ کی لذتوں اور خواہشوں کا حد درجہ تک عادی ہونا، یہ مہینہ ان کی خواہشات کے لیے رکاوٹ اور قید بن جاتا ہے، ان کے اور ان کی لذتوں کے درمیان حائل ہوجاتا ہے؛ اسی لیے وہ اس کو ایک بوجھ سمجھتے ہیں.
دوسری وجہ : طاعات میں لاپرواہی کا عادی ہونا، یہانتک کہ کچھ لوگ فرائض وواجبات نماز وغیرہ میں بھی کوتاہی کرتے ہیں، چنانچہ جب یہ مہینہ آتا ہے تو چند طاعات کا التزام کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بعض وہ لوگ جو حددرجہ لاپرواہی اور سستی کا شکار ہوتے ہیں اس ماہ میں ان کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ مسجدوں میں آنا جانا شروع کرتے ہیں، جمعے اور جماعتوں میں حاضر ہوتے ہیں روزآنہ نماز، روزے کی پابندی کرتے ہیں؛ لیکن چونکہ وہ ان طاعات سے مانوس نہیں ہوتے، عادی نہیں ہوتے اسی لیے یہ مہینہ انہیں ایک بھاری بوجھ معلوم ہوتا ہے.
اس موقع پر ایک بات کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے: علامہ ابن رجب رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ہارون رشید کا ایک لڑکا ذرا کم عقل تھا، جب رمضان کا مہینہ آیا تو بڑا تنگ دل ہوا اور ایک شعر پڑھا، جس کا ترجمہ ہے : روزے کا مہینہ مجھے آواز دے رہا ہے - ایسا مہینہ نہ آئے -، اس ماہ کے بعد زندگی بھر میں کسی مہینے کا روزہ نہ رکھوں، لوگ اگر طاقت کے بل پر مجھے اس ماہ کا عادی بنائیں گے تو میں اپنی قوم سے اس ماہ کے خلاف مدد طلب کروں گا. پھر اس کو مرگی کا مرض ہوگیا، دن میں کئی کئی دفعہ مرگی آتی تھی، مستقل اس کی یہی حالت رہی یہاں تک کہ دوسرے رمضان کے آنے سے پہلے اس کا انتقال ہوگیا. یہی حال ان لوگوں کا ہوتا ہے جن کے لیے رمضان بھاری ہوتا ہے کیونکہ وہ جن خواہشوں  سے مانوس ہوتے ہیں انہیں ترک کرکے کچھ عبادتوں کا التزام کرتے ہیں، نیز اللہ نے اہل ایمان کے لیے جن نعمتوں کا وعدہ کیا ہے، ان پر ایسے لوگوں کا یقین بھی کمزور ہوتا ہے، اس ماہ کے فضائل اور اس کے اجروثواب کا انہیں استحضار بھی نہیں ہوتا، لہذا اس بابرکت مہمان کے آنے پر اگر اللہ کے سچے ایمان والے بندوں کو حاصلِ ہونے والی خوشی ان لوگوں کو نہیں حاصل ہوتی تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے.