اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: پارلیمنٹ میں مسلم اراکین کی تعداد پر فخر لیکن ان کی زبان ماب لنچنگ پر گنگی کیوں؟

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday 26 June 2019

پارلیمنٹ میں مسلم اراکین کی تعداد پر فخر لیکن ان کی زبان ماب لنچنگ پر گنگی کیوں؟

علی اشہد اعظمی (دوحہ قطر)
ـــــــــــــــــــــ
چند روز قبل پارلیمنٹ میں مسلم اراکین کی تعداد پر ہم بڑا فخر کر رہے تھے۔ آج ان مسلم اراکین کی زبان ماب لنچںگ پر گونگی کیوں ہو گئی؟ کیا۔ ان کی زبان گروی ہے، کیا ان کو مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں، وہ صرف نام کے مسلمان ہیں یا مظلومین اور مہلوکین کو مسلمان نہیں سمجھتے ،کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک دو شیر ہیں جو دہاڈ رہے ہیں میرا ان سارے دہاڑنے والے شیروں سے ایک چھوٹا سوال ہے کیا وہ ان مظلوموں کے گھر کبھی گئے لاکھوں روپئے کماتے ہیں کبھی کوئی مالی امداد کی؟
ان پر ظلم کے بعد ان کے گھر کی جو حالات ہے اس پر کبھی غور و فکر کیا ان کے روز مرہ کی زندگی کا خرچ کیسے چلتا ہے اس کو مدد کرنے کی کوشش کی؟ پارلمنٹ یا اسمبلی سے چلاّ دینے سے ان کو انصاف مل جائے گا ان گونگی بہری سرکاروں کے کان میں جوں تک نہیں رینگے گے، ہمارے رہنماؤں کو سب سے پہلے ان کے گھروں کا جائزہ لینا چاہئے ان پر جو بیتی ہے اس صدمے سے باہر نکالنا چاہیے  ان کے گھر کے کسی فرد کو اپنی آفس اپنے کاروبار میں روزگار مہیا کرانا چاہیے جب ان کا گھر جب ٹھیک طریقے سے چلنے لگے تو اس کے بعد جو بھی آواز اٹھانی ہے پارلمنٹ اور اسمبلی سے اٹھانی چاہیے اور صرف آواز اٹھا کر یہ سمجھ گئے کہ اب ہماری ذمہ داری ختم ہوگئی تو یہ ناکافی ہوگا ہم نے آپ کو لاکھوں کے بیچ سے چن کر صرف اس لئے نہیں بھیجا ہے کی آپ صرف شیر کی آواز میں دہاڑ کر پھر اپنے گھروں میں بیٹھ جائیں بلکہ آپ کو آواز بلند کرنے کے بعد قانونی کاروائی کرنی ہے اس پر زور دینا چاہیے اور اس مسئلے کو عملی جامہ پہنانا چاہیے لیکن ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے اور ملے بھی کیوں نا کیونکہ ہمارے نوجوان ہماری قوم کو ایسا رہنما چاہیے ایسا نیتا چاہیے جو تیز ترار آواز میں بات کرے اپنی تقاریر میں حکومت سے سوال کرے ہم بس اتنے میں ہی خوش ہوجاتے ہیں روز کوئی نہ کوئی شکار ہوتا ہے کبھی اخلاق کے نام پر کبھی جنید کے نام پر کبھی محسن کے نام پر کبھی نعیم کے نام پر کبھی پہلو خان اور رکبر اور تبریز کے نام پر لیکن کیا ہم نے کبھی یہ جاننے کہ کوشش کی کہ ان پر جو ظلم ہوا اس کے بعد اس کے گھر کے روز مرہ کی زندگی معمول پر ہے یا نہیں ان کے گھر کے اخراجات کیسے چلتے ہیں کیا وہ اکیلا فرد تھا اپنے گھر کا کمانے والا ، بہت ضروری ہوتا ہے یہ ذرا غور کریں، آپ جہاں کام کرتے ہیں وہاں سے ایک مہینے کی تنخواہ اگر رک جاتی ہے تو آپ کے گھر کے اخراجات کا جو توازن ہے وہ بگڑ جاتا ہے اور آپ پریشان ہوجاتے ہو سوچو ان مظلوموں کے گھر کا خرچ کیسے چلتا ہوگا ہماری اور آپ کی یہ ذمہ داری ہونی چاہئے کہ خود بھی ان کی مدد کریں اور جنہیں ہم چن کر ایوانوں میں بھیجتے ہیں انہیں بھی احساس دلائیں کہ آپ کی ذمہ داری صرف پارلمنٹ اور اسمبلی تک نہیں ہے بلکہ انہیں پھر سے پہلے جیسے حالات میں لانے کی ہے اور جب تک اںصاف نہیں مل جاتا قانونی لڑائی لڑنے کی ہے اور قانونی لڑائی صرف سرکاری وکیلوں کے بھروسے نہیں بلکہ پرائیویٹ وکیل سے بھی کرانی چاہیے تب انصاف جلد ملنی کی امید ہوتی ہے.