اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: حوصلہ شکنی!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Sunday 23 September 2018

حوصلہ شکنی!

تحریر: شاکر سیف بن جمعہ دین
متعلم جامعہ امام ابن تیمیہ
موبائل نمبر:9771108501
ــــــــــــــــــــــــــــــ
زید ایک محنتی طالب علم تھا. پڑھنے لکھنے کا شوق تو بچپن ہی سے اس کے اندر تھا، وہ اپنے محنت کے بل بوتے سے ثانویہ تک کی پڑھائی مکمل کر چکا تھا۔ سماج و معاشرہ کی اصلاح کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، دیگر چیزوں میں تو نہیں مگر اعلیٰ اخلاق میں اپنی مثال آپ تھا اور اسی صفت کے بنا پر سب اس سے محبت کرتے تھے، اس کا گھرانہ نہایت ہی مفلوک الحال تھا جس کی بناء پر وہ اس طالب علمی کے حسین موقع کو قطعی فروگزاشت نہیں کرنا چاہتا تھا۔ مگر ایک چیز جو ہمیشہ اس کے سامنے مشکل کھڑی کر دیتی وہ تھا واہ تھا اسکے پڑھائی میں کمزور ہونا، تاخیر سے کوئی بھی چیز سمجھنے والا طالب تھا۔ بارہا اپنے ساتھیوں کے درمیان طعن و تشنیع کے تیر کھاتا۔ طرح طرح کے برے القاب سے ملقب ہوتا، جو اس کے بلند عزائم کو چور چور کر دیتے تھے، خیر یہ تو روزمرہ کا معمول بنا ہوا تھا لیکن آج تو درجہ میں کچھ اور ہی معاملہ ہو گیا۔ استاذ محترم نے نحو پڑھایا۔ عدد معدود کا قاعدہ تھا جس کو زید پورے طور پر سمجھ نہیں سکا، استاذ نے کھڑا کرا کر دو چار سوال پوچھے جس کا اسے جواب نہ بن پایا، ایسے بھی عدد معدود میں تو اچھے اچھوں کا پسینہ چھوٹ جاتا ہے وہ تو خیر کمزور ہی تھا، وہ کیسے سمجھ پاتا، بس اتنا ہونا تھا کہ استاذ محترم نے الٹی سیدھی ڈانٹ پلانا شروع کردیے، ایک سے ایک بھدے جملے استعمال کیے اور کیوں نہ کرتے ان کا تو یہ مشغلہ بنا ہوا تھا کہ طلباء کو معمولی غلطی پر سرزنش کرنا، ان کو ڈانٹنا، مارنا، پیٹنا، زید ان تمام چیزوں کو برداشت کرتا رہا اور معذرت کے ساتھ یہ کہہ دیا کہ شیخ میں کل ساتھیوں کی مدد سمجھ لوں گا، استاذ محترم کا غصہ اور بڑھ گیا اور اسے ڈرتے ہوئے بولے کہ تم اس درجہ میں کیوں پڑھتے ہو؟ تمہیں تو چاہیے کہ تم جا کر کسی مکتب میں داخلہ لے لو، کیوں چلے آئے ہو پڑھنے کے لیے جب کچھ آتا ہی نہیں؟ بس زید کے سینوں میں یہ الفاظ ایسے معلوم ہوتے جیسے کسی پر بم و میزائل سے حملہ کردیا گیا ہوں، ایسا لگا کہ زندگی بھر مرہم لگائی جائے تو زخم بھرنے کو نہیں،حوصلہ شکنی کا یہ معاملہ اس کی زندگی میں ایسا بدلاؤ لایا کہ پھر اس کا کسی بھی طرح کی تعلیم سے دل روٹھ گیا، خصوصا دینی تعلیم سے، خیر جو کچھ ہوا اس کو خاموشی کے ساتھ پی گیا اور اپنے کلاس سے یہ عزم لے کر نکلا کہ آئندہ میں کبھی بھی مدرسے کا منہ نہ دیکھوں گا، خیر پڑھائی لکھائی سے ہاتھ دھو بیٹھا، دینی تعلیم اور اس کے اساتذہ سے اس کو نفرت سی ہوگئی اور اپنے پیچھے بہتوں کو اس تعلیم سے روک دیا۔
قارئین کرام!
 آپ ہی فیصلہ کیجیے نہ کہ اگر استاذ محترم دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے تو نوبت یہاں تک نہ آتی، جو بچہ کل اپنے قوم کا امام ہوتا آج وہ ہوٹل میں کام کر رہا ہے.
آج حالت یہ ہے کہ کوئی دینی تعلیم حاصل نہیں کرنا چاہتا اور  جو چاہتا ابھی اس کے ساتھ ایسا سلوک کرنا کہ وہ مدرسہ ہی چھوڑ دے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری غلطی طالب علم ہی کی ہے مگر یہ نہیں کہ استاذ محترم کا کوئی قصور نہیں، ایک استاد کے لئے یہ زیب نہیں دیتا کہ بچوں کے حوصلہ کو توڑے بلکہ استاد کا کردار یہ ہونا چاہیے کہ وہ بچوں کو تراش کر ھیرا بنائے جو قوم و ملت کو زینت بخشے.
 الغرض یہ صرف ایک زید ہی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس جیسے بے شمار بچے جو اس مرض کے شکار ہوئے ہیں مارے مارے پھر رہے ہیں.
میرا پیغام یہ ہے کہ ہم طلبہ جو اپنے بھائیوں کے علمی کمزوری پر ہنس کر ان کے حوصلہ کو پست کر دیتے ہیں اور حوصلہ شکنی کا شکار بنا دیتے ہیں براہ کرم ایسا نہ کرے، کیونکہ ہر ماں باپ کا خواب ہوتا ہے کہ ہمارا لال پڑھ لکھ کر کچھ بنے، کچھ کرے، مگر آپ کی یہ شرارت اس کی زندگی اور اس کے والدین کے ارمان کو برباد کرنے کے لیے کافی ہے۔