اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: اور پهر درد بڑھتا گیا!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday 27 September 2018

اور پهر درد بڑھتا گیا!

دیوبند ڈینگو بیماری کی زد میں

توقیر غازی
ــــــــــــــــــــ
دیوبند(آئی این اے نیوز 27/ستمبر 2018) بھائی کنارے ہٹو، اباجی ذرا جگہ دیجئے، چاچا تھوڑا سائڈ ہوجایئے. بهیا آپ بھی ذرا گنجائش بناؤ، یہ آواز میرے کانوں میں گئی میں فورا متوجہ ہوا آخر اتنی بهیڑ میں یہ کون؟ ایک پتلا دبلا کمزور طالب علم بیماری سے بلکل لبریز ،آنکھیں لال، چہرا عجیب، گندا لباس، جسم پر لباس کے علاوہ ایک چادر جو مفلسی کا علم(جهنڈا) بن کر اس طالب علم کی تمام کیفیات بیان کررہی تھی، ایک ہاتھ سے گلکوس کا ڈبہ اٹھائے ہوئے دوسرے ہاتھ کو لوگوں سے بچاتے ہوئے آگے بڑھ رہا تها، بهائی کہاں جارہے ہو میں نے آگے بڑھ کر پوچھا. تو اس نے استنجا خانے کی طرف اشارہ کیا اور ہٹو بچو کرتے ہوئے چلتا بنا. میں خود ایک مریض طالب علم کو لیکر ایمرجنسی وارڈ میں ڈاکٹر کا شدت سے منتظر تھا. سیکڑوں مریضوں کے درمیان ایک ڈاکٹر(ڈی کے جین ) کبھی ادھر بھاگنا کبھی ادھر دوڑنا کبھی یہ مریض، کبھی وہ مریض، نارمل مریضوں کی تعداد کم اور ایمرجنسی کی تعداد زیادہ، پورے اسپتال میں مریضوں کا حال کچھ ایسا ہی ہے جیسے سپرفاسٹ ٹرین کی جنرل بوگی، ایک بھی بیڈ خالی نہیں، مزید یہ کہ سیکڑوں مریض اپنا نیزی بیڈ لیکر برآمدے اور گلیارے میں قیام پذیر. ہر دو بیڈ کے بعد ایک طالب علم 100 مریضوں میں 25 سے زیادہ طلبہ مدارس. میں نے اس سے پوچھا مولانا آپ کے ساتھ کوئی نہیں ہے کیا؟.ساتهی آئے تھے لیکن ابھی پڑھنے گئے ہیں اب دوپہر میں آیئنگے یہ کہتے ہوئے وہ پھر اپنے بیڈ کی طرف بڑھ گیا، میں نے دیکھا کئی ایک طالب علم کمبل اور چادر اوڑھے ہوئے لائن میں ہیں پورے ہسپتال میں گهوما. دیکھا، پوچھا، تو پتہ چلا بہت سے ایسے مریض طالب علم ہیں جن کو وقت سے کھانا پانی اور دیگر مشروبات نہیں پہنچ رہے ہیں اور وہ پریشان ہیں پهر ڈاکٹر عدنان کے یہاں جانا ہوا وہاں بھی یہی صورت حال، بھارت چیریٹیبل ہاسپیٹل میں بھی متعدد طلبہ پڑے ہوئے، الحیات ہسپتال میں بھی طلبہ کی اچھی تعداد. ڈاکٹر شمیم کے یہاں بھی بہت سے مہمان رسول ایڈمٹ حد تو یہ هیکہ دیوبند کی گلیوں میں اکثر چھوٹے ڈاکٹروں کے یہاں بھی طلبہ کی جیبیں ٹٹولی جارہی ہیں، منگل کو ایک ساتھی بیمار ہوا وہ مجهے لیکر ایک ڈاکٹر کے یہاں گیا میں نے کہا چلو یار کسی بڑے ڈاکٹر کے یہاں تو اس نے کہا یار یہ ڈاکٹر اچھا ہے صرف تیس روپیہ میں دوا دیتا ہے، خیر میں ساتھ ہولیا القریش ہوٹل کے بعد محلہ خانقاہ میں جو گلی جاتی ہے وہیں ایک ڈاکٹر کے پاس ہم گئےاور دوا لیا ابهی آنے کے لیئے آٹھ ہی رہے تھے کہ میری نظر پیچهے پردے پر پڑی پردا ہل رہا تھا میں آگے بڑھا اور پردا کھینچا تو ایک طالب علم وہاں سجدے کی حالت میں سوکڑا ہوا