اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: میرے والد، حفظِ قرآن اور تلاوتِ کلامِ پاک!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday 18 June 2018

میرے والد، حفظِ قرآن اور تلاوتِ کلامِ پاک!

فیصل نذیر ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ، سینٹرل یونیورسٹی، نئی دہلی
ــــــــــــــــــــــــــ
بہار کے مشہور ادارے اشرف العلوم کنہواں، سیتامڑھی کے صد سالہ جلسے میں اپنے حفظ کی سند حاصل کرنے آئے حفاظ اور علماء کے جم غفیر کے درمیان اگر کوئی شخص مجھے ان اعزاز کا حقیقی حقدار نظر آیا تو وہ میرے والد ماجد تھے، اور یہ بات میں عقیدت میں ڈوب کر نہیں بلکہ حقیقت میں غوطہ لگانے کے بعد کہہ رہا ہوں.
یہ میرے والد صاحب کے حفظ قرآن اور حفاظت قرآن کی ایک عقیدت و مشقت بھری داستاں ہے، دادا مرحوم عام کسان تھے، مگر علم اور اہل علم کی قدر کرتے تھے، ابو کو جب مدرسہ میں داخل کرنے کا تہیہ کیا تو مدرسے کے مطابق کرتا پاجامہ تک میسر نہیں تھا، پڑوس کے ایک صاحب سے ایک جوڑا لیا گیا، ابو نے جب اس بڑے سائز اور بے ہنگم لباس کو زیب تن کیا تو وہ عجیب سی مضحکہ خیز ہیئت بن گئی۔
اس وقت غربت عام تھی، سبز انقلاب کے اثرات ابھی گا‎ؤں تک نہیں پہونچے تھے، والد صاحب اسی ایک جوڑے کو کئی دن پہنتے ،پھر رات کو شمع جلا کر دھوتے اور صبح آدھا گیلا آدھا سوکھا پہن لیتے، اس مدرسے میں کھانا شکم سیری کی حد تک نہیں ملتا تھا۔
 کچھ ناظرہ پڑھنے کے بعد جب حفظ قرآن کا وقت آیا تو قرآن حکیم خریدنے کی قیمت دستیاب نہیں تھی، تو گا‎‎‎‎ؤں کے ایک صاحب نے قرآن حکیم تحفے میں دیدی، اس وقت موجودہ دور کی طرح مساجد میں بے شمار قرآن کے نسخے موجود نہیں ہوتے تھے اور سعودی عرب کے چھپے مفت نسخے بھی دیہاتوں میں دستیاب نہیں ہوتے تھے، ابو کو جو قرآن میسر ہوا وہ حافظی و نظامی نہیں تھا، جس کی ترتیب حفظ قرآن میں معاون ثابت ہوتی ہے اور  پندرہ سطروں پر صفحہ ختم ہوجاتا ہے اور یہ قرآنی نسخہ ساری دنیا میں بآسانی مل جاتا ہے۔
 مشفق مگر مجبور استاد نے آخر میں یہی سبیل نکالی کہ اسی غیر حافظی اور غیر نظامی  قرآن میں ہی حفظ شروع کیا جائے۔
  ابو نے اسی میں حفظ مکمل کیا، اور اسی ایک نسخے سے تراویح کی تیاری کرتے رہے، آج مدتوں بعد وہ قرآن کریم  اتنا بوسیدہ ہوگیا ہے کہ شروع سے تقریبا دو پارے پھٹ چکے ہیں، ‏عمّ پارہ بھی مکمل غائب ہوچکا ہے، اور وہ نسخہ کہاں سے چھپا تھا اس کا کوئی سراغ نہیں لگ پایا، والد صاحب نے ممبئی کے تمام کتب خانوں میں پتہ لگانے کی کوشش کی، میں نے دہلی میں جامع مسجد  کے علاقے میں بھی وہی  قرآنی نسخہ تلاش کرنے کی تگ و دو کی مگر اسی طرح سطروں والا  اور بعینہ وہی نسخہ نہیں ملا، غرضیکہ والد  صاحب جہاں بھی تراویح پڑھاتے ہیں یہی نادر و نایاب نسخہ ان کے پاس ہونا ضروری ہے۔
تراويح پڑھانے ہی کی غرض سے ابو  1974 میں ممبئی  پہنچے، وہاں مسجد کے نیچے واقع درزی کی دکان پر وقت گزارتے ہوئے آپ نے وہی کام سیکھ لیا،  اور  پھر ممبئی میں ہی رہائش اختیار کر لی ۔ عموما رمضان کو ٹیلروں کا مہینہ کہا جاتا ہے، لیکن والد صاحب نے اپنے کام پر ہمیشہ تراویح سنانے کو ترجیح دی، والد صاحب کی یاد داشت کے گاؤں میں بہت قصے مشہور ہیں، وہ محض اس لئے کہ ان کے ہم عصروں اور ہم درسوں میں تراویح کو اب تک آپ ہی مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں، اور سارے حفاظ کو آپ  اسی کی تلقین بھی کرتے ہیں۔
2001 میں والد صاحب کو ذیابطیس کی تکلیف ہوگئی، سال بھر زیر علاج رہے ، فقط اس  سال والد صاحب نے تراویح میں قرآن کی صرف سماعت کی، مگر آئندہ سال سے ڈاکٹر کی ممانعت کے باوجود، بغیر قرآن و تراویح کے ماہی بے آب کی طرح پھر سے دریائے رحمت میں کود پڑے۔ ابو نے بارہ تیرہ سال کی عمر میں حفظ کرلیا تھا ، آج  وہ سینیر سیٹیزن کی عمر، ساٹھ سال کو پہنچ چکے ہیں، یعنی تقریبا آپ نے بلا ناغہ 47 ،48 سال تراویح سنائی۔
انہوں نے اپنی ہر کامیابی اور ہر خوشحالی کو قرآن کی برکت ہی بتائی،  اور آج اسی فیضِ قرآنی کے بدولت وہ ہر شعبۂ حیات میں ایک کامیاب انسان  ہیں. آج بھی وہ ضعف وعلالت کے باوجود دن بھر دکان پر کھڑے ہو کر کپڑا  کٹنگ کرتے ہیں اور رات میں کھڑے ہو کر قرآن  سناتے ہیں۔ میں ان کو تمام حفاظ کے لئے ایک آئیڈیل مانتا ہوں کہ چاہے جو پریشانی آئے مگر تراويح سنانے سے غفلت، قرآن کریم سے غفلت کے مترادف ہے، اس سال بھی رمضان میں الحمد للہ والد صاحب نے تراویح مکمل کی. اور وہ ہمیشہ یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ تاحیات یوں ہی قرآن مجید سنتے سناتے رہیں، اللہ ان کی قرآن سے اس لازوال محبت کے طفیل ہم سب کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