اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: ماہ ذی الحجہ احکام ومسائل!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday 18 August 2018

ماہ ذی الحجہ احکام ومسائل!

فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اسلامی سال کا اخیر مہینہ ذی الحجہ رواں دواں ہے، ان مبارک گھڑیوں میں ہم نے قدم رکھ دیاہے،  ماہ ذی الحجہ کی فضیلت قرآن وحدیث سے ثابت ہے، ان مہینہ کی عظمت کااندازہ اسی بات سے لگایاجاسکتاہے، کہ ماہ ذی الحجہ اشہر حرم میں سب سے افضل مہینہ ہے، بخاری شریف میں ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن کے بارے حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کاپاک ارشاد ہے، ان ایام میں اللہ تبارک وتعالی کونیک اعمال دوسرے ایام کی بنسبت زیادہ پسندیدہ ہے، اس مہینہ کی عظمت فضیلت کے لئے پیارے آقا کایہ مبارک فرمان کافی ہے، جبکہ قرآن میں بھی اللہ تبارک وتعالی نے ذی الحجہ کے ابتدائی دس راتوں کی قسم کھایا ہے، جواس کی فضیلت پر دال ہے،ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ ایام عشرہ میں ایک دن روزہ رکھنے کا ثواب سال بھرروزہ رکھنے اور ایک رات میں عبادت کرناشب قدر میں عبادت کرنے کے برابر ثواب ہے،
..کیا عشرہ ذی الحجہ رمضان کے اخیر عشرہ سے بھی افضل ہے؟
پیارے آقا کافرمان بخاری شریف میں یہ ہے کہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں عبادت کرنا اللہ تبارک وتعالی کو دیگر ایام کے بنسبت زیادہ پسندیدہ ہیں، تواب  سوال یہ پیداہوتا ہے کیا عشرہ ذی الحجہ کو رمضان کے اخیر عشرہ پر بھی فضیلت
حاصل ہے،تواس کا جواب دیتے ہوئے مشہور محدث ملا علی قاری رحمہ اللہ نے مرقات المفاتیح میں فرمایا،عشرہ ذی الحجہ اوررمضان کے اخیر عشرہ کے افضیلت کے سلسلہ میں علماء کااختلاف ہے، آگے قول فیصل  بیان کرتے ہوئے ملاعلی قاری رحمہ اللہ نے فرمایا، رمضان کا اخیر عشرہ رات کے اعتبار سے افضل ہے کیونکہ رمضان کے اخیر عشرہ میں شب قدر ہے اور شب قدر تمام راتوں سے افضل ہے، اور عشرہ ذی الحجہ دن کے اعتبار سے افضل ہے، کیونکہ عشرہ ذی الحجہ میں یوم عرفہ ہے، اور عرفہ کادن تمام دنوں پرفضیلت رکھتاہے، خلاصہ یہ نکلا یہ جوایام گامزن ہیں دن کے اعتبار سے یہ رمضان کے اخیر عشرہ پر بھی فضیلت رکھتاہے، لہاذا اس بابرکت ایام کی قدردانی کریں،
قربانی کس پر واجب؟
امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک صاحب نصاب شخص پر قربانی واجب ہے، قربانی کانصاب وہی ہے جوزکوہ کانصاب ہے، دونوں میں بس فرق یہ ہے کہ زکوہ میں اس مال پر سال کاگزرنا شرط ہے، جبکہ قربانی کے بارے میں مسلہ یہ ہے کہ جوشخص ایام نحر میں صاحب نصاب ہو، اس پرقربانی واجب ہے، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے وجوب قربانی کے سلسلہ میں مضبوط دلائل ہیں، ابن ماجہ شریف کی روایت میں آقانے فرمایا جو شخص صاحب حیثیت ہو، قربانی کی استطاعت رکھتا ہو اور پھربھی قربانی نہ کرائے توہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے، اس حدیث سے مالدار شخص پر جوقربانی نہ کرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی وعید معلوم ہوئی، اور ایک دوسری حدیث میں ہے جس شخص نے نماز عید سے پہلے قربانی کرلیا اس کی قربانی ہی نہیں ہوئی وہ شخص قربانی کااعادہ کرے،اس حدیث سے بھی ثابت ہواکہ قربانی واجب ہے، کیونکہ اعادہ کاحکم وجوب کے لئے دیاجاتاہے، اسی لئے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا، نصاب کے مالک شخص پر قربانی واجب ہے، نصاب سے مراد ساڑھے باون تولہ چاندی یاساڑھے سات تولہ سونا یاان دونوں کی قیمت کامالک ہو، توقربانی واجب ہے، ایسے ہی اگر سونے کانصاب تومکمل نہیں ہے لیکن ساتھ میں کچھ چاندی یاپسیہ ہو تواسے چاندی کے نصاب میں منتقل کیاجائے گا اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی مقدار کوپہنچ جائے تب بھی قربانی واجب ہے، مثلا کسی کے پاس چارتولہ سوناہے ساتھ کچھ چاندی یاروپیہ ہے، تواب سب کوچاندی کے نصاب کی طرف منتقل کیاجائے گا اگر سونا اورروپیہ مل کر چاندی کے نصاب کوپہنچ جائیں توقربانی واجب ہوگی،
