اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: من کی بات!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday 23 April 2018

من کی بات!

مفتی فہیم الدین رحمانی چیرمین شیخ الھند ایجوکیشنل ٹرسٹ آف انڈیا
ــــــــــــــــ
آزادئ ہند کے بعد جس کی حصولیابی کے لئے درختوں کو ثمر کی بجائے علماء کے سروں کو لٹکانا پڑا، پہلا تمغہ قربانی ملا تو اسی کےصدقہ جاریہ کے تحت مسلم انسانیت کو حکومت کے شعبوں سے کوسوں دور پھینک دیا گیا تب بھی ، مگر حریصان تخت وتاج جن کا مقصد زندگی یہی بن گیا تھا کہ مسلمان اس ہندوستان میں قطعاً نہ رہیں اور اگر رہیں بھی تو انھیں زنہار یان ہندو بن کر رہنا پڑے گا جب مسلمانوں کو دوسری راہوں میں تجارتی ؤ اقتصادی ترقی کی ناؤ پر سوار ہوتے دیکھا تو انہیں ایک آنکھ بھی نہ بھایا تو فسادات کے مبارک عمل کی خدمات حاصل کی گئی اور ترقی کی اونچی اونچی عمارتیں اس کی ٹکر سے زمین بوس ہو گئیں تب بھی ، مگر کیا شکوہ انسانی قو ت حافظہ کی گریز پائی کا جسے کسی پل بھی استقلال نہیں ، ان باتوں کو ایک قصبہ پارینہ سمجھ کر پھر سے بچے کھچےمال و اسباب کو بٹور کر تعمیر نو میں لگ جاتا اور کھوئی ہوئی چیز کی پاداش میں اور چھین لی گئی چیز کی بھر پائی میں مشغول عمل ہوجاتا ، اس بار بار کی نوک جھونک سے بچنے کے لئے کسی نئی کیمیائے سعادت کی تلاش ہوئی جو بعنوان ، ، انسداد دہشت گردی ، ، پر ختم ہوئی ، پھر اس بھیانک دیو تا کی بلی میں انگنت لوگ چڑھائے گئے جو کسی بھی صاحب نظر کی نظروں سے اوجھل نہیں ہے ، تب بھی اسی سرمایہ حیات یعنی قناعت کی پونجی کو بغل میں دبائے رکھا گیا ، اور مستقبل قریب وبعید میں سر ابھارتے چھوٹے بڑے حوادث سے نمٹنے کے لئے کوئی لا ئحہ عمل نہ تو تیار کیا گیا نہ ہی اس کی ضرورت محسوس ہوئی ، ہوسکتا ہے ہوئی ہو مگر کی نہیں گئی شاید کہ منصوبہ ، ، انسداد دہشت گردی ، ، کے آغاز میں کچھ احتیاط برتی گئی ہواور بہت سو چ سمجھ کر کسی کو شکار کیا جاتا رہا ہو ، مگر فی الوقت جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہر کتا اپنی گلی کا شیر ہوتا ہے جب خاطر خواہ ان کا مقابلہ نہ کیا گیا اور سوائے منھ بگاڑ نے اور تردیدی بیان دینے اور کفے افسوس ملنے کے سواء کچھ نہ کیا گیا تو دلوں کے اندر چھپا چور جیب کترا اور پھر خونخوار ڈاکو بن گیا جہاں اسلامیت کا کوئی نشان دیکھا کہ رال ٹپکی اور جھٹ سے اسے دہشت گردی کے اونچے لیبل سے نواز دیا ، معاملہ یہیں پر بس نہیں ہوا اور نہ ہی کشت وخون کی درسگاہ کا سبق ہی تمام ہوا بلکہ میدان امتحان کی کچھ مزید ستم کاریاں اور نئی کارفرمائیاں باقی ماندہ تھی جنھیں شاید کہ بیسویں صدی میں ہی اپنی آماجگاہ کو سنوارنا تھا اور اپنے ظلم نومولود طریق کے بازار کو سر گرم کار کرنا تھا لہذا سر کاری ونیم سرکاری خبر رساں ادارے خفیہ اطلاعاتی محکمے اور پولیس کے گروپ ایک نئے تجربے کو آزمانے کے لئے سر جوڑ کر بیٹھے نیز فسادات سے نبرد آزما ں پھر سے پنپتی مسلم انسانیت کو ملک کے جسم کا وبال دوش سمجھ کر صحرائے تعصب وعناد میں جستجو ئے دیوار ہوگئے چنانچہ جسے بھی کچھ نہ کچھ تجارت کی راہ میں ترقی کی دوڑ میں ، تعلیمی شہرتوں کی چھاؤں میں یہاں تک کہ خود سرکاری دفاتر میں ایمان داری کے نفاذ کی کارکردگیو ں میں نمایاں ہوپاتا ، ، دہشت گردی ، ، کے الزام میں گرفتار کر کے سلا خوں کے پیچھے ڈھکیل دیا کہ یہ مضبوط آہنی دیواریں دو بارہ پنپنے کا موقع نہیں دیں گی چہ جائے کہ کسی بھی دوڑ میں شامل ہو سکیں -       ہائے اپنا مختلف تہذیبوں والا مجمع الإبحار ہندوستان جہاں ہر روز صبح مسکراتی ہے تو شام ہر روز پردہ شب پردہ نشیں ہوجاتی ہے جس کی راتیں گاہے ستاروں کی قندیلوں سے جگمگانے لگتی ہیں تو کبھی چاندنی کی حسین رعنائیوں سے حسیں تاب ہوجاتی ہیں جہاں دوپہر ہر روز چمکتی ہے تو شفق ہر روز نکھرتی ہے پرندے ہر صبح وشام چہکتے ہیں تو اسی میں کسی کنارے غموں کے زخم کسکتے ہیں تو آہوں کے ٹیس اچکتے ہیں کسی کی زندگی کی روشنی پر تاریکیوں کے بادل گرجتے ہیں تو کسی کو حیرانی و بے بسی کے میدان تیہ میں لا کھڑا کئے دیتے ہیں کہ انسان اسرار خودی و رموز بے خودی سے نا آشنا ونا انجان بن کر رہ جاتا ہے.