اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: دو گناہِ کبیرہ!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Sunday 30 September 2018

دو گناہِ کبیرہ!

از قلم: وقار احمد قاسمی غالب پوری
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
أعوذبالله من الشيطن الرجيم، بسم الله الرحمن الرحيم ولا تقربو الزنی إنه کان فاحشة و سآء سبيلا (اسراء:۳۲)
''زنا کے قریب نہ جاؤ۔ وہ بڑی بے حیائی اور بہت بری راہ ہے''
لا ينظر الرجل إلى عورة الرجل ولا تنظر المرأة إلى عورة المرأة ولا يفضى الرجل إلى الرجل في الثوب الواحد ولاالمرأة إلى المرأة في الثوب الواحد. (صحیح مسلم حدیث نمبر ۸۳۳)
''کوئی مرد کسی مرد کے ستر پر نظر نہ ڈالے اور نہ کوئی عورت کسی عورت کے ستر پر نظر ڈالے اور نہ مرد مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں ہو جائیں اور نہ عورت عوت کے ساتھ ایک کپڑے میں ہو جائیں''۔
اسلام جب کسی چیز کو حرام کر دیتا ہے تو اس کی طرف جانے والے راستوں کو بھی مسدود کر دیتا ہے اور اسکے تمام ذرائع و مقدمات کو بھی حرام قرار دیتا ہے ۔
لہذا جو چیزیں سوئے ہوئے جذبات کو جگانے والی، مرد وزن کے لیے فتنہ کا دروازہ کھولنے والی اور بے حیائی کی ترغیب دینے یا اس سے قریب کرنے یا اس کا راستہ ہموار کرنے والی ہوں تو ایسی چیزیں مفسدہ کو دفع کرنے کی غرض سے ممنوع اور حرام قرار پاتی ہیں۔
اسلام نے جن ذرائع کو حرام ٹھہرایا ان میں سے ایک ذریعہ مرد کا اجنبی عورت کے ساتھ خلوت میں رہنا یعنی ان عورت کے ساتھ خلوت میں رہنا جو نہ بیوی ہو اور نہ ان رشتہ داروں میں سے ہو جن سے ابدی طور پر رشتہ ازدواج حرام ہے ۔ مثلاماں، بہن، پھوپھی، اور خالہ وغیرہ ۔ یہ حرمت اس وجہ سے نہیں کہ مرد یا عورت پر اعتماد نہیں ، بلکہ دراصل ان کو وسوسوں اور برے خیالات سے بچانا مقصود ہے ؛ کیوں کہ جہاں مردانہ اور زنانہ خصوصیات کو جمع ہونے کا موقع ملا اور وہاں کوئی تیسرا آدمی موجود نہ ہو تو دلوں میں خلش پیدا ہو سکتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا :
'' من كان يومن بالله واليوم الآخر فلا يخلونّ بإمرأةِِليس معها ذو محرمِِ منها فإن ثالثهما الشيطن'' (مسند ابن حنبل حدیث نمبر ١٤٦٥١) جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہ رہے جہاں کوئی محرم موجود نہ ہو کیوں کہ ایسی صورت میں ان دو کے ساتھ تیسرا شیطان بھی موجود ہوتا ہے۔
مطلب یہ کہ یہ خلوت باعث خطر اور موجب ہلاکت پے ۔ اگر آدمی معصیت کا مرتکب ہوتا ہے تو یہ دینی ہلاکت ہے اور اگر شوہر کی غیرت اسے اس بات کے لیے آمادہ کرتی ہے تو یہ عورت کے لیے ہلاکت ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کا اثر صرف انسانی جذبات اور خیالات ہی پر نہیں پڑتا بلکہ اس کی زد میں خاندان کی زندگی، میاں بیوی کے گذر بسر کے حالات اور ان کی راز دارانہ باتیں بھی آجاتی ہیں اور گھروں میں بگاڑ پیدا کرنے والوں کو زبانیں دراز کرنے کا موقع مل جاتا ہے ۔
جب غیر شادی شدہ عورت کا مسئلہ اتنا باریک اور کمزور ہے تو شادی شدہ اگر ایسی نازیبا حرکت کرے تو کیا حال ہوگا کبھی سوچا آپ نے ؟ شادی شدہ عورت کے لیے تو یہ ہے کہ جب تک وہ کسی شخص کے نکاح میں ہے دوسرے شخص سے نکاح بھی نہیں کر سکتی تو کہاں سےشوہر کے علاوہ کسی دوسرے مرد کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہے؟شریعت نے ایساکرنے سے سخت منع کیا ہے اور ایسا کرنے والوں کی سزا بھی بہت سخت ہے ۔ لیکن آج کہیں مرد کو مرد سے نکاح کرنا جائز قرار دے دیا گیا تو کہیں شادی شدہ عورت کو یہ اجازت دے دی گئی کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر غیر مرد کے ساتھ تعلق قائم کر سکتی ہے۔ یہ کیسی بے ہودہ بات ہے ؟ یہ حرام ہے حرام ، یہ مرد و عورت کا حق اور اس کامیابی نہیں بلکہ وطن و خاندان اور معاشرے کو ناپاک کرنا ہے ۔ افسوس تو یہ ہے کہ جسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی نہیں وہ آسمانی مذاہب میں دخل اندازی کر رہے ہیں اور ان پر ایمان رکھنے والے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر خاموش ایسے بیٹھے ہیں جیسے کی ان کی زبانوں پر تالا لگا ہوا ہے اور اسی بنیاد پرہر شریعت میں دخل اندازی کر کے اس کے پیرکاروں کو کمزور کیا جا رہا مگر ہمارے دل و دماغ میں یہ بات نہیں سمجھ آرہی ہے۔ ان قانون ساز کو ذرا بھی عقل ہوتی تو یہ موقف ہر گز نہیں اپناتے ۔
یہ بات تو مسلم ہے کہ اگر مرد لواطت جیسی گھنونی حرکت کرنے لگے اور شادی شدہ عورت غیر مرد کے ساتھ رات گذارنے لگے جس سے زمین کانپ جاتی ، آسمان لرز اٹھتا ہے ، یہ فضائیں چیخنے لگتی ہیں اور اللہ ایسے غضب میں ہو جاتا ہے کہ ان کو زمین کے اندر دھنسا دے اور قیامت تک وہ دھستے رہیں، تو ایسا کام کرنے والوں پرفحشاء اور خبیث کا اطلاق ہوگا، انسانی فطرت ایسی حرام اور ناجائز حرکتوں کو قبیح اور معیوب خیال کرے گی اور یہ بات بھی دل میں بٹھا لیں کہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کبھی بھی کسی خاندان کی صحیح تشکیل نہیں ہو سکے گی جس کے زیر سایہ رحمت، شفقت، محبت اور ایثار جیسے ارتقا پذیر اجتماعی جذبات پرورش پاتے ہیں اور جب خاندان و نسب صحیح نہیں ہوگا تو سماج کی تشکیل بھی نہیں ہو سکے گی اور وہ ترقی وکمال کی راہ پر گامزن ہرگز نہیں ہو سکے گا۔
جب ہم دیکھتے ہیں کہ تمام آسمانی مذاہب زنا کے خلاف ہیں اور اس کی حرمت پر متفق ہیں تو ہمیں کوئی تعجب نہیں ہوتا ۔ اور اسلام نے تو اس کی سخت ممانعت اس وجہ سے کی کہ اس کا نتیجہ اختلاط نسب، اپنی نسل پر ظلم، خاندان کے لئے گراوٹ، تعلقات کے انتشار، امراض کے پھیلنے، شہوت کے ابھرنے اور اخلاقی انحطاط کی شکل میں نکلتا ہے ۔
یہی نہیں بلکہ یہ موقف انسان کو انسانیت کے مقام سے گرا کر حیوانیت کی سطح پر لے آئے گا اور فرد سے لے کر وطن تک کے ماحول کے بگاڑ کا موجب بنے گا ۔ یہ موقف انسانیت کو کچلے گا اور اسے جلا کر راکھ کر دے گا۔ یہ موقف اس حکمت کے سراسر منافی ہے جس کی مناسبت سے انسان کو مخصوص ساخت عطا کی گئی ہے۔ جب آسمانی مذاہب نے اس موقف کو درست نہیں کہا تو پھر کون ہوتا ہے کوئی دوسرا اسے صحیح کہنے والا ؟ یہ تو ظلم ہے ظلم ۔ اسلام نے اس بات کو بھی حرام ٹھہرایا ہے کہ مرد اپنی نگاہ عورت پر ڈالے اور عورت مرد پر ؛ اس لیے کہ آنکھیں دل کی کلید ہیں اور نظر فتنہ کا پیغامبر اور زنا کی قاصد ہیں ۔ اسی لیے اللہ نے تمام مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو جہاں اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا ہے وہیں غض بصر کی بھی ہدایت کی ہے: قل للمؤمنين يغضوا من أبصارهم و يحفظوا فروجهم .ط. ذالك أذكى لهم .ط. إن الله خبير بما يصنعون وقل للمؤمنات يغضضن من أبصارهن و يحفظن فروجهن . ( النور: ۳۰/ ۳۱)
اسلام نے زنا ہی کو نہیں بلکہ اس کے اسباب و متعلقات کو بھی حرام قرار دیا ہے ۔
اللہ تبارک و تعالی نے انسان کو زمین کی خلافت، آبادی اور اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے، اس مقصد کی تکمیل اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب کہ انسان اس طرح زندگی بسر کرے کہ زراعت، صنعت،تعمیر اور آبادکاری کے کام اس کے ہاتھوں انجام پاتے رہیں نیز اللہ کا جو حق اس پر ہے اس کو وہ اخلاص کے ساتھ ادا کرتے رہیں.