....قربانی صرف جانور کی مقصودنہیں،
قربانی کی حیثیت کے سلسلہ میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آقا نے فرمایا، یہ تمہارے باپ ابراھیم کی سنت ہے، سوال کرنے کامقصد یہ تھا، قربانی صرف ہماری امت میں ہے یا ہم سے پہلے جو لوگ تھے، ان کے لئے بھی قربانی کاعمل تھا، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کاطریقہ ہے،حضرات صحابہ کرام نے عرض کیا اے اللہ رسول اس میں ہمارے لئے کیا ثواب ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہربال کے عوض نیکی ہے، لیکن یہ ثواب تبھی ہے جب اللہ کی رضا کے لئے ثواب کی امید سے قربانی کی گئی ہو نام نمود ریاکاری کے لئے یا گوشت کھانے کے ارادے سے قربانی کیا تونہ ذمہ سے وجوب ساقط ہوگا اور نہ ہی اس پر کوئی ثواب ملے گا، فقہاء نے قربانی کی جوتعریف کی ہے اس میں قربت کی شرط لگائی ہے، علامہ شامی رحمہ اللہ فتاوی شامی میں فرماتے ہیں،
فلاتجزئ التضحیہ بدونہا لان الذبح قدیکون للحم وقدیکون للقربہ والفعل لایقع قربہ بدون ..فتاوی شامی جلد ۹.صفحہ.۴۵۶
یعنی بغیر ثواب کی امیدکے قربانی کرناکافی نہیں اس کی وجہ یہ ہے کیونکہ کبھی ذبح گوشت کھانے کے ارادہ سے کیاجاتاہے اورکبھی ثواب کی امیدکی نیت سے، اور نیت کے ذریعہ ہی ممتاز ہوگا، اب نیت کامسلہ یہ ہے اگر خریدتے وقت نیت کرلیاتب بھی کافی ہے،اور سورہ حج میں خود اس کااعلان کردیا کہ اللہ کےیہاں گوشت اور خون نہیں پہنچتابلکہ تمہارے دلوں کاتقوی خداکے یہاں پہنچتاہے، قربانی کا ثواب تبھی ہے، جب رضائے الہی کے لئے ذبح کیاجائے،
.......جانور کوقربان کرناضروری،
 البتہ قربانی کاتعلق جانور سے بھی جڑاہواہے، ہماراعمل باعث ثواب تبھی بنے گا، جب ہم جانور کواللہ کی راہ میں قربان کریں، علامہ شامی رحمہ اللہ نے فتاوی شامی میں اس بات کی صراحت کردیاہےکہ اگر کوئی شخص قربانی کے جانور کی قیمت قربانی کے ایام میں صدقہ کردے تواس سے اس کے ذمہ سے قربانی کاوجوب ساقط نہیں ہوگا، کیونکہ شریعت نے جس فعل کوجس طرح مشروع کیاہے اس کی ادائیگی ضروری ہے، لہاذاان لوگوں کااعتراض دفع ہوگیا کہ جانورکوذبح کرنے کی کیا ضرورت غریبوں کوروپیہ صدقہ کردیاجائے، قربانی میں نیت کے اصلاح کے ساتھ ساتھ خوش دلی کے ساتھ فربہ جانور کے ذبح کرنے کا حکم ہے،
.......تکبیر تشریق،
ایام تشریق جوکہ ۹ ذی الحجہ سے تیرہویں ذی الحجہ کے ایام کوکہاجاتاہے، تشریق کہنے کی وجہ ہے، اہل عرب ان ایام میں گوشت سکھاتے تھے، تشریق کامعنی گوشت سکھانے کے ہیں، اس لئے ان ایام کوایام تشریق کہاجاتاہے، نویں ذی الحجہ کی فجر سے لے کرتیرہویں ذی الحجہ کی عصرتک بلند آواز سے تکبیر تشریق یعنی اللہ اکبراللہ اکبرلاالہ الااللہ واللہ اکبراللہ اکبروللہ الحمد، ہرنماز کے بعد مرداور عورت منفرد اورمسبوق ہر شخص کے لئے واجب ہے، البتہ عورتیں تکبیر آہستہ کہیں گے
......قربانی پہلے دن افضل،...
قربانی پہلے دن کراناافضل ہے، اور خود اپنے ہاتھ سے کرنا بہتر ہے اگر ذبح شرعی پرقادر ہو، ورنہ دوسرے سے کراسکتاہے،
......قربانی کاپیغام .......

قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ہے، اللہ تبارک وتعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو طرح طرح کے امتحان میں مبتلاکیا، آزمائش کے طور اللہ تبارک وتعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کواپنے فرزندارجمند جومدتوں بعد بڑھاپہ کی عمر میں وجود میں آیاتھا، اس کوذبح کرنے کا حکم دیا، یقینا یہ امتحان بہت ہی مشکل تھا لیکن اللہ کے احکام پوری پوری بجا آوری کرنے والے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس مشکل امتحان میں بھی کامیابی حاصل کی، اللہ تبارک وتعالی کو حضرت کایہ عمل اس قدر پسند آیا، کہ امت محمدیہ میں قربانی کے عمل کومشروع کیا، تاکہ قربانی کرنے والے کے ذہن میں یہ واقعہ ہو، قربانی کامقصد یہ ہے کہ ہمیں اللہ کی راہ میں ہرلمحہ خواہ وہ کتناہی مشکل امر ہو اس کے لئے تیاررہناچاہیے، اللہ تبارک وتعالی ہم سب کواپنی مرضیات پرچلائے...آمین..