کانپ رہا تھا میں فورا اٹھایا مولانا کیا ہوا؛ مجهے کچھ اوڑهاو کہکر وہ اپنے چہرے کو عجیب روتا ہوا عاجزانہ نقشہ دے رہا تها، خیر اس سے ان کے ساتھیو کا نمبر لیکر ہم نے رابطہ کیا اور مریض کو فورا ڈاکٹر عدنان کے یہاں بھیجا، بعد میں پتہ چلا کہ یہ بچہ 2 دن سے اسی ڈسپنسری میں بھرتی تھا، اور کافی پیسا اس سے ڈاکٹر نے لیا، ایسا نہیں کہ صرف طلبہ بیمار ہیں بہت سے اساتذہ بھی اس وبا کی زد میں ہیں لیکن اس کا حل کیا ہو، کیسے طلبہ پرسکون رہیں، انہیں راحت پہچانے کے لئے کیا کرنا ہوگا، یہ سوال میرے ذہن میں تھا اور اس سوال کا جواب دینے کے لیے دو تنظیموں نے کمر کس لیا.
جواب حاضر ہے:
میرے کچھ احباب نے مجھ سے تذکرہ کیا کہ "تنظیم ابنائے مدارس "کی جانب سے طلبہ کو راحت رسانی کے سامان مہیا کیے جائیں گے، اور خبر بھی میں نے پڑھی کی میرے کچھ رفیق تنظیم ابنائے مدارس کے تحت ہسپتالوں کا دورہ کررہے ہیں، دوسرے دن اسپتال میں میں خود ان کے ساتھ گیا اور تمام مریضوں میں پهل تقسیم ہوتا رہا.
دو دن ہسپتال میں:
میرا ایک ساتھی بھی اسی بیماری کا شکار ہوا ہم نےڈی کے جین ہاسپٹل میں اسے ایڈمٹ کیا تقریبا دو دن وہاں آنا جانا اور 5،5، گھنٹہ لگاتار رہنا ہوا اس درمیان ہم نے بہت سے ایسے طالب علم دیکھے جو بیمار ہیں، ایڈمٹ ہیں اور بغیر کھانا کھائے سورہے ہیں بغیر ناشتہ اور ضروری مشروبات لیئے پڑے ہوئے ہیں، بہتوں کے پاس پیسہ نہیں، تنظیم ابنا مدارس کے ارکان ایک ایک طلبہ سے پوچھ کر انکی امداد کررہے تھے، ایک طالب علم تو ایسا ملا آج شام بھی وہیں بهرتی ہی تھا اس نے اپنے بغل بیڈ والے مریض سے کچھ روپیہ ادهار لیا اور اب تنظیم اس کا خرچ دے رہی ہے. ..مجهے بہت اچھا لگا.
جب میں نے کاروان امن و انصاف کے عمومی اعلان کو واٹسپ پر پڑها جو طلبہ کی ہر طرح کی امداد کے لیے کھڑی ہے، اللہ تعالٰی ان تمام رضا کاروں کو بہتر بدلہ نصیب فرمائے. آمین
اور آخر میں:
ابھی طلبا کثیر تعداد میں بیمار ہیں، ایک طرف بیماری دوسرے طرف ڈاکٹروں کی سر چڑهتی فیس، مزید بر آں رکشہ والوں کا مریض کو دیکھ کر کرایہ بڑها دینا، اور ہمارے اپنوں کی بے توجہی نے ایک بار پهر مجهے سوچ میں ڈال دیا ہے.
کیا طلبہ ایسے ہی پریشان رہیں گے؟
کیا ایسے ہی در در کی ٹهوکریں کهائیں گے؟
اکیلے اسپتالوں میں سڑتے رہیں گے؟
ماں، باپ مزید روحانی ماں باپ  (استاذ) کے رہتے ہوئے بھی یتیم رہیں گے؟
جهولا چهاپ ڈاکٹر کب تک ہمارے جیب کترین گے؟
کب تک ہم ایمبولینس خرچ سے بھی زیادہ رکشہ کا کرایہ دیں گے؟
خدارا طلبہ کو ایسے نظر انداز نہ کریں کل رب کریم کے دربار میں جوابدہ ہونا ہے، صاحب کچھ تو قدم بڑهایئے. سونے کا بہانا مت کیجیے، اٹهیے صاحب ہسپتالوں میں طلبہ پریشان ہیں، پیسہ نہیں چاہیے تیمار داری تو کر لیجیے.
اللہ تعالٰی اہلیان دیوبند کو اور طلباء مدارس کو اس وبا سے محفوظ فرمائے، اور جو بیمار ہیں انہیں شفا نصیب فرمائے. آمین یا رب العالمین.